دوستو! یہ طنز نہیں بلکہ حقیقت
ہے اور عقلمند وں سے درخواست ہے کہ وہ اس تحریر کو سنجید گی اور غور سے
پڑھیں۔ رب کائنات کا فرمان ہے کہ ہر چیز لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے اور
کوئی چیز اُس سے باہر نہیں ۔ہر چیز اﷲ کے احاطہ قدرت میں ہے اور اُسی کے
حکم کے تابع بنتی ، بگڑتی اور سنورتی ہے۔ نباتات ، جمادات اور حیوانات کی
الگ تاریخ ہے اور ہر ایک کا مقصد و مطلب تاریخی صفحات پر موجود ہے۔
آئیے اب مقصد کی بات کرتے ہیں کہ آخر کیا ضرورت پڑی کہ آزادکشمیر کے ضلع
میرپور سے تعلق رکھنے والے جاٹ قبیلے کے تین تمنداروں نے لندن کے ملین مارچ
سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نو عمر چیئرمین کو خطاب کی دعوت دیکر اُسے بے
توقیر کیا۔ بوڑھے کالم نگاروں اور نو عمر اینکروں نے بغیر سوچے سمجھے محض
بغض اور کینے کی بنیاد پر بلاول بھٹو زرداری پرانڈوں ، جوتوں اور بوتلوں کی
بمباری کا سار ا الزام عمران خان کے بھانجے پر لگا دیا ۔ دیکھا جائے تو عمر
ان خان نیازی اور بھانجے حسن نیازی کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ا ورنہ ہی
مولانا فضل الرحمن ، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا کوئی تعلق ہے ۔عمران
خان اپنے جلسوں میں بڑی احتیاط سے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتا ہے اور کبھی کھل
کر بھارتی جارحیت اور درندگی پر مذمت کے الفاظ استعمال نہیں کرتا ۔ فضل
الرحمن کا کشمیر سے صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں
اورکشمیر کے نام پر کھا رہے ہیں ۔ مولانا کی شریعت جو بھی کہتی ہو اُسکا
تعلق مولانا اوراُن کی پارٹی سے ہے مگر میرے نزدیک یہ حرام نہیں تو ناجائز
ضرور ہے ۔ سیاسی بلیک میلنگ سے مفادات کا حصول اور ایک ایسے کام کا صلہ جو
اصلاً ہو ہی نہ رہاہوکسی طور جائیز نہیں ۔ یہ مفادات ،سہولیات اور مراعات
سراسر ناجائز اور مکروہ ہیں۔ مولانا کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے کشمیریوں
کو کیا فائدہ پہنچار ہے ہیں ، سب کے سامنے ہے۔ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی محض
پر لطف زندگی گزارنے کے لیے حاصل کرنا ایک گھناؤنی حرکت اور کرپشن سے لبریز
عمل ہے جس پر کشمیریوں کو احتجاج کرنا چاہیے مگر بد قسمتی سے کشمیری
ٹکڑیومیں بٹے ہوئے ہیں اور ٹکڑوں کی خاطر اپنے سیاسی آقاؤں کے قدموں میں
بیٹھے خود اپنے لیے مراعات مانگنے پھرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ لندن مارچ میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کیوں شریک نہ ہوئے اور
بلاول بھٹو زرداری کو خطاب کی دعوت کیوں دی گئی ۔ کیا بلاول کشمیری ہیں؟
اُنکے خاندان ، قبیلے یا گوت کا کوئی تعلق کشمیر سے ہے؟ جہاں تک بھٹواور
زرداری قبیلے کا تعلق ہے تواُنکی تاریخ بھی ایسی نہیں کے اُسے اچھے نام سے
یاد کیا جائے۔ جنا ب زرداری کی تاریخ انتہائی تلخ ہے ۔ پاکستان کی صدارت
سبھالتے ہی آپ نے فرمایا کہ پاکستان نیو کلئیر سٹرائیک میں پہل نہیں کریگا۔
موصوف سے کسی نے نہیں پوچھا کہ حضور دوسری سٹرائیک کیا ہوتی ہے۔ نیو کلئیر
سٹرائیک پہلا پتھر یا دوسرا پتھر نہیں ہوتا اور نہ ہی پہلا حملہ اور جوابی
حملہ ہوتا ہے۔ آخر یہ بیان ایک بھارتی چینل کو دینے کی کیا ضرورت تھی اور
کس کو خوش کرنے کے لیے یہ بیان دیا گیا کسی نے اس پر برا نہ منایا بلکہ بہت
سے ریٹائرڈ جرنیلوں اور بڈھے صحافیوں نے اس احمقانہ بیان کو بھی فلسفے اور
منطق کا رنگ دے دیا۔ مرد حر کا خطاب دینے والے مرحوم نظامی صاحب نے بھی
اپنا خطاب واپس نہ لیا اور نہ ہی ایوان وقت میں اس بیان پر کوئی تنقید ہوئی
کہ صدر مملکت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ بیان دیں ۔
صدر زرداری نے ہی مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا اور
پھر اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر کو چالیس سال تک منجمند کردیا جائے۔ جناب
زرداری کی کشمیر پالیسی کشمیریوں کو بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی پالیسی
تھی جسے شریف برادران نے بھی اپنالیا ۔ اسکا ایک تسلسل مولانا فضل الرحمن
کو دوسری بار کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنانا اور آزادکشمیر میں ن لیگ کا قیام
بھی ہے۔ شریف برادران بنیادی طور پر بیوپاری اور کاروباری لوگ ہیں ۔ سستا
خریدنا اور مہنگا بیچنا کاروبار کی بنیاد ہے۔ سوسنار کی اورایک لوہار کی
مثال ویسے ہی نہیں بنی ۔ سنار تولہ، ماشااوررتی کی بات کرتاہے اور لوہار
منوں ، ٹنوں اور لوہے کی کانوں کے سودے کرتا ہے۔ وہ لوہار ہی کیا جو لوہے
کوسونے کے بھاؤ فروخت نہ کرے۔ سنار ایک حد تک سونے میں کھوٹ ملاتا ہے جبکہ
لوہار کچرے سے لوہار بنا کر فروخت کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو میاں برادران ہی
نہیں بلکہ اُن کے بچگان اور خواجگان بھی اس فن کے ماہر ہیں۔
زرداری کی پالیسیاں اپنانا اور تسلسل قائم رکھنا سیاست نہیں سازش ہے مگر ٹی
وی اور اخباروں میں اسکا ذکر نہیں ہوتا۔ میڈیا کا فوکس عمران ، قادری ،
ملالہ ، بلاول اور گلوبٹ تک محدود ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا
چیئرمین برقرار رکھنا مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کے مترادف ہے اور جیالے
چوہدری اور حکمران برادری اس پر متفق ہے۔
اس سے پہلے کہ لند ن مارچ کی طرف جائیں بھٹو خاندان کی کشمیر سے وابستگی کا
ذکر بھی ضروری ہے۔ جناب سر شاہنواز بھٹو اور پنڈت نہرو انتہائی قریبی دوست
تھے اور ایک ہی دور میں برطانیہ میں زیر تعلیم بھی ر ہے۔ جناب ڈاکٹر شبیر
احمد مقیم فلور یڈا نے ایک مضمون میں لکھا کہ سر شاہنواز بھٹو تقسیم سے
پہلے ریاست جونا گڑھ کے وزیراعظم تھے۔ آپ کا تعلق سندھ کے علاقے لاڑکانہ سے
تھا اور آپ ایک راجپوت گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
جونا گڑھ کا نواب دور اندیش آدمی نہیں تھا اس لیے ریاست کا نظام وزیراعظم
کے ہاتھ تھا۔ تقسیم کا وقت آیا تو سر شاہنواز نے کہا کہ ہم پاکستان کے لیے
اور پاکستان ہمارے لیے ہے۔ ڈاکٹر شبیر لکھتے ہیں کہ اس نعرے کی بنیاد یہ
تھی کہ جونا گڑھ ایک مسلم ریاست تھی۔ ڈاکٹر شبیر بھول گئے کہ جونا گڑھ ایک
چھوٹی او ر جغرافیائی لحاظ سے پاکستان سے بہت دور تھی۔ مان لیتے ہیں کہ
نواب مہابت خان سوئم دور اندیشن نہ تھے تو اُن کے دور اندیشن وزیراعظم نے
جو فیصلہ کیا اُس فیصلے سے پاکستان ،نواب خاندان اور جونا گڑھ کے عوام کو
کیا فائدہ ہوا۔ 15اگست1947کے دن نواب آف جونا گڑھ نے الحاق پاکستان کی
دستاویز پر دستخط کیے اوریہ فیصلہ قائداعظم کی رائے لیے بغیر کیا گیا۔
21اگست 1947کے دن الحاق کی دستاویز قائداعظم کو پیش کی گئی تو آپ نے بغیر
کسی تاثر کے اس پر دستخط کر دیے ۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم ؒ اس دستاویز کو
مسترد نہیں کر سکتے تھے۔ جونہی قائداعظم نے دستاویز پر دستخط کیے سملد اس
گاندھی (چیف سیکرٹری جوناگڑھ) کے حکم پر بھارتی فوج ریاست میں گھس آئی ۔ اس
سے پہلے دو ہفتوں تک برٹش انڈین حکومت نے جونا گڑھ کا رابطہ باقی دنیا سے
منقطع کر دیا اور ریاست کی مکمل ناکہ بندی کر دی ۔ ٹیلی فون ، پوسٹل سروس
اور روڈ کیمونیکشن کاٹ دیا گیا اورلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نواب صاحب کو مشورہ
دیا کہ وہ الحاق پاکستان جیسی خطر ناک مہم سے باز آجائیں ورنہ کسی بھی نا
گہانی صورت میں پاکستان آپ کی مدد نہیں کریگا، جبکہ ریاست کی مسلم آبادی
بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دے گی۔
بھارتی افواج انگریز افسروں کی قیادت اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن گونر جنرل کے حکم
پر کا ٹھیا واڑ اور جونا گڑھ میں داخل ہوئیں تو ریاستی پولیس اور فوج نے
کسی مزاہمت کے بغیر ریاستی نظام انگریز افسروں کے حوالے کر دیا۔ جونا گڑھ
اور کا ٹھیا واڑ کے عوام نے بھی نواب صاحب کے فیصلے پر کوئی رد عمل نہ
دکھایا اور نہ ہی بھارتی فوج کی آمد پر کوئی ہنگامہ ہوا۔ نواب صاحب کسمپرسی
کی حالت میں کراچی آئے تو بھارتی سٹیٹ یونین نے کراچی کے بینکوں میں جمع
نواب صاحب کے ایک کروڑ کے کھاتے منجمند کر دیے۔ جونا گڑھ ہندوستان کی
خوشحال ترین ریاست تھی اور نواب کا خزانہ کسی طور سو کروڑ مالیت کے جواہرات
سے خالی نہ تھا۔ نواب صاحب جان بچا کر کراچی آنے سے پہلے انتہائی دردناک
تحریر چھوڑ کر چلے ۔ نواب نے اپنے دستخطوں سے آخری شاہی فرمان جاری کرتے
ہوئے لکھاکہ ہمارے آباواجداد کی قبروں ، مقبروں اور یاد گاروں سمیت تعمیرات
کو مسمار نہ کیا جائے، مذہبی مقامات کا تقدس بحال رہے اور عوام پر کسی قسم
کا ظلم نہ ڈھایا جائے۔
نواب آف جونا گڑھ خالی ہاتھ اورتن پر لگے کپڑے لیکر کراچی آئے تو کسی نے
حال تک نہ پوچھا۔ دانشور اور دانشمند وزیراعظم کی جاگیر کے متعلق خود اُن
کی پوتی محترمہ بینظیر بھٹو اپنی کتاب دختر مشرق میں لکھتی ہیں جیکب آباد
سے ٹرین چلی تو انگریز نے اپنے ماتحت سے پوچھا کہ یہ زمین کس کی ہے۔ ماتحت
نے جواب دیا کہ بھٹو کی زمین ہے ۔ کئی ریلوے اسٹیشن گزر گئے تو افسر نے پھر
پوچھا کہ زمین کسی کی ہے۔ ماتحت نے کہا بھٹو کی ہے۔ انگریز افسر نے سونے کے
لیے انکھیں بند کیں اور ماتحت کو حکم دیا کہ جب بھٹو کی جاگیر ختم ہو جائے
تو مجھے جگا دینا ۔ انگریز افسر سو کراُٹھا اور ایک پھر پوچھا اب زمین کس
کی ہے۔ تو ماتحت نے پھر کہا زمین بھٹو کی ہے۔
بھٹو کی جاگیر بہت سی ہندوستانی ریاستوں سے بڑی تھی مگر نواب آف جونا گڑھ
کے لیے اُن کی ریاست کے وزیراعظم نے کچھ نہ کیا۔ ہندوستان کی خوشحال ترین
اور امیر ترین ریاست کا خزانہ کہاں گیا یہ بھی کسی کو معلوم نہ ہوا ۔ نواب
بے یارو مدد گار کراچی آیا مگر وزیراعظم کی کہانی الحاق پاکستان کی دستاویز
پر دستخطوں کے بعد ختم ہوگی۔ سر شاہنواز بھٹو1947ء کے بعد سندھ کی سیاست
میں سرگرم ہوئے اور نواب آف جونا گڑھ تاریخ کے تاریک گوشے میں گم ہوگئے۔
قبضے کے بعد جونا گڑھ اور کا ٹھیا واڑ کے عوام پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے
اور ترقی و خوشحالی کے سارے ذرائع ہندو تاجروں کے ہاتھوں بک گئے۔ یونین
منسٹر سردار پٹیل نے ریاست کا دورہ کیا اور مہاراجہ پٹیالہ کے ہمراہ انڈین
پریس سے غیر رسمی بات چیت کے دوران دبے الفاظ میں ساری سازش کی کہانی بیان
کردی ۔ نہرو ، کانگریس ، لارڈ مائنٹ بیٹن اور انڈین پریس کی مشترکہ کاوش نے
جونا گڑھ اور کا ٹھیاو اڑ پر قبضے کے بعد مہاراجہ کشمیر کو واضح پیغام دیا
کہ وہ بھی خودمختار کشمیر کا خیا ل دل سے نکال دے۔
جونا گڑھ پر بھارتی قبضے کے بعد پاکستان میں کوئی ہلچل نہ ہوئی اور نہ ہی
کسی اہم سیاسی اور حکومتی شخصیت نے نواب کا حال پوچھا ۔ قانوناً ریاست کا
الحاق پاکستان سے ہو چکا تھااور حکومت وقت کو چاہیے تھا کہ وہ فوراً اس
مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھاتی اور یواین او کے دروازے پر دستک دیتی۔ وزارت
داخلہ خاص کر وزرات خارجہ اور دفاع نے کئی ہفتوں تک قائداعظم کو اس ساری
کہانی سے بیخبر رکھا اور وزیرخارجہ سر ظفراﷲ نے خاموشی اختیار کی۔ سر
شاہنواز بھٹو کا کردار بھی منظر سے ہٹ گیا اور بعد میں جوکچھ کشمیر میں ہوا
سرشاہنواز نے اس پر بھی کوئی رد عمل نہ دکھایا ۔ سر شاہنواز بھٹو کے الحاق
جونا گڑھ نے بھارت کی بہت سی مشکلیں آسان کر دیں ۔ اُمید ہے کہ چوہدری
عبدالمجید کی سربراہی میں لکھی جانیوالی تاریخ کشمیر میں ایک باب بھٹو
خاندا ن کی کشمیر سے وابستگی کے حوالے سے بھی لکھا جائیگا۔ (جاری) |