23جنوری کی صبح جب میں بیدار ہوا تو دن کا آغاز ایک
بری خبر کے ساتھ ہواکیونکہ میں نے اپنا سیل فون ہاتھ میں پکڑا تو اس پرایک
ایس ایم ایس آیا ہوا تھا جس اسکو اوپن کیا تو اس میں شاہ عبداﷲ کی وفات کی
اطلاع تھی۔جس کو پڑھ کر بہت افسو س ہوا۔ لیکن افسوس کے علاوہ ہم کربھی کیا
سکتے ہیں کیونکہ ایک نہ ایک دن سب کو اس دنیا سے جانا ہے۔سعودی عرب میں
کوئی بھی حکمران آئے وہ سب پاکستان کے خیرخواہ ہوتے ہیں۔شاہ عبداﷲ کی وفات
کے بعداْن کے (سوتیلے )بھائی سلمان بن عبدالعزیز السعود کو سعودی عرب کا
فرماں روامنتخب کردیاگیاہے اور شاہ عبداﷲ کی تدفین کے بعدانہوں نے حلف
اْٹھالیا ۔ اس سے پہلے وہ سعودی ولی عہد کے عہدے پرفائز تھے۔
سلمان بن عبدالعزیز31دسمبر 1935ء کو پیداہوئے ۔آپ ابن سعود کے پچیسویں
بیٹھے ہیں۔ابتدائی تعلیم شاہی سکول میں حاصل کی۔ ریاض میں میٹرک کی ۔اپنی
تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ کے رائل ایئر فورس کالج سے بھی تعلیم حاصل
کر رکھی ہے جس کی بنیاد پر انہیں سعودی انٹیلی جنس کی سربراہی بھی
ملی۔1950ء کی دہائی میں سلمان بن عبدالعزیز باقاعدہ عملی سیاست میں آئے اور
شاہ عبدالعزیز نے 17مارچ1954ء کوصرف 19سال کی عمرمیں اپنا نمائندہ اور ریاض
کا میئربنادیا۔ اسکے بعد بادشاہ سعود نے 1955 میں آپ کو وزیرکے عہد ہ کے
برابردوبارہ ریاض کا میئربنادیا لیکن 1960 میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی
ہوگئے۔
شہزادہ سلمان کو 1963میں صوبے( ریاض) کا گورنر بنادیاگیا اور2011تک وہ
گورنر رہے۔ اپنی گورنری کے دوران شہزادہ سلمان نے ترقیاتی کاموں کو ترجیح
دی اور ریاض جیسے دوردراز صحرائی قصبے کو جدید ترین شہر بنا ڈالا۔آپ بھی
شاہ عبداﷲ کی طرح مغرب کے ساتھ معاشی تعلقات کے حامی ہیں اسی لیے ریاض کی
ترقی کے لیے سیاحوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوئے اور یہاں
پر بڑے پراجیکٹ اور بیرونی سرمایہ کاری کرائی ۔
2011 میں شہزادہ سلطان کی جگہ آپ وزیردفاع اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے
ممبربنے۔ کہاجاتاہے کہ اْن کی صلاحیتوں اور ڈپلومیٹک طبیعت کو مدنظر رکھتے
ہوئے ان کو وزیردفاع بنایاگیا۔ لمبی گورنرشپ بھی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ
نے سعودی عرب کے عالمی دنیامیں کافی تعلقات بنائے۔ 2013ء میں اوبامااور
ڈیوڈکیمرون سے بھی امریکہ وبرطانیہ میں ملاقات کی۔
18جون 2012ء کو نائف بن عبدالعزیز کی وفات کے بعدسعودی ولی عہد بنے۔مرحوم
شاہ عبداﷲ کی انتہائی خراب صحت کے باعث گذشتہ کچھ عرصے سے شہزادہ سلمان ہی
مختلف تقریبات میں ان کی نمائندگی کررہے تھے۔شاہ سلمان کے بارے میں سنا ہے
کہ ان کو سیاسی ریفارمز سے دلچسپی نہیں وہ سیاسی تبدیلیوں کی بجائے معاشی
تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔
تیل کے موجودہ حالات پر ماہرین کا خیال ہے کہ شاہ عبداﷲ کے برعکس نئے
فرمانروا تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر سب سے زیادہ تیل نکالنے والے
ملک کی پیداوار میں ردوبدل کرسکتے ہیں اور وہ معاشی تبدیلیاں لاکر سعودی
معیشت کو مضبوط بنانا،خسارہ کم کرناچاہتے ہیں تاہم حتمی فیصلے چند دن میں
سامنے آنے کا امکان ہے۔
سلمان کے بیٹوں میں ڈپٹی وزیرپٹرولیم شہززادہ عبدالعزیز، گورنر مدینہ
شہزادہ فیصل ، پہلے عرب خلاء باز اور ٹورازم اتھارٹی کے ہیڈشہزادہ سلطان
وغیرہ شامل ہیں۔ سعودی عرب کے نئے بادشاہ کے دوسرے بیٹے ’سلطان بن سلمان‘
خلاء میں سفر کرنے والے پہلے مسلمان اور عرب شخص ہیں۔ جنہوں نے جون 1985
میں سپیس شٹل میں سفر کیا۔
شاید آپ کو یاد نہ ہواسی لیے یاد دہانی کراتا چلو یہ وہی پرنس مقرن بن
عبدالعزیز ہیں جو کہ 2007 میں پاکستان تشریف لائے تھے اور نواز شریف اور
پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے جلاوطنی کے معاہدے کا راز افشاں کیا تھا۔
انہوں نے یہ دورہ اس وقت کیا جب میاں نواز شریف کسی بھی معاہدے کے وجود کو
تسلیم نہیں کررہے تھے اور وطن واپسی کے لئے پرتول رہے تھے۔ اس وقت لبنانی
سیاسی رہنما سعد الحریری بھی پرنس مقرن کے ہمراہ تشریف لائے اور دونوں نے
اسلام آباد میں باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے نواز شریف کو معاہدے کی پاسداری
کرتے ہوئے دس سال جلاوطنی مکمل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس موقع پر وہ
معاہدے کی خلاف ورزی پر خاصے ناخوش نظر آئے تھے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب وہ
سعودی عرب کے اہم ترین عہدے پر فائز ہوچکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھایا
جارہا ہے کہ ان حالات میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا مستقبل کیا
ہوگا؟
سوال جیسے مرضی اٹھتے رہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے
حکام اور عوام ایک دوسرے سے دور نہیں ہوسکتے ۔ ہر مشکل گھڑی میں دونوں
ممالک نے ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیاہے۔مستقبل میں بھی دونوں ممالک ایک
دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے ۔انشا ء اﷲ |