پاکستان کو پر امن ریاست بنانے کے لیئے ’’قیادت‘‘
نے تکبر اور شرمندگی کے ساتھ جس۲۱ ویں آئینی ترمیم کومسیحائی فارمولا قرار
دیا وہ اب سپریم کورٹ میں جائز/ناجائز کی کسوٹی پرکھی جا رہی ہے۔دوسری طرف
پاک آرمی کے جوان سیاسی دہشتگری سے گلی محلوں میں پھیلائے گئے تعفن کو
ہٹانے میں مصروف ہیں۔ ادھر ٹی وی چینلز اور پرنٹ میڈیا پر ’’دانشور‘‘ عوامی
رائے عامہ سنوارنے اور بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوم
ولولہ ٹھنڈا ہورہا ہے۔ اب’’ سیاسی شہناہوں کی توجہ بھی سینٹ کی سیٹ پر
مبذول ہے۔آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا
ہر انسان اپنے خاندانی ماحول کے زیر اثر ہے۔ ورثہ میں ملنے والے جسمانی و
روحانی تعصب سے شائد ہی کوئی محوظ ہو۔پاکستانی کو تو ورثہ میں مزیدبہت کچھ
ملتا ہے۔پھر وہ کیونکر غیر جانبدار ہو کر سوچ سکتا ہے۔ پاکستان میں پیدا
ہونے والا پہلے پنجابی،سندھی، بلوچ یا پختون ہوتا ہے اور جسمانی مفادات میں
ریاستی خدمات سے خوش ہو کر وہ پاکستانی بنتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہو گا کہ
کیا ماضی کے کسی حکمران نے عوام میں پاکستان کی محبت تقسیم کی ؟تو میرا
جواب نفی میں ہو گا۔ دوسری جانب انسانی روح ہے جس کی تسکین تربیت سے مشروط
ہے۔ مسلم خاندان کے بچے کو بچپن کی تربیت پہلے فرقہ سکھاتی ہے پھر معاشرتی
مفادات اسے اجتماعیت کی راہ دکھاتے ہیں۔ مگر ہمارا معاشرہ بلوغت پکڑتے بچے
کو حق سے تجاوز، زبان و نسل پرستی، سیاسی دہشتگردی و کرپشن پر آمادہ کرتا
ہے۔ بچے کے مستقبل کے ضامن اور قومی امانتوں کے امین منتخب کرنے کا ہر سسٹم
برآمد شدہ ہے قصہ مختصر کہ مملکت فلاحی ریاست نہیں بلکہ خواص کی ملکیت ہے۔
اب نئے تجربہ کی گنجائش نہیں دو علیحدہ مذہبی تہذیبوں کے مخلوط معاشرہ میں
مسلمانوں کو پاکستان کا جو خواب دکھایا گیا اسے شرمندہ تعبیر کیئے بغیر آگے
بڑھنا ممکن نہیں۔ آج کے سسٹم میں بلدیات سمیت صوبائی، وفاقی و ریاستی
نمائیندگی کے سیاسی اداروں میں باپ کی جگہ دلال اور ماں کی جگہ داشتہ ہی
نہیں بلکہ عبداﷲ کی جگہ مشرک کو بٹھایا جاتا ہے۔ امن کے متلاشی کو کسی
بدکردار سیاسی دہشتگرد کا تابع رکھنے سے پاکستانیت بیدار نہیں ہو سکتی۔
میرے سیاسی و ذاتی مفادات قریبی مسجد سے وابسطہ ہوں گے تو میں کسی سیاسی
ڈیرہ کی بجائے مسجد کی رونق بڑھاؤں گا۔ مسجدکمیٹی کو محلہ کونسل کا درجہ
ملے گا تو میں اس کا ممبر بننے کے لیئے نمازی بنوں گا۔ نمازی بنوں گا تو
اپنے سے اعلیٰ و ادنیٰ سے برابری کا موقع ملے گا۔ باپ، بیٹے، خاوند ، بھائی
کے ذریعہ گھریلو خواتین کی بلواسطہ اورتقریبات میں شرکت سے بلا واسطہ
نمائندگی ہو گی فرقہ پرستوں کی بنائی ہوئی ہر مسجدپبلک سیکریٹیریٹ بن
کرفرقہ بازی اور تعصب سے پاک ہو سکے گی ۔ میری مسجد کے امام اور خطیب کو
محلہ کونسل کا چئیرمین قرار دیا گیا تو کوئی برآمد شدہ بہروپیہ نہیں بلکہ
کوئی باکردار، با صلاحیت ، محترم اور مقامی شخص امام مسجد بنے گا ۔ معاشرتی
ناسور بے اختیار ہو کر غیر موثر ہوجائیں گے۔ کنبہ پروری اور کرپشن کا خاتمہ
ہو گا۔ انفرادیت پراجتماعیت غالب آئے گی تو جرم کے خلاف شہادت کا تحفظ ہو
گا۔ کرمنل کیلیئے معاشرہ میں چھپنا ممکن نہ ہو گا۔سیاسی دہشتگردی اورسیاسی
تجارت کا خاتمہ ہو گا۔حقیقی قیادت کوریاستی اختیارات ملنے سے ریاست پر عوام
کا اعتماد بحال ہوگا۔ اقلیت و اکثریت کو محفوظ معاشرہ ملے گا۔ جو میرے بچوں
کی واحد ضرورت ہے۔ |