بارہ جنوری ٢٠١٠ کو سلیم صافی کی
تحریر جنگ میں شائع ہوئی جس کا نام “عسکریت پسندی - اصل مجرم کون ؟“ ہے۔
ہمارے ایک بھائی نے اس تحریر میں سے چند باتیں تو تحریر کیں اور باقی جس سے
“مذہبی سیاسی لیڈران “ نامی گروپ کو چوٹ لگ رہی تھی اس کو نہیں تحریر کیا
اسلیے چیزیں ہماری ویب ڈاٹ کوم کے ایک ساتھی دانستہ یا نادانستہ چھوڑ گئے
تھے ان کو بالحاظ اہمیت پیش خدمت کیے دیتے ہیں تاکہ تشنگی نا رہے اور بات
صاف صاف سامنے آجائے۔
سلیم صافی تحریر فرماتے ہیں
“ جس طرح اسکولوں کو اڑایا گیا، جس طرح گلے کاٹے گئے، جس طرح پاکستان کو
“دہشتستان“ بنا کر امریکہ اور ہندوستان جیسی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا گڑھ
بنایا گیا، اس کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف عوام سطح پر جو فضا بنی ہے اس
کے تناظر میں ان کے ساتھ مصالحت کی بات کرنا پاکستان میں ناممکن ہوتا جا
رہا ہے۔ لیکن میں چونکہ عمل کے نتائج اور نیت کو الگ لاگ ڈیل کرنے کا قائل
ہوں اس لئے آج ایک بار پھر بھاری قیمت چکانے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو کر
عسکریت پسنوں کے حوالے سے تصویر کا ایک اور رخ سامنے لانے کی کوشش کر رہا
ہوں۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو
ہیرو بنا کر اس راستے پر لگایا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ فریضہ امریکی، عرب
حکمرانوں، پاکستانی جرنیلوں اور بعض دینی سیاسی جماعتوں نے انجام دیا اور
مقصد پورا ہوجانے کے بعد پہلی فرصت میں امریکہ نے اور پھر عرب حکمرانوں نے
ان لوگوں سے آنکھیں پھیر لیں۔ پاکستانی پالیسی ساز اور پاکستان کے مذہبی
سیاسی لیڈر نائن الیون تک ان کو شہ دیتے رہے۔ تب تک کسی نے ان کو نصیحت کی
اور نہ سمجھانے کی کوشش۔ ہر ایک ان کو شاباش دیتا رہا۔ نائن الیون کے بعد
پاکستانی حکمرانوں نے بھی ان کے ساتھ بے وفائی کردی جبکہ پاکستان کے سیاسی
مذہبی لیڈر تادم تحریر ان کو بلواسطہ شاباش تو دے رہے ہیں لیکن ان کے اور
ان عرب حکمرانوں، جن کے پاکستانی کے یہ مذہبی لیڈر اور حکمران ہمہ وقت مدح
سرائی اور چاپلوسی کرتے رہتے ہیں، کے مابین کسی طرح کی مصالحت کرانے کی
کوشش نہیں کرتے۔ کسی زمانے میں یہ لوگ اسامہ بن لادن کی تصاویر سے اپنے
جلسوں کو کامیاب بناتے تھے لیکن آج ان میں کوئی بھی نہیں جو ان کے بچوں کو
پناہ دے سکے، ورنہ وہ ایران اور دیگر ممالک میں کیوں دربدر ہوتے۔
یہی معاملہ افغانستان کے مجاہدین یا طالبان اور پاکستان کے مجاہدین اور
طالبان کا بھی ہے۔ گزشتہ کالم میں پاکستان کے مذہبی سیاسی رہنماؤں اور خطے
میں جہادی کلچر یا طالبانائزیشن کو فروغ دینے والے جرنیلوں کے صاحبزادوں
(صاحبزادیوں کی تفصیل بھی دستیاب ہے لیکن دانستہ اس کے تزکرے سے گریز کیا)
کا تزکرہ کیا گیا تھا کہ کسی ایک کا بچہ بھی طالبان کے ساتھ مورچے میں
بیٹھا ہے اور نہ فدائی کاروائی کرنے جارہا ہے لیکن اس کے برعکس جن لوگوں کو
اس وقت ہم “دہشت گرد“ کہہ رہے ہیں ان میں سے بیشتر کی قربانیاں اپنی مثال
آپ ہیں۔ “
(اور پھر جو کچھ ہے جو ہمارے ایک بھائی سلیم اللہ شیخ صاحب نے اپنے کالم
میں تحریر کیا )
(اور آگے سلیم صافی صاحب کے مذکورہ کالم میں جہاں جہاں لفظ “مذہبی سیاسی
جماعتیں “ یا “مذہبی سیاسی لیڈرز“ تحریر ہے اس کو “مذہبی و سیاسی جماعتیں “
یا “مذہبی و سیاسی لیڈر “ نہ پڑھا جائے بلکہ یہ خالصتاً ان جماعتوں کے لئے
معلوم ہوتا ہے جو بیک وقت اپنی ہییت و تشکیل و منشور کے مطابق کلی مذہبی
سیاسی جماعتیں ہیں ۔ یہ اس ناچیز کا ذاتی تجزیہ ہے)
(آگے سلیم صافی صاحب تحریر فرماتے ہیں)
“ غور سے دیکھا جائے تو اصل مجرم وہ نہیں جنہیں ہم “دہشت گرد“ کہتے ہیں اور
جو اپنے جسموں سے بم باندھ کر ہم جیسوں کو اڑا رہے ہیں بلکہ اصل مجرم وہ
لوگ ہیں جنہوں نے انہیں اس راستے پر لگایا، ان کے زریعے اپنے اسٹریٹیجک
مقاصد حاصل کئے، ان کے نام پر اپنی سیاست چمکائی اور اب انہیں بند گلی میں
چھوڑ کر تماشہ دیکھ اور ان کے نام پر اپنے مقاصد پورا کر رہے ہیں۔ ملا محمد
عمر افغانستان میں حکمران تھے تو اس عاجز نے ان کی حکمت عملی پر اس قدر
تنقید کی کہ ان کی حکومت کی قید کا مستحق قرار پایا۔ ١٩٩٩ میں یہ طالب علم
میدان صحافت میں نووارد تھا کہ طالبان پر تنقید کے جرم میں افغانستان میں
گرفتار کیا گیا لیکن ہمارے جرنیلوں اور مذہبی سیاسی لیڈروں نے کبھی بھی
سادہ لوح ملا محمد عمر کو عالمی صورتحال کی نزاکتوں کے تناظر میں سمجھانے
کی کوشش نہیں کی۔ یہ لوگ آخری وقت تک انہیں شاباش دیتے رہے اور جب ان پر
مشکل آن پڑی تو پھر جرنیلوں نے پلٹا کھایا اور مذہبی سیاسی لیڈروں نے صرف
مظاہروں پر اکتفا کیا۔ یہی معاملہ بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، قاری
حسین، مولوی فقیر محمد، حافظ گل بہادر، مولوی نذیر اور دیگر طالبان لیڈروں
کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد بھی ہم باز نہیں آئے اور ان کی
سرگرمیوں سے اعراض کا رویہ اختیار کر کے بلواسطہ ان کو شاباش دیتے رہے۔
پھرجب دباؤ آیا یا اسٹریٹجک ضرورت محسوس ہوئی تو ان کے خلاف کاروائی شروع
کردی گئی۔ جس کی وجہ سے ان کے انتقام کا سارا رخ پاکستان کی طرف ہوگیا۔ بہت
سارے اب بھی ایسے ہیں جو پاکستان سے نہیں لڑنا چاہتے اور جن کے بارے میں
ہماری ریاست کی پالیسی اب بھی اعراض والی ہے لیکن یہ صورتحال رہی تو
خدانخواستہ عنقریب وہ بھی اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیں گے۔
مکرر عرض ہے کہ ان کی سرگرمیاں اسلام، پاکستان اور خود ان کے لئے نقصان دہ
ثابت ہو رہی ہیں لیکن اصل قصوروار وہ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انہیں
اس راست پر لگا کر تنہا اور بے مہار چھوڑ دیا۔ جنہوں نے انہیں جہاد کی
تلقین کی، لیکن اس کی شرائط نہیں سمجھائیں۔ میرے نزدیک تو وہ ہمارے سوسائٹی
کی کریم ہیں جنہیں ہم نہ صرف ضائع بلکہ اپنے خلاف استعمال کرتے ہوئے ضائع
کررہے ہیں۔ یہ ملک تو مجھ جیسے گناہ گاروں سے بھرا پڑا ہے جو ملک کی خاطر
اپنے چھوٹے سے چھوٹے مفاد کی قربانی نہیں دے سکتے اور جو اللہ کی رضا کے
لئے فجر کی نماز کے لئے اٹھنے یا پھر ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے تک کی زحمت
گوارا نہیں کرسکتے لیکن یہ مجاہدین جنہیں اب ہم “دہشت گرد“ کہتے ہیں اور جو
واقعی پاکستان کے اندر دھماکے کر رہے ہیں اس قدر بے غرض اور مخلص ہیں کہ
ملک کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ چکے اور جو اللہ کی رضا کی خاطر اپنے جسموں
سے بم باندھتے اور زندگی کا خاتمہ کرتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں کہ مذاکرات ہوئے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا، اس لئے اب طاقت کے سوا
کوئی چارہ نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مذاکرات کس نے، کس کے ساتھ اور کب کئے؟
ماضی میں جو مذاکرات ہوئے، ان سے میں نہ صرف اچھی طرح واقف ہوں بلکہ
مذاکرات کے ہر سلسلے اور ہر معاہدے کا ناقد بھی رہا ہوں۔ وجہ اس کی یہ تھی
کہ یہ مذاکرات ہمیشہ غلط وقت پر، غلط طریقے سے، غلط لوگوں کے ذریعے، غیر
متعلقہ لوگوں سے کئے گئے۔ یہ مذاکرات ہمیشہ “جز“ سے کئے گئے اور کبھی بھی
“کل“ کے ساتھ باتھ نہیں کی گئی اس لئے مذاکرات اور معاہدوں کے ہر عمل کا
الٹ نتیجہ نکلا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کیاں فلسفہ تراشنے اور پھیلانے والے معزز ہیں لیکن اس پر
عمل کرنے والے گرد زدنی۔ یہاں نعرہ لگانے والے معزز ہیں اور نعرے کو عمل کا
روپ دینے کی خاطر مرنے اور مارنے پر تیار ہونے والے معتوب۔ یہاں دوسروں کے
بچوں کو مروانے والے محترم لیڈر ہیں اور اپنی ذات کی قربانی دینے والے
مجرم۔ امریکہ اور ہندوستان اگر دشمن ہیں تو ان سے کسی خیر کی توقع ہے اور
نہ ان سے شکایت کرنے کا کوئی جواز۔ سازش، دھونس اور دھوکہ، وہ ویسے کرتے
رہیں گے جیسا کہ ایک دشمن کرتا رہتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اپنوں نے کیا
کیا ؟ پاکستان میں اب بھی اسٹیبلشمنٹ سے لے کر بعض سیاسی اور بیشتر مذہبی
قائدین تک سب یہ سوچ پھیلا رہے ہیں کہ امریکی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں
ملوث ہیں۔ ہر منبر اور جلسہ سے یہی صدر بلند ہوتی ہے کہ امریکہ کا علاج
جہاد ہے۔ غیر ریاستی اور پرائیوٹ جہاد کی وکالت ہمارے مذہبی سیاسی لیڈر حسب
سابق کر رہے ہیں۔ طاقت کے ذریعے شریعت کے نفاز کی جدوجہد کے جائز ہونے کا
فلسفہ اسی شان سے زندہ رکھا جا رہا ہے۔ “کشمیر بزور شمشیر“ اور “جہاد
افغانستان، دفاع پاکستان“ کا فلسفہ اب بھی ہر فورم سے ذہنوں میں راسخ کیا
جا رہا ہے لیکن پھر جو لوگ ان نعروں اور اس فلسفے پر عمل کرنے پہاڑوں پر
چلے جاتے ہیں انہیں ہم مجرم بنالیتے ہیں۔ وہ ہماری پڑھائی ہوئی پٹی پر عمل
کر کے افغانستان اور کشمیر آزاد کرانا چاہتے یں لیکن پھر ہم انہیں وہاں
جانے دیتے ہیں اور نہ ان کے ساتھ چلتے ہیں اور بعض اوقات غیر ملکی دباؤ میں
آکر انہیں مارنے لگ جاتے ہیں۔ اس صورت میں وہ اپنے غصے اور انتقام کا نشانہ
ہمیں نہیں بنائیں گے تو اور کیا کریں گے؟ مفروضوں کی بنیاد پر باتیں کرنے
والے بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ لوگ اگر امریکہ کے دشمن ہیں تو
افغانستان جا کر کیوں نہیں لڑتے لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ دوستی میں جب
کوئی دھوکہ دے دیتا ہے تو پھر دشمن سے زیادہ حصے کا نشانہ دھوکہ دہی کا
مرتکب ہونے والا دوست بنتا ہے۔ ہم جب ان سے عرض کرتے ہیں کہ پاکستان ایک
منظم ملک ہے اور یہاں طاقت کا استعمال جائز نہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ
تو حکومت میں بیٹھے مولانا فضل الرحٰمن اور منور حسن، عمران خان اور میاں
نواز شریف جیسے مین اسٹریم کے سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی
پالیسیاں امریکہ بناتا ہے اور یہاں بلیک واٹر والے دندنانے پھرتے ہیں۔ وہ
یہ کہتے ہیں کہ اگر حامد کرزئی اور ان کی فورسز سے اس بنیاد پر لڑنا جائز
ہے کہ وہ امریکہ کے اتحادی ہیں تو پاکستانی حکمران اور ان کی فورسز کیا
امریکہ کے اتحادی نہیں ہیں؟ کیا پاکستان کے دینی اور سیاسی جماعتوں کے
قائدین ان کے اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں اور کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں
نکلتا کہ طالبان کی جنگ کو نظریاتی غذا ہم خود فراہم کر رہے ہیں لیکن پھر
ہم بڑی ہوشیاری سے ان کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے یا پھر ان کی
کاروائیوں کو دوسروں کے گلے ڈال کر اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دلوانے کی
کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب کے لئے بے انتہا احترام کے باوجود اس عاجز
کو کہنا پڑتا ہے کہ اصل مجرم طالبان نہیں بلکہ ہم ہیں اور یقیناً آپ سمجھ
تو گئے ہوں گے کہ “ہم“ کون ہیں۔“
بھائی سلیم اللہ شیخ سے معذرت کے ساتھ کہ چند باتوں کو سلیم صافی صاحب کے
کالم سے اٹھا کر تجزیہ پیش کردینا کہ “قارئین اس طرح یہ بات واضع ہوتی ہے
کہ جہادی رہنماؤں نے صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی طور پر اپنی جان و
مال کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا اور اپنی اولادوں کو بھی اللہ کی راہ میں
قربان کیا۔
جہاں تک مذہبی جماعتوں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی بات ہے وہ بھی بڑی
عجیب ہے بات دراصل یہ ہے کہ سیاسی فائدے اٹھانے والی سیاسی مذہبی جماعتوں
سے لوگ بیزار ہیں وگرنہ مذہبی جماعتوں کے کارنامے اور خدمات تو بے مثل ہیں
اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی مذہبی جماعتوں کی روش سے لوگ سخت نالاں اور شاکی
ہیں ہوسکتا ہے یہ بات آپ کو تسلیم نا ہو۔
ہاں یہ بات ضرور طے ہے کہ پورا مضمون پڑھنے کے بعد سمجھنے والوں کے لیے بڑا
آسان ہوجائے گا کہ سلیم صافی کا مذکورہ مضمون جس “ہم“ کے گرد گھومتا ہے اس
میں فوج، اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں کے ساتھ وہ گروپس کون ہیں جو بیک وقت فوج،
اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں کو اپنے سیاسی مذہبی اثر و رسوخ سے متاثر کرتے رہے۔
اپنے آپ کو ہدایت سے مبرا سمجھنے کی فاش غلطی کرنے یعنی اللہ سے یہ دعا
کرنے کہ اللہ ان کو ہدایت نصیب فرمائے کی جگہ یہ دعا کرنا زیادہ موضوع و
مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے
اور یہ “ ہم “ سلیم صافی صاحب کے “ہم“ والا نہیں بلکہ مفہوم عام میں اس ہم
کا مطلب لیا جائے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ دین کی سمجھ اور عمل صالح نصیب فرمائے اور ہمارے
دانستہ اور نادانستہ ہوجانے والے گناہوں کو درگزر فرمائے اور ہمارے حال پر
رحم فرمائے اور اپنی رحمت کا سایہ ہم پر دیر تک اور دور تک قائم فرمائے اور
بحیثیت مسلمان ہمیں اللہ کا صحیح مطیع و فرمانبردار بنائے اور اس دنیا میں
اور آخرت میں ہماری مشکلات آسان فرمائے اور پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سچی پیروی کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہمارے لیے بہتر
جو مانگ سکے وہ بھی عطا فرمائے اور جو نا مانگ سکے وہ بھی محض اپنے لطف و
کرم سے عطا فرمائے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
والسلام آپ کا بھائی |