انسان دوستی ، عالمی امن کی بنیاد

شعلوں میں لپٹی فضاء،ہرسو بارود کی بو ، لہولہان سڑکوں ، جلی کٹی لاشوں کے درمیان آہ و بکا! صرف امن کے لیے ؟تیسری ایٹمی المی جنگ کے منڈلاتے سایوں نے لاشعور میں وہ خوف پیدا کردیاہے جسکی شدت میں ہرآئے دن اضافہ ہی ہورہاہے ۔ دہشت گردی ی تازہ خونی لہر نے دینا ء عالم کے امن کو تہہ بالا کرکے رکھ دیاہے خود کش بم دھماکوں میں انسانی اعضاء کا چیتھڑوں میں تبدیل ہونا وہ خوفناک منظرہے جو انسانی تزلیل کی عکاسی کرتاہے ۔ انسانیت کا حیوانیت کا روپ دھار لینا اور اولادِ ابلیس میں اضافہ ہی دراصل عالمی امن کے دشمن ہیں ۔ عالم اسلام میں انتشار ، مذہبی منافرت اور شدت پسندی کی کوکھ سے جنم لے رہاہے ۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی نے ہمارے معاشرے میں وہ زہر گھولا ہے جسکی سزا نسلیں بھگت رہی ہیں۔

عالمی امن کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکہ نے دہشت گردی کو دہشت گردی کے ذریعے ختم کرنے کی جو منفی سوچ اپنا رکھی ہے اس نے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ بے جرم و خطا عراق اور افغانستان کی عوام پر بارود کی بارش کا مقصد بھی عالمی امن تھا ۔ مگر ہواکیا انسان اور زیادہ غیر محفوظ ہوگیا ۔ انسان کو کیڑے مکوڑے کی طرح کچلا گیا ۔ انسانی رشتوں کو پامال کیا گیا ۔لاشوں کی بے حرمتی کی گئی ۔
\"ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک جان کا بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے\"کا درس لینے اور دینے والے مغربی تہذیب میں اس طرح کھوگئے کہ چند ڈالروں کے بدلے زباں پر تالے لگا رکھے ہیں ۔ مسجدوں ، مدرسوں اور عبادات گاہوں کے تقد س کو پامال کیا گیا ۔ انسانی نفرت کے وہ بیج بوئے گئے کہ انسان دوستی کا تصور ہی دنیا سے مٹتا جارہاہے ۔ انسانیت کی عظمت اور وقار کو تسلیم کرنے سے ہی دنیا میں امن کی آبیاری ہوسکتی ہے ۔ انسان دوستی کے رشتے کو مضبوط کیے بغیر دنیا کو یکجا نہیں کیا جاسکتاہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع کسی بھی معاملے کو کبھی نہیں سلجھا سکتا۔ نسل کشی انسانیت کے منہ تماچا ہے ۔ قیدیوں سے غیر انسانی سلوک شرمناک فعل ہے ۔ گوانتا نامے اور ابو عزیب جیسے بدمعاشی کے اڈے انسانیت پروہ بدنما داغ ہیں جسکی کالک شاید ہی کبھی امریکہ کو نظر آئے ۔ جنسی تشدد اور جسمانی اذیت کی دردناک داستانیں معمول کی باتیں ہیں۔ عالمی امن کے قیام کیلئے بنایاجانیوالا ادارہ اقوا م متحدہ تیسری دنیا پر تسلط کا ذریعہ بن چکا ہے ۔ چند سر کردہ قوتوں کے مفادات کے تحفظ میں یہ ادارہ اپنا اعتماد کھو چکا ہے ۔ اجتماعی انسانی قتل کی داستانیں رقم کرنے میں اس ادارہ کا کلیدی کردار ہے اسرائیل کی فلسطین میں اور بھارت کی کشمیر میں غیر انسانی اور دل کو ہلا دینے والی کا روائیوں پر اقوام متحدہ کی خاموشی اور ہٹ دھرمی عالمی امن کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔
انسان دوستی کی حقیقی جھلک دیکھنی ہے تو پھر ہمیں جانا ہوگا مواخات مدینہ کی طرف جہاں انسان دوستی کی وہ لازوال مثالیں قائم کی گئیں جنکو انسانی تاریخ پھر کبھی نہ دوھرا سکی ۔ انسان دوستی کا درس لیناہے تو خطبہ الوداع کا مطالعہ کرناہوگا۔ جہاں ایک انسان کی مال ، عزت اور جان کو کو دوسرے انسان کے لیے حرام قرار دیا گیاہے ۔ اسی درس کو جب خلفاءِ راشدین نے عام کیا تو ہزاروں مربع میل تک امن کی یہ حالت تھی شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔

دنیا کے موجودہ نقشہ میں تیزی سے آتی ہوئی تبدیلی کے پیچھے انسانی رویوں کا بدلناہے ۔ وزارت ،عمارت اور صدارت کے پرستاروں نے انسانی سوچ کے وہ گھٹیا معیار قائم کردیے ہیں جہاں انسان انسان نظر نہیں آتا۔ آمرانہ طرز سوچ نے انسانیت میں ایک بہت بڑی خلیج پیدا کردی ہے ۔ حکمرانوں کا رعایا پر غیر انسانی سلوک انسانیت کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے ۔
؂ تخت و تاج بدل دیتے ہیں شاہوں کے مزاج
ورنہ چنگیز بھی آغوش میں خون خار نہ تھا

بربریت اور درندگی کی انسانیت سوز داستانیں عالمی امن کے بڑھتے ہوئے خطرات میں مزید اضافہ کررہی ہیں ۔ دولت نے انسان کو اندھا کردیاہے ۔ اقتدار کے گورکھ دھندے نے نہ جانے کتنوں کے سہاگ اجاڑ ے ہیں کتنوں کے لخت جگر جد ا کردیے اور کتنوں کی آخری عمر کے سہارے چھین لیے ۔ انسانوں سے زیادہ اقتدار سے پیار۔ انسانوں سے زیادہ جاہ جلال سے پیار نے امن کو برباد کردیاہے۔ نام نہاد عزت و وقار کو بچانے اور دنیا میں برتری قائم کرنے کی دھن میں ہزاروں انسانوں کو ے دردی سے کچلا جارہاہے ۔ امن کے نام پر لاکھوں معصوم لوگوں کو بھونا جارہاہے ۔

موت کا یہ کھیل کب تک ، آخر کب تک چلے گا؟

انسان دوستی کی ریت کب واپس آئے گی ؟ اور جس دن انسان دوستی عام ہوگئی دنیا ام کا گہوارہ بن جائے گی ۔ ایثار اور بے لوثی کی اصلاحات دنیا میں پھر لوٹ آئنگی پھر خود کش کی بجائے جرائم کش دھماکے ہونگے ۔احساس برتری اور تسلط قائم کرنے کی خواہش ختم ہوجائیگی ۔ انسان میں جب اُنس کا مادہ پھر سے پیداہوجائے گا تو پھر راہزن رہبر بن جائنگے ، محمودوں کی صف ایازوں سے پرے نہیں ہوگی اور پھر جمہور سے سلطانی جمہور درے نہیں ہوگی۔اور امید قوی ہے کہ علماء حق خوف کی علامت نہیں رہیں گے۔ آج وہ وقت ہے کہ ہمیں رنگ و نسل ، لسانیات، صوبائیت، اور مذہبی منافرت جیسے ناسور کو جڑوں سے اکھاڑ دینا چاہیے۔ اور وطن عزیز کو ایک مرتبہ پھر امن و آشتی کا گہوارہ بنا دینا چاہیے۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114730 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More