کراچی پریس کلب کی پہلی منزل کے کمرہ اجلاس میں، میرے
سامنے اک ایسی شخصیت موجو دتھیں جن کا نام ہونٹوں پر آتے ہی نگاہیں ادب سے
جھک جاتی ہیں۔ایسی شخصیت جنہوں نے ہمارے معاشرے میں موجود اک ایسے مسئلے کو
نہ صرف ا جاگرکیا بلکہ اسے حل کرنے کیلئے اپنی زندگی کے دس برس گذار
دئیے۔وہ شخصیت کہ جس نے ماضی میں کبھی اپنے گھر کی دہلیزتک پار نہیں کی تھی
آج وہ ملک کے طول و عرض میں مظلوم کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے دیوانہ وار
پہنچتی ہیں۔ان کی انتھک جدوجہد کے سبب سینکڑوں لاپتہ افراد کا نہ صرف پتہ
چل گیا بلکہ وہ اپنے پیاروں کے پاس زندگی کے شب و روز گذار رہے ہیں۔
ایسے لاتعداد لوگ جو اپنے گھروں سے نکلے ،پھر ان کا پتہ نہیں چل سکا،ان کے
پیارے ان کی راہ تکتے تکتے تھک گئے مگر وہ لاپتہ ہی رہے ۔کوئی فون ، کوئی
تار ، کوئی خط ، کوئی اور اطلاع ان کے متعلق نہیں آئی، ان کے پیارے یہ
سوچتے تھے کہ ان کے عزیز کو آسمان نے کہیں چھپا لیا ، یا زمین نگل گئی، یا
وہ سمندر برد ہوگئے۔کچھ پتہ نہیں چلا تو ایسے حا لات میں کچھ ہمت چھوڑ
بیٹھے ، کچھ اس قدر رنجیدہ ہوگئے کہ ان کی اپنی زندگیاں ہی ختم ہوگئیں کچھ
نابینا ہوگئے ۔ ایسے بھی کچھ بزرگ تھے کہ وہ اپنے پیاروں کی راہ تکتے تکتے
خود تھک گئے ، تمام تر پریشانیوں کے باوجود لاپتہ ، لاپتہ ہی رہے۔
کہتے ہیں کہ جدائی کا غم اس سے پوچھو جس کا کوئی پیارا بچھڑ جائے، جدائی کا
کرب ان کے عزیز و اقارب سے پوچھیں، اگر معاملہ یہ ہو کہ بچھڑ نے والے کے
بارے میں کچھ علم ہی نہ ہو کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔اس کرب سے اس تکلیف
سے خد ا سبھی کو دور رکھے اور جو اس قرب سے گذر رہے ہیں خدا انہیں جلد اس
سے نکالے ، امین
پریس کلب میں اس وقت ، میرے سامنے وہ شخصیت موجود تھیں جنہوں نے اپنے گھر
کی چوکھٹ کو اس لمحے پا ر کیا کہ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا شریک سفر
لاپتہ ہوگیا ہے، اپنے جیون ساتھی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس شخصیت کو دس برس
ہوگئے تھے لیکن ابھی تک اس کے جیون ساتھی کا کچھ پتہ نہیں چل سکا تھا۔اس
جدوجہد میں گو کہ اس کا اپنا پیارا تو اسے نہیں مل پایا تاہم سینکڑوں لاپتہ
کا نہ صرف پتہ چل گیا بلکہ وہ اپنے گھروں کو بھی پہنچ گئے تھے۔
وہ شخصیت جو اس لمحے میرے سامنے عزم کا پہاڑ بنے بیٹھی تھیں ان کا نام آمنہ
مسعود جنجوعہ تھا ، لیکن راقم سمیت ہزاروں لکھاریوں ، صحافیوں کی وہ آپا یا
باجی کہلائی جاتی ہیں ، وہ آپا سبھی کے سامنے بولے جارہی تھیں، وہاں موجود
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی ان کی گفتگو بڑی غور سے سن رہے تھے، وہ
کہہ رہی تھیں کہ آج پاکستان کا ہر با شعور جبری گمشدگی کی شکل میں جاری
انسانیت کی بدترین تذلیل سے واقف ہے۔جبری لاپتہ افراد کے بارے میں مختلف
مفروضوں پہ بات کرتے ہوئے کچھ لوگ اس سادہ سی تقریب میں شامل اس واضح حقیقت
کو بھول جاتے ہیں کہ لاپتہ افراد صرف لاپتہ افراد ہیں۔ وہ سبھی اس حقیقت کا
ادراک نہیں کرنا چاہتے کہ سرکاری طور پر ان لاپتہ افراد پر کوئی الزام نہیں
۔
اﷲ کے پیغمبروں نے انسانیت کو تہذیب اور انصاف کے اصول سکھائے اور انہی
پیغمبرانہ اصولوں میں پہلا اصول یہ ہے کہ ہر انسان اس وقت تک معصوم ہے جب
تک کہ کھلی عدالت میں اس پر اسکا جرم ثابت نہیں ہوجاتا۔ میں پچھلے دس برسوں
سے اسی اصول کا جھنڈا اٹھائے ملک کی سڑکوں پر نوحہ کناں ہوں۔ دربدر ہوں،
مجھے یہ نہیں معلوم کہ مجھ پر یہ قیامت کیوں ٹوٹی۔کیوں میرے شوہر مسعود
جنجوعہ کو پشاور جاتے ہوئے غائب کر دیا گیا۔ شاید اﷲ آزما رہاہے لیکن یہ
آزمائش صرف میری نہیں ، یہ آزمائش پوری قوم کی ہے ۔ ان دس سالوں میں ، میں
نے کیا، کیا نہیں دیکھا۔ میرے سامنے میرے اسکول کے بچوں کو ڈنڈوں سے پیٹا
گیا۔ انہیں اٹھا کر حوالات میں بند کر دیا گیا۔ ان بچوں کا جرم کیا تھا یہ
ایک سوال کہ ہمارے بابا کہاں ہیں؟؟ بچوں کے بابا تو کھوئے ہی تھے ان کی
تلاش کی جدوجہد شروع کی تو سمجھیں ان کی ماں بھی کھو گئیں۔اسلام آباد میں
پرامن مظاہرے کے دوران میرے حجاب تک کو کھینچا گیا ، اس کے علاوہ مظلوم
ماؤں ، بہنوں ، بزرگوں اور معصوم بچوں تک پر بے دریغ تشدد کیا گیا۔
اﷲ ، اگر آزماتا ہے تو وہ مدد بھی کرتا ہے۔جبر کے اس دور میں اوپر والے نے
صحافی برادری کو میرا دست و بازو بنایا ۔صحافیوں کی اکثریت نے میری پکار
سنی اور اسے ملک کے کونے کونے تک پہنچایا۔ بہت سے صحافی بھائیوں کو تشدد
اور دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر وہ ڈٹے رہے۔شاید اس لئے کہ آمریت اور
جبر کا تازیانہ سب سے پہلے صحافیوں کو سہنا پڑتا ہے اسی لئے وہ میرے دکھ کو
سمجھ گئے تھے۔ پرنٹ ، الیکٹرانک ، ایف ایم سمیت سوشل میڈیا ہر مقام پر
صحافیوں نے میرا قدم قدم پر ساتھ دیا ۔اﷲ نے ان تمام صحافیوں کو بدر کے
فرشتوں کی صورت میرا مددگار بنایا۔ انہی کی مدد کے سبب ملک کے ہر طبقے نے
میرے اصولی موقف کی تائید کی۔ان میں ایسے بھی تھے جو جبری گمشدگی کے مجرموں
کے ساتھی تھے مگر دنیا کے سامنے میرے موقف کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سب
صحافی برادری کے سبب ہی ممکن ہوا۔
آپ سبھی اس دکھ سے واقف ہیں جو کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی روح تک کو
کھا جاتا ہے۔آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کیسے مائیں روروکر اندھی ہوجاتی ہیں ،
بعض تو ذہنی توازن کھوبیٹھے ہیں، کیسے بہنیں اور بیویاں سڑکوں پر ماری ماری
پھرتی ہیں۔دل والے اس زخم کی گہرائی کو جانتے ہیں مگر آج میں آپ کے سامنے
اس جبری گمشدگی کا ایک اور بھیانک چہرہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں۔ان دس
برسوں میں دوہزار سے زائد لاپتہ افراد کے کیسسز کو ذاتی طور پر ڈیل کر چکی
ہوں ، تن تنہا ساڑھے سات سو کیسسز کو سپریم کورٹ میں لڑ رہی ہوں۔ جو کہنے
جارہی ہوں وہ میرے ایک دہائی کا تجربہ ہے۔ حالات کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جبری
گمشدگی کے سبب ہماری قومی سلامتی خطرے میں ہے۔ جی ہاں وہی قومی سلامتی جس
کا رونا رو کر صحافیوں کے گلے گھونٹے جاتے ہیں اور تمام اسلامیان پاکستان
کے بنیادی حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔ اس میں کوی شک نہیں کہ ہمارا وطن اس وقت
گوناگوں مسائل سے دوچار ہے ، جن میں دہشت گردی سرفہرست ہے، دہشت گردی کے ہر
واقعے کے بعد پورے ملک میں شور اٹھتا ہے ہر محکمے کی اوپری قیادت نوکریاں
بچانے کیلئے فائلوں کا پیٹ بھرتی ہیں ، اوپر سے اک آواز اٹھتی ہے جو نچلی
سطح تک پہنچتی ہے۔سیاست دان بھی اس میں شامل ہوتے ہیں ۔دباؤ بڑھتا ہے ،
نوکریاں بچانے اور کچھ کر دکھانے کیلئے معصوموں کو اٹھایا جاتا ہے ، کچھ
لوگو ں کے منہ پر کپڑا ڈال کر میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، کچھ کو
پولیس مقابلے میں ماردیا جاتا ہے ۔ اکا دکا کو چھوڑکر اصل مجرم کی کسی کو
خبر نہیں ملتی۔ان ہی میں سے کچھ کو عدالتوں میں پیش کردیا جاتا ہے۔ بغیر
ثبوت کے عدالتوں میں پیش کئے جانے پر وہ لوگ رہائی پالیتے ہیں ۔ موردالزام
عدالتوں کو ٹہرا کر منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ قومی سلامتی کو حقیقی خطرہ
نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ دن بدن وہ خطرہ بڑھتا رہتا ہے۔پولیس سمیت ہر
طرح کے تفتیشی اداروں کی نااہلی اس وقت ملک کے لئے اصل اور سب سے بڑا خطرہ
ہے۔
دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کو کردار ادا کرنا ہوگا۔اس کام میں ڈیفنس آف
ہیومن رائٹس بھی اپنے آپ کو پیش کرتی ہے۔ ہم حکومت کو تجاویز بھی دیں گے
اور اس سلسلے میں جو بھی ذمہ داریاں ہمیں سونپی جائیں گی اس کو ہم پوری طرح
سے نبھائیں گے۔ تاہم حکومت اور فوجی قیادت کو عوام کااعتماد بحال کرنے
کیلئے یہ یقین دہانی کرانا ہوگی کہ انصاف ہر شخص اور ہر ادارے کیلئے مکمل
اور مساوی ہوگا۔
میری جدوجہد نہ صرف اپنے لاپتہ شوہر کی بازیابی کیلئے ہے بلکہ اس ملک کی
حقیقی سلامتی کی جنگ بھی ہے، میں سیاستدان نہیں اس لئے کوئی دعویٰ نہیں
کروں گی مگر دل میں یہ بات جانتی ہوں کہ پاکستانیوں کی اکثریت میرے دکھ کو
سمجھتی ہے۔ مجھے سب سے پہلے اپنے اﷲ پر بھروسہ ہے ۔ میں دس سال سے لڑ رہی
ہوں اور مرتے دم تک لڑونگی۔سچ کو سچ کہونگی چاہے بیس کڑور انسانوں میں سے
ایک بھی میرا ساتھ نہ دے۔
اپنے آخری جملے کے بعد وہ یہ اعلان کرچکی ہوں کہ انہیں تو آگے بڑھنا ہے
اپنے لئے ، اپنے بچوں کیلئے ، اپنے لاپتہ شوہر کیلئے، ہزاروں لاپتہ افراد
کیلئے اس ملک کیلئے ، انسانیت کیلئے اور سب سے بڑھ کر خدا کیلئے۔ اس کٹھن
سفر میں کوئی ان کے ساتھ چلتا ہے یا کہ نہیں بہرحال وہ تو آگے بڑھیں گی۔
اس کے بعد دیر تک محفل پر سکوت طاری رہا تاہم پھر سینئر صحافیوں کے جانب سے
مختلف سوالات کا سلسلہ شروع ہوگیاجو خاصی دیر جاری رہا۔ اس لمحے مجھے سات
سمندر پا ر امریکی جیلوں میں برسوں سے قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی یاد آگئیں ،
وہ عافیہ جو آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مردہ عالمی ضمیر کو زندہ کرنے کی
کوشش کررہی ہیں لیکن افسوس کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔عافیہ کو اپنی
ماں اور اس کے بچوں سے ملوانے کی جدوجہد کرنے والی عافیہ کی بہن ڈاکٹر
فوزیہ صدیقی آج بھی روز اول کی طرح باہمت ہیں ۔انکی والدہ عصمت صدیقی جو
بیماری اور کمزوری کے باوجود روز اپنے گھر کے برآمدے میں آکر بیٹھ جاتی ہیں
اور نگاہیں دروازے پر مرکوز کرتی ہیں کہ شاید آج اسی دروازے سے ان کی بیٹی
عافیہ آجائیں۔اب یہ بات خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ عافیہ اس دروازے سے آئیں
گی یا نہیں۔مسعود جنجوعہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کا پتہ چلے گا یا نہیں یہ
سب تو غیب کی باتیں ہیں اور غیب کا حال تو خدا ہی جانتا ہے۔آمنہ مسعود
جنجوعہ اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی میں بہر حال ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ
دونوں نے ہی یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد کو کسی صورت نہیں چھوڑیں
گے، آگے بڑھیں گے اور اپنے مقاصد کو حاصل کر کے ہی دم لیں گے۔
کامیابی ایسے لوگوں کے قدم چومتی ہے جو مستقل مزاجی کے ساتھ انتھک محنت
کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔آمنہ باجی دس برس قبل اپنے شریک سفر کو ڈھونڈنے
نکلیں تھیں گوکہ وہ اپنے اس مقصد میں تاحال کامیاب نہیں ہوپائیں لیکن ایک
کامیابی ہے کہ اس نہتی عورت کی کاوشوں کے سبب سینکڑوں لاپتہ افراد اپنے
گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال ڈاکٹر فوزیہ کی بھی ہے جو کہ اپنے
خاندان کے چار افراد کو ڈھونڈنے نکلیں تھیں ، ان میں دو آج ان کے پاس ہیں
،عافیہ کا پتہ چل چکا ہے جو کہ امریکی قید میں ہیں ایک معصوم سلمان رہ گئے
ہیں جنکا پتہ چلنا ابھی باقی ہے۔ آمنہ مسعودجنجوعہ اور ڈاکٹر فوزیہ نے اگر
اسی طرح اپنی جدوجہد جاری رکھی تو خدا کی ذات عظیم ہے ، رحیم بھی اور کریم
بھی۔ وہ چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے ، آمنہ کو مسعود سے اور عافیہ کو اپنے
بچوں اور ماں سے ملواسکتا ہے۔ انسان کے بس میں کوششیں ہیں جو یہ دونوں
ہستیاں کر رہیں ، ان کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کر نا اﷲ نے ہے ۔
کراچی پریس کلب کے اس کمرے میں آمنہ مسعود جنجوعہ کا اجلاس اختتام پذیر تھا
اس لمحے میں وہاں سے یہ دُعا کرتے اٹھا کہ اﷲ آپا آمنہ مسعود جنجوعہ اور
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جدوجہد کو کامیاب کرئے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک
کرے ۔ شہداء کی قربانیوں کے اصل مقاصد کو پورا کرنے کی ہر پاکستانی کو
توفیق دے۔امین ثماامین |