سعوی فرماں روا کا انتقال اور ہندوستان کی مسلم تنظیموں کا ملال
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
سعودی فرماں روا شاہ عبداﷲ بن
عبد العزیز کا انتقال عالم اسلام کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے ۔ وہ ایک اصلاح
پسند حکمراں تھے ۔ ان کے دورقیادت میں سعودی عرب نے چہارسو ترقی کی ہے ۔
مشرقی وسطی کی ترقی ، مسلمانوں کی سربلندی کی خاطر وہ پوری زندگی جدوجہد
کرتے رہے ۔ امریکہ سے دوستی برقرار رکھنے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ عرب کے
مفاد کو مقدم رکھا ۔ تعریف و ستائش کے ان کلمات کا اظہار عالمی رہنما سمیت
ہندوستان کے ملی قائدین نے شاہ عبد اﷲ کے انتقال کے پر ان کے جاں نشیں
شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کو لکھے گئے تعزیتی خطوط میں کیا ہے ۔جبکہ بہت
ساری تنظیموں کے یہ بیانات صرف اردو اخبارات میں شائع ہونے والی پریس ریلیز
تک محدود ہے۔
شاہ عبدﷲ سرزمین حجاز کے سربراہ تھے ۔ سزمین حجاز سے وابستگی اختیار کرنا ،
دلوں میں اس کی عظمت رکھنا ، اس کی خاطر مرمٹنے کے جذبہ سے سرشار رہنا
ہمارے ایمان کا جزو لاینفک ہے ۔وہاں کے سربرہان کا احترام ، اکرام اور
اعزاز ہمارا ملی ، دینی اور اخلاقی فریضہ ۔فرماں روا کی موت پر تعزیتی خطوط
لکھنا سرزمین حجاز سے ہماری عظمت و محبت اور قلبی وابستگی کا واضح ثبوت ہے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کا جذبہ رکھنا بھی
ہمارا ملی، دینی اور مذہبی فریضہ ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ عبداﷲ نے
سعودی عرب میں ترقی کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عالم
اسلام کو انہوں فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہچا یا ہے ۔ مصر کی مرسی حکومت
کے خاتمہ اور اسلامی تحریکوں کو ناپیدکرنے کے ذمہ دار براہ راست وہ ہیں ۔فلسطین
اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں ساتھ انہوں نے ہمدردی نام پر کبھی بھی کچھ کہنے
کی جرات نہیں کی ۔ دنیا کے بیشتر ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان پر
ہونے والے ظلم وستم کے حوالے سے ان ممالک کے حکمرانوں سے سعودی فرماں روا
نے اس سلسلے میں ایک جملہ لکھنے اور بولنے کی بھی جرات نہیں کی اور نہ ہی
ان کی امداد کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا ۔ جبکہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے
والے ممالک اپنے اہل مذہب کے ساتھ ہمیشہ ہم آہنگ اور ان کے دکھ درد میں
شریک نظر آتے ہیں۔ ان کے لوگ جہاں اقلیت میں ہیں وہاں ان کے ساتھ ذراسا بھی
کچھ ہوتا ہے تو وہ فور ی طور پر وہاں کی حکومت کو متنبہ کرتے ہیں ۔ تازہ
ترین واقعہ ہندووستان کا ہے جہاں آرایس ایس کی جانب سے عیسائیوں اور
مسلمانوں کا جبر ا مذہب تبدیل کرایا گیا ۔ اس واقعہ پر امریکہ نے اپنار
دعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں تبدیلی مذہب کے واقعہ پر ہماری
نگاہ ہے ۔ لیکن اسی صف میں یہاں کے مسلمان بھی تھے جن کی تسلی کے لئے سعودی
عرب سمیت دنیا کے 57 مسلم ممالک میں سے کسی کو بھی کچھ بولنے کی توفیق نہ
ہوسکی ۔ ہندوستان کی موجودہ حکومت ہندوستان سمیت پوری دنیامیں موجود تمام
ہندوؤں کے لئے خیر خواہ ہے ۔ پاکستان اوربنگلہ دیش میں موجود ہندؤوں کو
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ یہاں کی نیشنیلٹی دینی کی پیش کش کی ہے۔ دوسری
طرف میانمار کے دس لاکھ مسلمان در بدر کی زندگی بسرکررہے ہیں ۔ اپنے ملک
میں انہیں نیشنلٹی نہیں دی جارہی ہے ۔ لیکن دنیا کاکوئی بھی مسلم ملک ان کا
سہار بننا تو دور کی بات میانمار کی حکومت کواس سلسلے میں متنبہ کرنے کی
ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی۔
سعودی عر ب ہمارا قبلہ ہے،اس سرزمین اور وہاں کے باشندوں ہم بے پناہ محبت
کرتے ہیں لیکن اس ملک
سربراہان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بانی اسلام محمد الرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے نقش قدم کی اتباع کریں۔ صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کی ہدیات پر
عمل پیرا ہوکر حکومتی فرائض کو انجام دیں ۔اور اگر وہ اس طرح نہیں کررہے
ہیں تو پوری ملت اسلامیہ کا تقاضا ہے کہ وہ سعودی فرماں رواں کو اس سلسلے
میں متنبہ کرے ۔ لیکن ہندوستان کی مسلم قیادت نہ جانے کیوں حقائق سے انحراف
کرکے صرف واہ واہی اور تعریف کا پل باندھنے میں لگی رہتی ہے ۔ افسوس کا
مقام تو یہ ہے کچھ تنظیموں کے سربراہ ان دنوں بھی سعودی حکومت کی تعریف پر
تعریف کررہے تھے جب شاہ عبداﷲ امریکہ کی خوشنودی کے پیش نظر اخوان المسلمین
کی حکومت کا تختہ پلٹنے میں مصروف تھے ۔ جبکہ پورا عالم اسلام خون کے
آنسورورہا تھا۔ دنیا کا ہر انصاف پسند شخض محو حیرت تھاکہ جمہوری طریقے سے
ایک منتخب حکومت کے خلاف سعودی عرب یہ سازش کیوں کررہا ہے۔
شاہ عبد ﷲ کی موت کے بعد میں اپنی اس تحریر میں ان کی خامیوں کو شمار نہیں
کرارہاہوں۔ ہاں یہ ضرور کہنا چاہتاہوں کہ ان کی موت سے عالم اسلام کو کوئی
صدمہ نہیں ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں امریکی مفاد کے علاوہ آج تک
ایسا کوئی قدم ہی نہیں اٹھایا ہے جس کا ماتم کیا جائے ۔ اور یہ رسمی جملہ
کہاجائے کہ ان کی موت سے عالم اسلام میں ایک عظیم خسارہ ہوگیا ہے جس کی
تلافی صدیوں تک ناممکن ہے ۔اگر ہمارے ملی قائدین یہ سب جملے لکھ رہے ہیں تو
ان کی مجبوری ہے کیوں کہ کسی بھی تنظیم کو چلانے کے لئے سب بڑا مسئلہ فنڈنگ
کا ہوتا ہے ۔ساتھ ہی میں اپنے ملی قائدین اور ان تمام چھوٹی بڑی تنظمیوں کے
ذمہ دراروں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں جن کی طرف سے تسلسل کے ساتھ
تعزیتی خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری ہے یااخبارات میں پریس ریلیز شائع کرارہے
ہیں کہ وہ نئے سعودی فرماں رواں کی خدمت میں ان کی تعریف لکھنے کے ساتھ یہ
لکھنے کی جرات کریں کہ وہ صرف سعودی عرب کے فرماں روا نہیں بلکہ وہ پورے
عالم اسلام کے نگراں ہے ۔ دنیا کے ہر مسلمان کے حالات پر نظر رکھنا ان کا
فریضہ ہے ۔ احیاء اسلام کی تحریکوں کو کچلنے کے بجائے اس کی حمایت ہونی
چاہئے ۔ ان کی پالیسی میں عرب او ر مسلمانوں کا مفاد مقدم ہونا چاہئے ۔
قارئین آئیے اسی کے ساتھ ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں مرحوم شاہ عبداﷲ بن
عبدالعزیز اور نئے فرماں روا شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کی زندگی پر
سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود کی بائیس بیویاں تھیں۔ ان میں سے
ستّرہ بیویوں کے ہاں پینتالیس بیٹے پیدا ہوئے۔اب السعود کے شاہی خاندانکے
شہزادوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ عبدالعزیز بن سعود نے
1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق آل سعود ہی نے تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ملک
کو سعودی عرب کا نام دیا۔ سعودی عرب کے حکمران خاندان کے شہزادوں اور
شہزادیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ وفات پا جانے والے شاہ عبداﷲ کا تعلق
بھی السعود خاندان سے تھا۔ السعود خاندان کا تعلق اٹھارویں صدی میں جزیرہ
نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ
واحد ملک ہے جس کا نام دو صدیاں پہلے پیدا ہونے والے مقامی حکمران پر رکھا
گیا ہے۔شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744ئمیں شعلہ بیان مذہبی عالم محمد بن
عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا۔ محمد بن عبدالوہاب ہی نے خالص اسلام کی واپسی
کا نعرہ لگایا اور یہاں سے وہابی نظریات کے پرچار کا آغاز ہوا۔بعدازاں سعود
بن محمد کی نسل کو 1818ء میں عثمانی افواج )ترکی( کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
لیکن اس کے چھ برس بعد ہی سعود خاندان نے صحرائی طاقت کے مرکز ریاض پر
دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔1902ء میں عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے
حریف راشدی قبیلے کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم بنا لیا۔
اس کے بعد عبدالعزیز نے مختلف قبیلوں سے لڑائی جاری رکھی اور انہیں شکست
دیتے ہوئے بہت سے علاقوں کو متحد کر دیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور 1913ء میں
خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔دوسری جانب 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کو
سعودی عرب میں شکست ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے حسین بن علی
آخری شریفِ مکہ قرارپائے۔ شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء 4
میں قائم کیا گیا تھا۔ شریف مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ
داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام و انصرام ہوتا تھا۔حسین
بن علی کے شریف مکہ بننے کے بعد 1924ء 4 میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے
حملے تیز کر دیے اور آخر کار 1925ئحسین بن علی کو بھی اقتدار سے بے دخل کر
دیا۔عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء 4 میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے
خود کو بادشاہ قرار دیا۔اس کے بعد عبدالعزیز بن سعودکی طاقت میں اس طرح بھی
اضافہ ہوا کہ انہوں نے بہت سے قبائلی سرداروں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں۔ آج
اس شاہی خاندان کے مجموعی افراد کی تعداد تقریباپچیس ہزارہے جبکہ اثرو رسوخ
رکھنے والے شہزادوں کی تعداد تقریبا دو سو ہے۔اس قدامت پسند وہابی ریاست
میں تیل کی پیداوار کا آغاز 1938میں ہوا، جس کے بعد سعودی عرب کا شمار دنیا
کے امیر ترین ملکوں میں ہونے لگا۔عبدالعزیز بن سعود کے بیٹوں کی مجموعی
تعداد پینتالیس ہے۔ نو نومبر 1953میں سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز کا
انتقال ہوا اور اس کے بعد سعود کو ان کا جانشیں مقرر کیا گیا۔دو نومبر
1964ء 4 کو شاہ سعود کرپشن اور نااہلی کے الزامات کے تحت معزول کر دیا گیا
اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ فیصل نے اقتدار سنبھالا۔ شاہ سعود کی وفات
1969ء 4 کو جلاوطنی میں ہوئی۔جدید سعودی عرب کے معمار کا خطاب حاصل کرنے
والے شاہ فیصل کو مارچ 1975ء 4 میں ان کے ایک بھتیجے نے قتل کردیا۔ اس وقت
کہا گیا تھا کہ قاتل کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ اسلام آباد میں واقع
فیصل مسجد اور پنجاب کے شہر فیصل آباد کا نام سعودی شاہ فیصل کے نام پر ہی
رکھا گیا۔اس کے بعد سعودی عرب کی حکمرانی شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شاہ
خالد کے حصے میں آئی اور وہ 1982ء 4 میں اپنی وفات تک حکمران رہے۔ اس کے
بعد شاہ فہد حکمران بنے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی عمر سے دو سال
چھوٹے شاہ عبداﷲ کو ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔1995میں شاہ فہد پر فالج کا
حملہ ہوا، جس کے بعد عملی طور پر زیادہ تر فرائض شاہ عبداﷲ ہی سرانجام دیتے
رہے۔ 2005میں شاہ فہد انتقال کر گئے اور ان کی جگہ شاہ عبداﷲ نے لی۔ آج
تیئس جنوری بروز جمعے کو علی الصبح انتقال کرنے والے شاہ عبداﷲ کی جگہ آج
ہی اْن کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبدالعزیز نے لے لی ۔
سعودی عرب کے نئے فرماں روا سلمان بن عبد العزیز
نئے سعودی فرماں روا نے ابتدائی تعلیم پرنس اسکول ریاض میں حاصل کی اور بعد
ازاں مذہب اور سائنس کے میدان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔سعودی فرماں رواں
عبداﷲ بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد ان کے بھائی سلمان بن عبدالعزیز کو
سعودی عرب کا نیا بادشاہ بنا دیا گیا ہے جو حکومتی معاملات کو چلانے کا
50سال سے بھی زائد کا تجربہ رکھتے ہیں ۔
سلمان بن عبدالعزیز 31 دسمبر 1935 میں پیدا ہوئے جو ابن سعود کی 25ویں
اولاد تھے تاہم وہ ملکہ حصہ الصودیری کی اولاد میں سے ہیں اور یہ 7 بھائی
ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پرنس اسکول ریاض میں حاصل کی اور بعد ازاں
مذہب اور سائنس کے میدان میں اعلی تعلیم حاصل کی۔سلمان بن عبدالعزیز جب صرف
19 برس کے تھے تب انہیں ریاض کا میئر بنا دیا گیا اور یوں بہت کم عمری میں
انہوں نے حکومتی معاملات میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا شروع کردیئے
جبکہ 1955 میں انہیں ریاض کا گورنر مقرر کردیا گیا تاہم 1960 میں انہوں نے
گورنر شپ سے استعفی دیدیا۔1963 میں سلمان بن عبدالعزیز دوبارہ ریاض کے
گورنر بنے جس کے بعد انہوں نے 2011 تک یعنی 48 سال تک اس عہدے پر اپنی ذمہ
داریاں نبھائیں اور اس دوران انہوں نے ریاض کو ایک ٹاؤن سے اٹھا کرایک بڑے
شہر میں تبدیل کرکے اس کا نقشہ ہی بدل ڈالا اور اب یہ شہر نہ صرف جامعات،
بلند وبالا عمارات اور مغربی فاسٹ فوڈ چین کا مرکزہی نہیں بلکہ سیاحوں اور
بیرون ملک سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش مقام بن گیا ہے جبکہ بطور بحیثیت
گورنر ریاض انہوں نے عرب ممالک اور عالمی برادری کے درمیان تعلقات کا وسیع
نیٹ ورک قائم کیا۔سلمان بن عبدالعزیز کو 2011 میں مملکت کا وزیر دفاع اور
نیشنل سیکورٹی کونسل کا ممبر منتخب کیا گیا، ان کی شخصیت عام طور پر شاہی
خاندان میں ثالث کی حیثیت سے جانی جاتی ہے اور یہ خاندانی معاملات کو
سلجھانے میں ہمیشہ مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان
میں سفارتی تعلقات کی وجہ سے سفارتی معاملات کو چلانے کی بھی بھرپور صلاحیت
موجود ہے اسی لیے انہیں وزیر دفاع جیسے اہم ترین عہدے پر فائز کیا
گیا۔سلمان بن عبدالعزیز جون 2012 میں شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کے انتقال
کے بعد کراؤن پرنس کے ساتھ ساتھ نائب وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز ہوگئے
جبکہ اگست 2012 میں سعودی عدالت نے انہیں کنگ عبداﷲ کے ملک سے باہر جانے پر
ملکی معاملات چلانے کے لیے سربراہ مقررکردیا۔سعودی عرب کے نئے فرماں روا
مسلمانوں کی دو بڑی مساجد مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے کسٹوڈین بھی ہیں
انہوں نے اپنے ایک بیٹے شہزادہ محمد کو وزیر دفاع اور شاہی عدالت کا سربراہ
مقررکردیا ہے جبکہ ان کا دوسرا بیٹا شہزادہ عبدالعزیز تیل کا نائب وزیر ہے،
تیسرے بیٹے شہزادہ فیصل مدینے کے گورنر کے عہدے پر فائز ہیں جبکہ دیگر بیٹے
بھی اعلیٰ عہدوں ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ |
|