خاقان پٹرولیم

کہیں گھی نہیں تو کہیں آٹا نہیں ،کبھی بیس کلو کے تھیلے کے لیے اس قوم کو لائنوں میں لگنا پڑتا ہے تو کبھی دو کلو گھی کے لیے، چینی ہے تو چاول نہیں اور تو اور یہ وہ ملک ہے جہاں عوام اپے یوٹیلٹی بلز اٹھائے ہاتھوں میں پیسے لیے اپنے بلز جمع کروانے کے لیے خدا کے لیے ہم سے پیسے لے لو بنکوں کے باہر ٹکٹ کٹا ؤ لائن بناؤ کی تصویر بنے نظر آتے ہیں، بوڑھے اور ریٹائرڈ پنشنرز کا حال تو اس سے بھی برا ہے،اور یہ سلسلہ آج سے نہیں مدتوں سے جا ری و ساری ہے اور نہ جانے کب تک یوں چلتا رہے گا ،سنا تھا کہ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ مگر نجانے یہ کیسا سفر ہے جو نہ کٹتا ہے نہ تھمتا ہے نہ ہی اختتام پذیر ہونے کے کوئی امکانات ہیں،ہر طرف لائنیں اور روز مرہ زندگی کی اشیا ء کے لیے بھی قطاریں،یہ دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس میں عوام ہاتھوں میں کرنسی اٹھائے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر ان کی مطلوبہ اشیا ء انہیں دستیاب نہیں،آپ اندازہ کریں اس ملک جسے حکمران اپنی تجربہ گاہ اور لیبارٹری سمجھتا ہے سٹی بنک کے شوکت عزیز نے سڑکوں پر لیز والی گاڑیوں کی بھر مار کر دی یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس ملک کی سڑکیں اس بے ہنگم ٹریفک کا دباؤ برداشت کر بھی پائیں گی یا نہیں،دھڑا دھڑ لوگوں کو ادھار گاڑیاں دی گئیں لوگوں کے ساتھ بنکوں کا بھی دیوالیہ نکالا، سی این جی کے چکر میں لوگوں کی جمع پونجی برباد کروا کے ایک پورا نیا سیکٹر آباد کر ڈالا وہ الگ بات کہ سی این جی سیکٹر جتنی تیزی سے ڈیولپ ہوا اس سے زیادہ تیزی سے برباد ہوگیا، ان کے بعد روٹی کپڑا اور مکان والوں کی بھی انیس پرسنٹ مارک اپ دیکھ کر رال ٹپکتی رہی اور یہ سلسلہ دھڑا دھڑ جاری رہا ان کے بعد پاکستان بدلنے کے دعویداروں نے نہ صرف اس مارک اپ کو جاری رکھا بلکہ اپنی نئی اسکیمیں بھی شرو ع کر دیں،حیرت ہے ایک طرف سی این جی بند ہے پٹرول کے لالے پڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف گاڑیوں کی لیز اور روزگار اسکیمیں دھڑلے سے جاری ہیں،ایک طرف کہتے ہیں ترقیاتی کام نہیں ہو سکتے فنڈز نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف میٹرو کے نام پر شہر ادھیڑے جا رہے ہیں،کیا ہی اچھا ہوتا کہ میٹرو کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کہ جس پہ اس ملک کا مڈل اور لوئر طبقہ سفر کرتا ہے اس کی بھی حالت بہتر بنانے پہ توجہ دی جاتی ،سب سے آسان اور محفوظ ذریعہ نقل وحمل ریلوے پہ بھی رحم کیا جاتا مگر یہاں نجانے کس مٹی کے بنے مادھو ہمارے سروں پر سوار ہیں جنہیں اپنی عوام کو اذیت میں دیکھ کر سکون اور راحت ملتی ہے،اب تو ہم پہ باقاعدہ لطیفے بننے شروع ہو گئے ہیں کہ چند ملکوں کے لوگ چاند پر گئے صبح اٹھ کر چائنہ کے شخص نے ساتھیوں سے کہا کہ ہمارے پاس دنیا کا وہ واحد عجوبہ ہے جو چاند سے نظر آتا ہے سب نے نیچے دیکھا تو نیچے ہلکی سے لکیر نظر آئی سب نے تالیاں بجائیں اور چائینز کو داد دی ان میں ایک پاکستانی جو میانوالی کا نیاز ی تھا نے اپنی زبان میں پوچھا ،مینڈے بھراؤ مینوں اے ڈساؤ اج وار کی اے( میرے بھائیویہ بتا ؤ آج دن کیا ہے)سب نے کہا آج جمعہ ہے اس نے کہا ،ہلہ جدوں اتوار دی دیہاڑ ہو وے مینوں ڈسائے(جس دن اتوار کا دن ہو اس دن مجھے بتانا) اتوار کے روز سب نے میانوالی کے نوجوان کو بتایا کہ آج اتوار ہے وہ سب کو لیکر ایک کونے میں گیا جہاں سے پاکستان نظر آتا تھا اس نے نیچے اشارہ کیا کہ وہ دیکھو سب نے نیچے دیکھا تو ایک بہت لمبی دیوار نظر آئی تمام سیاح حیران و پریشان ہو گئے کہ پاکستانی تو چائنہ سے بھی بازی لے گئے اتنی لمبی دیوار ،انہوں نے نیازی سے پوچھا جناب یہ کون سی دیوار ہے اس عظیم عجوبے کا نام کیا ہے،نیازی شان بے نیازی سے بولا ، لگدا تساں سارے پاگل دے بال او،اے کوئی دیوار شوار نہیں اج اتوار ہے تے ساڈے علاقے وچ سی این جی کھلی تے اے لاریاں دی لینڑ ایں(مجھے لگتا ہے تم سارے پاگل کے بچے ہو یہ کوئی دیوار نہیں بلکہ ہمارے علاقے میں آج سی این جی کھلی ہے اور یہ گاڑیوں کی لائن ہے)اور اب ایسی ہی دیوار چین جیسی لائینیں پٹرول کی بننا شروع ہوگئی ہیں اور جب سوال اٹھا کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا تو کیا شاندار دلیل پیش کی وزیر پٹرولیم جناب شاہد خاقان عباسی نے کہ سستا ہونے کے باعث لوگوں نے زیادہ پٹرول خرید لیا اس لیے بحران پیدا ہو گیا اس پہ اور کچھ ہو نہ ہو ان وزیر موصوف کو ایک عدد گولڈ میڈل ضرور پیش کیا جاناچاہیے کیا اتنی شاندار اور زبردست لاجک ایسی منطق کسی بھی ملک کا کوئی وزیر پیش کر سکتا ہے،کوئی ان سے پوچھے جناب کہ کیا اب عوام نے دفتروں کے تین تین چکر لگانا شروع کردیے ہیں،کیا ویگنوں رکشوں نے اپنی منزل کی جانب جانے کی بجائے چاند کی جانب سفر شروع کردیاہے،کیا پٹرول سستا ہونے کے ساتھ ہی کسی اور سیارے کی ٹرانسپورٹ بھی ہمارے ملک میں آگئی جو ہمار ا پٹرول پی گئی،اور اگر بالفرض یہ بودی اور بھونڈی دلیل مان بھی لی جائے تو کیاآپ کی عقلیں گھاس چرنے گئی ہوئی تھیں آپ کو نہیں پتہ تھا کہ جب سستا ہو گا تو خریداری بڑھے گی،وزارت کا اور کیا کام ہوتا ہے خالی دورے اور پھرنا ٹرنا ہی اگر منیجمنٹ ہے تو یہ تو اس ملک کا کوئی سا بھی بندہ کر سکتا ہے،لوگ ایک ایک لٹر پٹرول کے لیے سڑکوں پہ دھکے کھا رہے ہیں ،بچے اسکول نہیں جا پا رہے،مریض ہسپتال نہیں پہنچ پا رہے نظام زندگی درہم برہم ہو گیا وزیر اعظم صاحب کو دنیا کی سیر سے فرصت نہیں وزراء سوکنوں کی طرح ایک دوسرے کو طعنے دینے میں مصروف ہیں عوام کدھر جائیں،وزیر پٹرولیم پوری وزارت سمیت موجود ہیں مگر آج غالباً دسواں دن ہے لوگوں کو پٹرول دستیاب نہیں اور جہاں دستیاب ہے وہاں ایک سو سے لیکر 250روپے لٹر تک دستیاب ہے خلق خدا جائے تو کدھر جائے کیا ان بلیکیوں سے بھی نبٹنے کے لیے سکندر یونانی کی فوج کا انتظا ر ہے،مگر جہاں بے حسی کا راج ہو وہاں کسی عام بندے کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کیا حیثیت رکھتی ہو گی،ویسے سچ تو یہ بھی ہے کہ جس گھر کا سربراہ نااہل ہو گا اس کے مکین اسی طرح ذلیل ہوتے رہیں گے جیسے ہم پاکستانی خوار ہو رہے ہیں ،،،،،،اﷲ ہم سب پہ رحم کرے۔