اس حسین وادی کا دھند سے گہرا رشتہ ہے ۔یہ واد ی سال کے
بیشتر حصہ میں دھند کی چادر اوڑھے اپنا اصل رنگ روپ ساری دنیا سے چھپائے
رکھتی تھی ۔ اپنے مکینوں کے دکھوں ، تکلیفوں پر دبیز چادر ڈال کر انھیں
ساری دنیا سے کاٹ دیا کرتی تھی ۔ یہ سوگوار وادی اکثر اپنے چہرے کے آنسو
چھپانے کے لیے اسی دھند کا سہارا لیا کرتی تھی ۔سفید دھند اور اس وادی کا
اٹوٹ بندھن صدیوں سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گا ۔ نہ ٹوٹنے والے اس
رشتے کودونوں فریق مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے ۔
شانزے بھی اس وادی کی طرح اپنے چہرے کو مسکراہٹوں اور مصنوعی سہاروں سے
ہمیشہ چھپائے رکھتی تھی ۔بظاہر دنیا دار لیکن اندر سے اس دنیا سے نفرت کا
جذبہ رکھے وہ اسی دنیا کی رنگینیوں میں جی رہی تھی ۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی
کہ یہ دھند اس کے اندر زیادہ تھی یاباہر ۔ اس کی زندگی میں محبت کے بہت سے
قصے موتیوں کی طرح جڑے تھے لیکن وہ آج بھی محبت کی تلاش میں ہے ۔اسے کسی سے
شدید محبت ہے لیکن کس سے وہ خود بھی اس سے واقف نہیں ۔ اس کا دل و دماگ اسی
شش و پنج میں رہتا ہے کہ اسے کس سے محبت ہے ۔ محبت ہے بھی یا نہیں ۔وہ یہ
سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ یہ عشق حقیقی ہے یاعشقِ مجازی ۔ اس کی روح اکثر
اس محبت میں محوِرقص رہتی ہے ۔ وہ عشق ِحقیقی کی جانب دیکھتی ہے تو خود کو
ان فٹ محسوس کرتی ہے ۔ اس نے تو کبھی ڈھنگ سے نماز تک نہیں پڑھی سر پر
دوپٹہ تک لینے کی زحمت نہیں کی لیکن اگر یہ عشقِ مجازی ہے تو اس کا محور
کون ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب وہ آج تک نہیں جان پائی ۔ وہ نہ و درویش
ہے اور نہ ہی مجذوب وہ دنیا داری میں ڈوبی ہوئی عورت ہے ۔بظاہر لوگوں کی
نظر میں وہ ایک بھٹکی ہوئی عورت ہے ۔ وہ کوئی عام عورت نہیں ایک اعلی ٰ
عہدہ دار ، دنیاوی طور پر کامیاب ، دولتمند اور ایک سماجی کارکن کی حیثیت
سے کام کرنے والی وہ معاشرے میں ایک مقام رکھتی تھی ۔ اس میں صرف ایک خوبی
تھی کہ اس سے لوگوں کا دل دکھانے سے بہت خوف آتا تھا ۔ ایک سوشل لیڈی ہونے
کی وجہ سے مختلف جگہوں پر آنا جانا رہتا تھا وہ مختلف لوگوں سے ملنا جلنا
بھی اس کی زندگی کا حصہ تھا ۔
اسی وادی میں جب وہ پہلی بار اس سے ملا تو اسے محسوس ہو اکہ اس کی تلاش
پایا ئے تکمیل کو پہنچ گئی ہے ۔ایک فوجی افسر ، جس کی کانچ سے نیلی آنکھیں
، اعتماد سے بھرپور لہجہ ، چوڑے شانے اور مضبوط جسم اس کی جانب کسی کو بھی
مائل کرنے کے لیے کافی تھا ۔ اپنی اصل عمر سے کئی سال بڑا نظر آنے والا یہ
شخص اس کی زندگی میں آنے والا وہ واحد شخص تھا جس نے اس ے متاثر کیا تھا ۔
وہ اس کی جانب بے اختیار دیکھنے لگی تھی ۔
"سیاست سنبھالنا فوج کا کام نہیں ہے ۔ فوج کا کا م ہے ملک کی سرحدوں کی
حفاظت کرنا ، اس زمین کے خطے کی حفاظت کرنا ۔ ہمیں اس لیے جاگنا ہے کہ
اٹھارہ کروڑ لوگ چین کی نیند سو سکیں ۔" اعتماد سے بھرپور لہجہ ، اس کے بے
انتہا سچا ہونے کی علامت تھا ۔ بہت سے لوگوں کے درمیان اس کی مستحکم آواز
متاثر کن تھی ۔
"لیکن! مسٹر فوج ملک کے ہر معاملے میں ٹپک آتی ہے ۔"چہرے پر مسکان سجائے
شستہ انگریز ی میں بولتے ہوئے شانزے نے کہا
"حارث ۔ میرا نام حارث ہے ۔ "جواباَِاس نے بھی مسکرا کر ااپنا تعارف کرایا
"شانزے ۔ "شانزے نے بھی تعارف کرایا
"مس شانزے ۔ یہ جو آپ لوگ آرام سے سوتے ہیں ناں آپ کی نیندوں میں ہم جیسے
لوگوں کی نیندیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔ مجھے دیکھیے ! میں پچھلے تیرہ برس سے
نہیں سو پایا ۔ میں سوتا ہوں تو مجھے اپنے تکیے سے خون کی بو آتی ہے ۔ ان
تمام لوگوں کے خون کی بو جو میری جگہ اپنی جان دیتے رہے اورمیں ان ساتھیوں
کی لاشیں اٹھاتا رہا ۔" اس کے لہجے کی پختگی اور مضبوطی شانزے کو مہبوت کیے
دے رہی تھی۔
"مسٹر حارث !یہ واقع ہی ایک مشکل کا م ہے لیکن فوج کا بعض معاملا ت میں دخل
بہتر نہیں ۔" اب اس کا لہجہ قدرے پست تھا
"مس ۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن یوں جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے لوگوں کی حفاظت
کرنا اپنے ساتھیوں کو اپنے سامنے جان دیتے ہوئے خون میں لت پت دیکھنا اور
پھر ان بیٹوں کی لاشوں کو ان کی ماؤں کے سامنے جا رکھنا آسان نہیں ہے ۔ پھر
جب آپ جیسے لوگ ہم جیسوں پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیں اپنے حوصلے پست ہوتے
نظر آتے ہیں ۔اس دہشت گردی کی جنگ میں ہم میں سے کتنے شہید ہوئے آپ لوگ کیا
جانیں ۔ آپ وہ لوگ ہیں جو دوربیٹھ کر صرف تنقید کر سکتے ہیں ۔ آپ لوگ ہماری
کمروں پر دیوار کی طرح کھڑے ہونے کی بجائے ان میں چھرا گھونپ رہے ہیں ۔" اس
کے لہجے میں نہ جانے کتنے برس کا دکھ جھلک رہا تھا ۔
وہ اس شخص کے دکھ کو اپنے اندر اترتا محسوس کر رہی تھی اس شخص کا پراعتماد
لہجہ اس کے سچا ہونے کا پتہ دیتا تھا ۔وہ اس کی آنکھوں میں ڈوبتی جا رہی
تھی ۔حارث سے اس کی کیفیت چھپی نہ تھی وہ بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
بات کر رہا تھا ۔ کافی دیر کی گفتگو کے بعد انھوں نے موبائل نمبروں کا
تبادلہ کیا اور دونوں ایک دوسرے کے دلوں پر انمٹ نقوش لیے اپنی اپنی منزلوں
کو لوٹ گئے ۔
وقت اپنی رفتار سے گزرتا گیا کہ چند دونوں بعد شانزے کو حارث کی جانب سے
ایک مسیج موصول ہو ا ۔
"مس شانزے کیسی ہیں آپ ۔"؟ شانزے نے میسج کھولا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے
کانچ سی نیلی آنکھیں اور سچائی سے مزین چہرہ چھپاک سے آن کھڑا ہوا ۔ اس نے
مسیج کا جواب دیا اور اپنی جانب سے مدد کی آفر بھی کی ۔ اس کے بعد ان کی
اکثر میسج اور کال پر بات ہونے لگی ۔ مختلف موضوعات لیے ۔ ملکی مسائل سے لے
کر عالمی افق میں ہونے والی تبدیلیوں پر ۔یہاں تک کہ شانزے کے اندر کی عورت
جاگ گئی ۔ عورت جس کا خمیر ہی محبت سے اٹھا ہے ۔عورت چاہے جتنی بھی سوشل ہو
، جتنے بڑے عہدے پر فائز ہو جائے بظاہر کتنی ہی مضبوط کیوں نہ بن جائے محبت
سے گندھی ہوتی ہے عورت کا دل ہمیشہ نرم رہا ہے مرد کی نسبت عورت ہر بات کو
نہ صرف زیادہ گہرائی سے محسوس کرتی ہے بلکہ اس کے دل کی نرم زمین محبت کے
پودے کو تناور درخت بنانے میں دیر بھی نہیں لگاتی ۔
شانزے اظہار کے معاملے میں کبھی گنجوس نہیں رہی اس نے حارث سے بھی اپنے
جذبات کو چھپانا مناسب نہ جانا ۔ اس نے حارث کو فون کیا خیر خیریت دریافت
کرنے کے بعد اس نے کہا
"حارث میرے دل میں آپ کے لیے ایسے جذبات پیدا ہو چکے ہیں جنھیں آپ ساتھ
رہنے کی خواہش کہہ سکتے ہیں ۔"الفاظ کی سچائی اس کے لہجے سے عیاں تھی ۔
"یہیں رک جاؤ ۔ تم جو بھی کہہ رہی ہو مت کہو ۔ میں جو کام کر رہا ہوں اس
میں اس طرح کی کسی چیز کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ میں آج تک تم سے بات
کرتا رہا ہوں صرف ایک انسان کی حیثیت سے ، جنس سے مبرا اور بالا تر۔" اس
نیتلخی سے کہا
"کیا تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہو کہ تمھارے دل میں میرے لیے
کسی قسم کے کوئی احساسات نہیں ہیں ؟ "شانزے نے پر یقین لہجے میں کہا
"شانزے ! مجھے مشکل میں مت ڈالو۔ میں تمام جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت
رکھتا ہوں ۔"حارث کے لہجے میں تلخی سے زیادہ دکھ چھلک رہا تھا ۔
"دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہو ؟" شانزے نے پھر وہی سوال دھرایا
"میں نے کہا ناں ۔میرے لیے میرا فرض زیادہ اہم ہے ۔ اپنی ذا ت سے کہیں
زیادہ اہم ۔ تمھیں سمجھ کیوں نہیں آتی ۔"حارث کسی الوہی جذبے کے تحت کہہ
رہا تھا ۔ شاید وہ جذبہ اس عارضی محبت کے جذبے سے کہیں بڑھ کر تھا
"حارث ۔ "شانزے کچھ کہنا چاہتی تھی ۔
"شانزے ۔ میرے اور میرے فرض کے درمیان مت آؤ۔ میں تمھاری ذات کو اپنے سر پر
سوار نہیں کر سکتا ۔ تمھیں میرے راستے سے ہٹنا ہو گا ۔ میری راہ کھوٹی مت
کرو ۔ "اس کے لہجے میں سختی تھی
"تم اتنے پتھر دل کس طرح ہو سکتے ہو ؟۔"شانزے نے کہا
"میں ہوں پتھر دل ۔ اس لیے کہ اگر میں پتھر دل نہ ہوں تو اس ملک کی نا جانے
کتنی عورتیں بیوہ ہو جائیں ، نہ جانے کتنی مائیں اپنے بیٹوں کو کھو دیں ۔
میرے لیے ایک ذات اہم نہیں اس ملک کی ہر لڑکی کی عزت کی حفاظت اہم ہے ۔ملک
کے چپے چپے کی حفاظت " اس کے لہجے میں حب وطنی کا جذبہ کسی سمندر کی طرح
ٹھاٹھیں مار رہا تھا
"کیا تم کہہ سکتے ہو کہ تمھارے دل میں کوئی جذبہ موجود نہیں ؟ " شانزے نے
پھر وہی سوال دھرایا ۔ اسے یقین تھا کہ حارث کے دل میں بھی اس کے لیے یہی
جذبات ہیں جو وہ محسوس کرتی ہے ۔
"جذبہ ۔۔"یہ لفظ کہہ کر اس نے گہری سانس لی پھر یوں گویا ہوا۔
ہاں ۔ بتاؤ مجھے ۔ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ؟ شانزے نے اسرار کیا
" میرے دل میں تمھارے لیے نرم گوشہ ضرور ہے ۔ میں جذبات سے عاری نہیں ۔ میں
بھی انسان ہوں لیکن میرے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ اہم میرا فرض ہے ۔ مجھے
علم ہے کہ میری زندگی میں اس قسم کی کسی چیز کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ مجھے
معاف کر دینا ۔شانزے ۔" اس نے ایک گہری سانس لی اور فون بند کر دیا۔ شانزے
کے سر پر گویا آسمان ٹوٹ پڑا ، زمین آہستگی سے پاؤں کے نیچے سے سرک گئی ۔
موبائل اس کے ہاتھ سے گر پڑاور وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔اس کی تمام ہمت
اور حوصلہ جواب دے گیا ْ
اسی لمحے شانزے کو محسوس ہوا کہباہر کی دھند تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے
لی گی یا اس کے اندر کی دھند اس قدر بڑھ جائے گی کہ اندر اور باہر کی دھند
آپس میں جا ملیں گی ۔ دھند آہستہ آہستہ پھیلنے لگی ۔
"حارث ۔ یہ دھند مجھے کھا جائے گی ۔ حارث ۔" اس نے اپنی پوری قوت سے چیخ کر
کہا
"حارث ۔۔"۔ وہ چیخ چیخ کر پکارنے لگی
"مجھے بچاؤ حارث ۔مجھے بچا لو ۔ تم تو محافظ ہو تو میری حفاظت کیوں نہیں
کرتے "۔ وہ چیختی رہی
لیکن یہ آواز سننے والا کوئی نہیں تھا ۔ دھند آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی
۔ ا س کا جسم آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہونے لگا ۔اس کے کانوں میں حارث کے جملے
گونج رہے تھے اس نے اپنے کانوں پرہاتھ رکھ لیے ۔لیکن آوازیں متواتر آتی رہی
اور یہ آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی ۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ شاید
اس کا دم گھٹ جائے گا ۔دھند بڑھنے لگی یہاں تک کہ اس کے اندر کی دھند باہر
کہ دھند سے جا ملی ۔ چہار جانب دھند ہی دھند تھی اور اس دھند کے درمیاں
قطرہ قطرہ اس کا جسم تحلیل ہونے لگا۔ وہ دھند میں تحلیل ہوتے اپنے جسم کو
دیکھنے لگی ۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔تکلیف کا احساس اس کے رگ وپے
میں سرایت کر گیا ۔ یہ ایک عجیب سا درد تھا جو اس کے جسم کی حدود سے نکل کر
اس کی روح تک میں اتر گیا تھا ۔ ایک ایسا درد کہ وہ چاہتی تھی کہ نہ تو یہ
درد کم ہو نہ زیادہ بس دھیما سا سلگتا رہے ۔ کسی انگارے کی صورت جو نہ تو
جل پاتا ہے نہ بجھ سکتا ہے ۔ اس کی روح اس گیلے کاغذ کی مانند سلگنے لگی جس
کو آگ لگی ہو لیکن وہ جل نہ پائے ۔ پھریوں ہوا کہ اس کی ذات ٹکڑے ٹکڑے ہو
کربالآخراس دھند میں مکمل تحلیل ہوتی چلی گئی ۔ایک ایک ٹکڑا اس کی آنکھوں
کے سامنے کئی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا ۔
اور فرض ۔فرض ۔۔چاروں جانب یہ لفظ گونجنے لگا اور اس کی روح اس لفظ کے گرد
رقص کرنے لگی ۔ |