سند ھ میں گنے کے کاشتکاروں کا گنے کی کم قیمت پر احتجاج
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
سابق صدر آصف علی زرداری کی سندھ
میں 16 شوگر ملیں ہیں جن کے سبب حکومت کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔کاشتکاروں
کا موقف
منگل کی صبح حیدرآباد سے کراچی آتے ہوئے، سپر ہائی وے قاسم آباد، سے ٹول
پلازہ تک گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں، خوش قسمتی سے اس وقت تک حیدرآباد
سے آنے والی ٹریفک کا راستہ بند نہیں کیا گیا تھا۔ مہران یونیورسٹی کے قریب
بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے، گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ آگے چل کر پورے ہائی وے
پر جگہ جگہ ٹرک ، ٹرالر اور بسیں گھڑی تھیں۔سندھ میں یوں تو احتجاج،
ریلیاں، جلسے جلوس ہوتے ہیں لیکن قومی شاہراہ پر اپنے مطالبات کے لئے دھرنا
شاز و نادر ہی ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کو جو پریشانی اور مشکلات
ہوتی ہیں۔ وہ ناقابل فراموش ہوتی ہیں۔ اس بار یہ احتجاج سندھ کے گنے کے
کاشتکاروں کی جانب سے تھا جو گنے کے مقررہ نرخ نہ دیئے جانے کے خلاف سراپا
احتجاج تھے۔ ان کے اس احتجاج میں سیاسی، قوم پرست جماعتوں اور کاشتکاروں نے
جامشورو میں سپرہائی وے پر دھرنا دے رکھاتھا۔ دھرنے کے باعث کراچی،
حیدرآباد، جامشورو، کوٹری اور دادو جانے والی ٹرانسپورٹ معطل ہوگئی تھی۔اس
دھرنے کی قیادت سابق وزیراعلٰی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم، متحدہ قومی
موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے معاون غازی صلاح الدین، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے
سربراہ جلال محمود شاہ، جسقم کے رہنما نیاز کالانی اور دیگر کر رہے تھے۔
دھرنے کے شرکا کا کہنا تھا کہ جب تک گنے کے سرکاری نرخ پر عملدرآمد نہیں
کرایا جاتا احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس مسئلہ پر سندھ اسمبلی میں بھی
خوب گرما گرمی رہی ہے۔ جمعہ کو اپوزیشن ارکان نے گنے کے کاشت کاروں کے
مسائل پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر زبردست احتجاج کیا ، جس پر ڈپٹی
اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے اجلاس پیر کی صبح تک ملتوی کر دیا۔ اجلاس میں وقفہ
سوالات میں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے سوال
کیا تھاکہ حکومت گندم کے نرخ تو مقرر کرکے انہیں نافذ کراتی ہے لیکن گنے کے
نرخوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کراتی۔ وزیر صحت جام مہتاب حسین ڈاہر اور
سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے اعتراض کا جواب تو نہیں دیا بلکہ یہ کہہ کر
بات ختم کردی کہ یہاں گندم کی بات ہو رہی ہے اور یہاں گنے سے متعلق سوالات
کیے جا رہے ہیں۔ جام مہتاب حسین ڈاہر نے کہا کہ ہم نے بالائی سندھ میں شوگر
ملز کے مالکان سے بات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ سرکاری نرخ پر گنا
اٹھائیں ، بات چیت کامیاب ہوئی تھی لیکن سارے معاملے کو سیاسی رنگ دے دیا
گیا ہے۔ سندھ میں گنے کی قیمت کا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ 5 جنوری سے
دوبارہ ملیں بند کر نے کے اعلان کے بعد صوبہ کی 32 شوگر ملیں بند کر دی گئی
ہیں۔ صرف ضلع گھوٹکی کی 4 شوگر ملوں سردار غلام محمد مہر شوگر ملز، ڈھرکی
شوگر ملز، جی ڈی بلیو شوگر ملز اور الائنس شوگر ملز نے فیصلے سے اختلاف
کرتے ہوئے کرشنگ جاری رکھی ہے۔ کرشنگ بند کرنے والی شوگر ملوں میں اکثریت
اومنی گروپ کی شوگرملوں کی ہے جن کی ملکیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ
سابق صدر آصف زرداری کی ہیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے سندھ
حکومت ان کے خلاف کارروائی سے گریز کر رہی ہے۔ کاشتکاروں کی تنظیمیں سندھ
آباد گار بورڈ، شوگر کین گروور، ایوان زراعت اور دیگر میں شامل مختلف سیاسی
جماعتوں نے اس مسئلہ پر احتجاجی تحریک شروع کردی ہے۔ سندھ حکومت نے
کاشتکاروں کے مطالبے پر اس برس گنے کی قیمت خرید 182 روپے فی 40 کلومقرر کی
تھی۔ شوگر ملوں نے اس قیمت پر خریداری شروع کر دی مگر چند دنوں کے بعد شوگر
ملوں کے ایک گروپ نے 150 روپے فی 40 کلو قیمت پر گنا اٹھانے سے انکار کر
دیا۔ اب 32 شوگر ملوں کی طرف سے کرشنگ روکنے کے باعث شدید بحران پیدا ہو
گیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں 19 لاکھ ٹن پیداواری نقصان کا خدشہ ہے۔ ذرائع کا
کہنا ہے کہ گنے کی قیمت کے تنازع کا اثر آئندہ سیزن کے لئے کاشت میں تاخیر
اور کاشت پر پڑے گا۔ کاشتکار گنے کی بجائے چاول، دالیں اور سورج مکھی سمیت
خریف کی دوسری فصلوں کی جانب راغب ہوں گے۔ سندھ کو اس سارے معاملے کو احسن
طریقہ سے نمٹنا چاہئے تھا لیکن یہ مسئلہ اب گھمبیر ہوگیا ہے۔کاشتکاروں کا
کہنا ہے کہ حکومت نے گنے کا جو ریٹ طے کیا ہے اس پر عمل کرایا جائے اور گنے
کی فروخت کے لئے ملوں پر پورا دباؤ ڈالا جا ئے۔ گنا تاخیر سے خریدنے کی
صورت میں وزن کھو دیتا ہے۔ اس حوالے سے اگر اس میں کسی سیاسی گروپ کی ملیں
شامل ہیں تو ان کی وجہ سے کاشتکاروں سے زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے
کاشتکاروں کے احتجاج میں سیاسی جماعتوں کی شمولیت کی صورت میں سندھ حکومت
کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے سردار ممتاز علی بھٹو نے
انتباہ کیا ہے کہ اگر اس برس گنا سرکاری نرخ پر نہ خریدا گیا تو کاشتکار
اگلے برس گنا کاشت ہی نہیں کریں گے تو شوگر ملیں کیسے چلیں گی۔ وفاقی حکومت
کو اس معاملے میں مداخلت کر کے صوبائی حکومت، کاشتکاروں اور مل مالکان کے
درمیان فوری تصفیہ کرانے کے لئے عملی پیشرفت کرنی چاہئے تاکہ کاشتکاروں کو
نقصان نہ پہنچے اور ملک میں اس حوالے سے کوئی بحران پیدا نہ ہو۔ مل مالکان
کو بھی اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے ملیں بند کر کے
کاشتکاروں کو دبانے کی کوشش کی تو اس کا اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا اور اگلے
برس ان کے لئے جو مشکلات پیدا ہوں گی وہ پھر اس کا کوئی حل نہیں نکال سکیں
گے۔ سندھ حکومت اپنے فیصلہ پر بغیر کسی سیاسی دباؤ کے فوری عملدرآمد کرائے
تاکہ صوبے میں سندھ میں کاشتکاروں نے گنے کی صحیح قیمت مل سکے۔ ۔نائب صدر
آباد گاربورڈ ذوالفقار یوسفانی کے مطابق شوگر ملز کی جانب سے کرشنگ میں
تاخیر اور گنے کی قیمت 182 کے بجائے محض 155 روپے دیئے جانے سے کاشتکار وں
کو نقصان ہوا ہے اس لیئے احتجاج جاری رہے گا۔گزشتہ روز شوگر ملز نے ہڑتال
تو ختم کر دی تاہم سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک گنے کے نرخ 155 روپے ہی دیئے
جانے کا اعلان کیاتھا۔آباد گاروں کا کہنا ہے کہ شوگر ملرز کا مقابلہ عدالت
میں اور سڑکوں پر احتجاج سے ہوگا۔سندھ میں گنے کا مسئلہ اس لیئے اہمیت
اختیار کر گیا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی سندھ میں 16 شوگر ملیں
ہیں۔ ان کے ساتھ اور بھی سیاسی لوگ ہیں۔ جو کاشتکاروں کو ان کا حق دینے سے
گریز کر رہے ہیں۔گنا سندھ کی اہم پیداوار ہے۔ اگر اس پر حکومت نے توجہ نہ
دی تو سندھ میں دیگر پیداوار بھی متاثر ہوں گی۔ اور اگر آئیندہ گنا کاشت نہ
ہوا تو سندھ حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ |
|