یہ آزاد حکومت ریاست جموں و
کشمیر ہے جموں تو اس کے ساتھ نہیں لیکن جموں کے نام کی دُ م اس کے ساتھ
ضرور لگی ہوئی ہے جبکہ آزادی کی جگہ’’ الحاق‘‘ کی ’’سونڈ‘‘ بھی ساتھ چل رہی
ہے اور اس سونڈ کے نیچے ہاتھی کے دانت کھانے اور دکھانے اور ہیں۔ یہ دنیا
کی ایک ایسی انوکھی اور واحد ریاست ہے جس کو ایک دوسری ریاست کا چیف
سیکرٹری چلاتا ہے اور اس ریاست کی جمہوری حکومت کے جمہوری فیصلے فوج کا ایک
برگیڈیئر یا پھر میجر جرنل کرتا ہے۔کب حکومت گرانی ہے کب وزیر اعظم یا صدر
کو تبدیل کرنا ہے ،کب کونسی پارٹی کو اقتدار میں رکھنا ہے اور کون سی پارٹی
کو اپوزیشن میں رکھنا ہے یہ فیصلہ جی او سی مری کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔یہ وہ
واحد ریاست ہے جس کے حقیقی وزیراعظم کا نام چوہدری ریاض ہے جنکا اصل منصب
آذاد کشمیر کے منتخب وزیر اعظم کا زبردستی مسلط شدہ مشیر کا ہے جبکہ ڈمی
وزیر اعظم کا نام عزت مآب حضر ت مجاور سرکار جناب چوہدری عبدالمجید ہے جنکے
اختیارات کا اندازہ آپ کو بین السطور الفاظ سے ہو چکا ہو گا۔یہ دنیا کی وہ
واحد ریاست ہے جو 67 سالوں سے اپنا بجٹ صرف اور صرف خسارے پر بناتی ہے وہ
بھی دوسری ریاست سے بھیک مانگ کر لیا جاتا ہے۔یہ دنیا کی وہ واحد آزاد
ریاست ہے جس کے بجٹ کا ستر فیصد حصہ غیر ترقیاتی کاموں مثلاً ملازمیں کی
تنخواہوں،پینشنز ، حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے پروٹوکول، ٹی اے ڈی اے ، اور
بیرون ملک علاج معالجے پر صرف ہوتا ہے۔جبکہ باقی ماندہ تیس فیصد حصہ سے
سڑکیں،پل،پانی کی لائنیں، زراعت، صحت،تعلیم،اور عوام کی دیگر بنیادی
ضروریات کو پورا کرنے کی ناکام اور ناہل کوشش کی جاتی ہے بلکہ اُس میں سے
بھی کروڑوں کی کرپشن کی جاتی ہے۔ ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی سے بچنے
کے لیے بڑے پیمانے پر جنگلات لگائے جاتے ہیں اور درختوں کی افزائش اور دیکھ
بھال پر اربوں روپے صرف کیئے جاتے ہیں جبکہ ہماری اس آزادریاست بلکہ دُنیا
کی واحد اور انوکھی آذاد ریاست آزاد کشمیر میں درختوں کو حکومتی سرپرستی
میں بے دریغ کاٹا جاتا ہے اور درخت کاٹنے کے لیے باقاعدہ ایک سرکاری حکومتی
ادارہ اکلاس کے نام سے کام کر رہا ہے جس کے ملازمین سالانہ کروڑوں روپے
تنخواہ لیتے ہیں اور اس محکمے کے ہیڈ اور وزیر سالانہ کروڑوں روپے ڈکارتے
ہیں۔اس ادارے کے زیر انتظام آزاد کشمیر کی لکڑی کاٹ کر راولپنڈی لے جائی
جاتی ہے اور وہاں سے دوبارہ واپس ریاستی باشندوں کو بیچی جاتی ہے جبکہ آزاد
کشمیر کے اندر بسنے والا کوئی ریاستی شخص دیار کے درخت کو نہیں کاٹ سکتا
اور اس درخت کے کاٹنے پر قتل کے مقدمے جیسی دفعات کا سامنا کر نا پڑتا
ہے۔یہ ایک ایسی انوکھی اور دنیا کی واحد بد قسمت ریاست ہے جس کے پاس قدرتی
وسائل کے اربون کھربوں ڈالڑ مالیت کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن اس ریاست اور
حکومت پر ان قدرتی وسائل کے استعمال پر پابند عائد ہے ۔یہ دنیا کی واحد آزد
ریاست ہے جس کا ہر شہری خواہ وہ حکمران ہو ،عوام ہو سرکاری ملازم ہو تاجر
ہو یا مذہبی رہنما اتنا آزاد ہے کہ بس صرف ’’آزاد‘‘ ہے۔اور میرا تو اب جی
چاہتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کا نام بھی ایسا رکھناچاہیئے جس کے شروع
یا آخر میں’’ آزاد‘‘ فٹ ہو جائے۔مثلاً وزیر اعظم کا نام ایسے ہونا چاہیئے
تھا ’’آزاد چوہدری عبدالمجید لاڑکانوی‘‘ صدر آزاد کشمیر کا نام اسطرح ہونا
چاہیے ’’سردارمحمد یعقوب خان آزاد نوڈھروی ،لاڑکانوی‘‘ مسلم کانفرنس کے صدر
کا نام اس طرح ہونا چاہیے تھا ’’سردار عتیق احمد خان آزادسالار ملٹری
ڈیموکریسی‘‘ اپوزیشن لیڈر کا نام اسطرح ہونا چاہیئے تھا ،’’راجہ فاروق حیدر
خان آزاد رائیونڈوی‘‘ اسی طرح پوری قوم اپنے ان لیڈاران کو فالو کرتی اور
اپنے بچوں کے نام بھی اسی طرز پر رکھتی اور آزادی کے حقیقی معنوں سے آشنا
ہو جاتی یہ ایسی انوکھی ریاست ہے جس میں پڑھے لکھے لوگ بھی جہالت کی
فیکٹریاں ہیں۔جو چوروں،لٹیروں ،ڈاکوؤں اور کرپشن کے بادشاہوں کو کندھوں پر
اٹھاتے ہیں انہیں اپنا رہنما بناتے ہیں اور پانچ سال خوب جوتے کھاتے ہیں
جبکہ ریاست کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنے والے زہین،محنتی ،مستقل
مزاج،دیانتدار،ایماندار،لوگوں کو ہر طرف سے ٹھڈے پڑتے ہیں۔یہ ایک ایسی
انوکھی آزاد ریاست ہے جس کے وزیر اعظم کو ایک چپڑاسی تک کی تعیناتی کے لیے
دوسری ریاست سے مسلط شدہ چیف سیکرٹری کے سامنے گڑگڑانا پڑتا ہے۔یہ وہ واحدا
ٓزاد ریاست ہے جس کا وزیر خزانہ قومی خزانے سے کروڑ ں روپے نکال کر اپنا
علاج برطانیہ سے کرواتا ہے جبکہ اس ریاست کی عوام سرکاری ہسپتالوں میں سسک
سسک کر مرتی ،دوا اور علاج مالجے کے لیے ترستی ہے۔یہ دنیا کی واحد آزاد اور
انوکھی ریاست ہے جس کے وزراء سمت صدر اور وزیر اعظم کے مشیروں کی تعداد 85
سے بھی تجاوز کر چکی ہے جو سالانہ کروڑوں روپے کی تنخواہ قومی خزانے سے
عوام کے ٹیکس کے دیئے ہوئے پیسوں سے لیتے اور عیاشیاں کرتے ہیں جبکہ
کارکردی صفر ہے۔ ہاں دو کاموں میں کارکردگی سو فیصدہے ایک بڑے بوٹوں کی
پالش اور دوسرا کرپشن اور لوٹ مار۔یہ وہ واحد آزاد اور انوکھی ریاست ہے جس
کالاکھوں کیوسک پانی روزانہ یا تو سمندر میں جا کر گرتا ہے یا پھر پنجاب
اور سندھ کو سیراب کرتا ہے اور خود اس آزاد ریاست کے عوام بوند بوند کو
ترستے ہیں،یہ اُ س بد قسمت ریاست کی بات ہو رہی جو خود تو 1250 میگا واٹ
بجلی پیدا کرتی ہے مگر اپنی ضرورت 350 میگا واٹ بجلی استعمال نہیں کر سکتی
۔میں جب بھی راولپنڈی اسلام آباد کا سفر کرتا ہوں تو مجھے شیخ مجیب الرحمن
کی وہ مشہور بات یاد آ جاتی ہے کہ مجھے ان سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی
ہے۔اور میں بھی بے اختیار اپنے دل ہی دل میں یہ کہنے پر مجبو ہو جاتا ہوں
کہ ان سڑکوں سے مجھے ’’دیار‘‘ کی لکڑی کی خوشبو آتی ،پانی سے اپنی مٹی کی
خوشبو آتی ہے اور سٹریٹ لائٹس ،گھروں میں جلتے فانوس، شادی ہالوں کے چراغاں
کو دیکھ کر میرے کانوں میں چیخوں کی آوازیں آتی ہیں اور یہ چیخیں میر پور
کے لوگوں کے ان بزرگوں رشتے داروں اور پیاروں کی ہوتی ہیں جن کی قبریں تک
منگلا ڈیم میں ڈبو دی گئیں ،ڈیم بنا جو اس وقت پاکستان کو1250میگا واٹ بجلی
فراہم کر رہا ہے جبکہ کشمیریوں کو اپنے اباؤ اجداد کی اپنے پیاروں کی قبریں
ڈبو کر اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی سے بنے گھر ڈبو کر مسجدیں ،مدرسے اور
سکول ڈبو کر کیا ملا؟ صرف کھمبے اور تاریں۔پورے آزاد کشمیر میں اس وقت بجلی
کی ضرورت ساڑھے تین سو میگا واٹ ہے جبکہ صرف منگلا ڈیم سے بجلی کی پیداوار
1250 میگا واٹ ہے ۔نیلم جہلم پاور پراجیکٹ،جاگراں فیز ٹوپراجیکٹ اور دوسرے
پاور پراجیکٹ جو اس وقت زیر تعمیر کچھ تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جب مکمل
ہو جائیں گئے تو آزاد کشمیر میں بجلی کی پیدوار 1250 میگا واٹ سے بڑھ کر
مجموعی طور پر پانچ ہزار میگا واٹ ہو جائے گی لیکن پھر بھی اپنی ضرورت کی
350 میگا واٹ ریاست کو نہیں ملے گی۔یہ ایسی انوکھی اور آزادریاست ہے جس کا
سنیئر وزیر ایک آئینی اور قانونی گزٹیڈ آفیسر کو جبری ریٹائر کروا کے اپنی
برادری کے ایک چہیتے آفیسر کو گریڈ بائیس میں تعینات کروانے کے لیے وزیر
اعظم کے پرنسپل سیکرٹری تک کو سرے عام ٹھڈے مارتا ہے ۔یہ ایک ایسی آزاد
ریاست ہے جو آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں اس کی آزدای کے لیے پتہ نہیں کہاں
کہاں سے خیالی گولیاں چلا کر جعلی مجاہدوں اور غازیوں کے القابات اپنے ساتھ
لگا لگا کر پچھلے 67 سالوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے پتہ نہیں کسی مٹی
کے بنے ہوئے تھے کہ انہیں اپنی اس کشمیری قوم پرکبھی ترس بھی نہیں آ یا کہ
مستقبل میں اس قوم کا کیا حال ہو گاآج بھی قوم کوکن کن غلاظتوں ،نجاستوں
اورزیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عوام کوڈاکو پولیس کا سامنا کرنا پڑتا
ہے،بدمعاش اورغنڈے سیاستدان ورثے میں ملے ۔بیروزگار اور ناانصافی اس آزاد
قوم کا مقدر ٹھہری ہے،تعلیم عام ہے لیکن گھٹیا ترین اور جمہوریت کے نام پر
چند خاندانوں کی حکومت اجارہ داری،اور موروثیت ہے۔جو اسلام آباد میں بیٹھ
کر حکومت چلاتے ہیں ۔یہ ایک ایسی ریاست ہے جس میں کام کرنے والا کمی کمین
جبکہ نکما ،نکھٹو ،سست،کاہل ،حرام خور معتبر،با عزت،سردار اور پتہ نہیں کیا
کیا کہلاتا ہے۔یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں کسب معاش کوذات اور برادری میں
بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔یہ ایک ایسی آزاد ریاست ہے جس کے بچے اپنی بلوغت سے
پہلے ہی عرب کے ریگستانوں میں غیر فطری مشقت کے لیے تیاری کر لیتے ہیں پھر
انکی جوانی اور آگے کی ساری عمر عرب کے ان ریگستانوں میں خاک پھانکتے
پھانکتے گزر جاتی ہے جس کے اصل ذمہ دار بغیر جہاد کے ’’مجاہد‘‘ اور بغیر
میدان جنگ میں گئے ’’غازی‘‘ ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے
معاہدہ کراچی اور ایکٹ 74 جیسا غلامی کا طوق اپنی قوم کے گلے میں ڈالااس
آزاد ریاست کی کہانی بہت لمبی ہے ابھی صرف تین اداروں کی بات ہوئی ہے باقی
اداروں کی ’’آزادی ‘‘ اور کارکردگی پر بات اگلے کالم میں ہو گی تب تک کے
لیے آپکو برداشت کرنا ہی پڑے گا یہ کڑوا سچ۔ |