اسرائیل کا زوال شروع ہے
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
ایسے خام خیال ،ذہنی لحاظ سے
تھکے ہوئے اورعزم وعمل کے چُورچور لوگوں کوآپ کیسے قائل کرسکتے ہیں،جنہونے
بالغ النظر نہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ،یہ پختہ نظریہ وعقیدہ خود سے
اپنایا ہوا ہے کہ ’’اسرائیل ناقابلِ شکست ہے‘‘،وہ ایک سپرمین ہے،لہذاان سے
لڑنے،دو دو ہاتھ کرنے اور انہیں زیر کرنے کا تصور ہی غلط ہے، اسی لئے ہمارے
یہاں وقتاًفوقتاً یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیاجائے،شاید یہ
لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے گئے ،تویہودیوں
کے اثر ونفوذ والے طاقتور ملکوں میں ہمیں بڑی پذیرائی مل جائیگی،یہ لوگ
بھول جاتے ہیں کہ جن جن اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، انہیں
سوائے رسوائی کے اور کیاملا؟مراکش کو کیا ملا؟ترکی اور مصر کو کیا ملا؟بلکہ
یہودیوں نے اپنی شہرۂ آفاق بد طینتی کی بناء پر ان کا احسان ماننے کے بجائے
ان کو در خورِ اعتناء تک نہ سمجھا،ارے وہ اب یہ تک سوچنے پر آئے ہیں کہ
ہمارے بڑوں نے غلطی کرکے اسرائیل کو تسلیم کیا۔
فتح وشکست کاتعلق اوزارسے نہیں،عزم وارادہ اورمورال سے ہے، اسی کی بنیادپر
لبنان و فلسطین کے رضا کار نوجوانوں نے حکمرانوں سے ہٹ کر اپنی مدد آپ کے
تحت اسرائیل کی مزاحمت جاری رکھی،صرف ان کی ثابت قدمی ہی کی وجہ سے
2000،2006اور2009/2008کے انتفاضوں میں اسرائیل کو یقین ہو گیاتھا کہ ان
نوجوانوں کی تحریک ِمقاومت کو کسی بھی ہتھیار سے شکست دینا ممکن نہیں،آج
بھی وہ حیران ہیں کہ ان نوجوانوں نے اسرائیلی فوج کو اپنے اہداف تک کیسے
پہنچنے نہ دیا،ضرب وحرب کے کافی وسائل نہ ہونے کے باوجودانہوں نے ایک
باقاعدہ منظم ،تربیت یافتہ اور ترقی یافتہ فورسز کے بے رحمانہ تیز وتند
حملوں کو سینہ سپر ہوکرکس طرح روکے رکھا،پھر ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر دنیا
نے دیکھا کہ کئی محاذوں میں سے اسرائیلی فوجی دم دباکر بھاگ رہے ہیں
اورروبھی رہے ہیں،جبکہ عرب نوجوان کٹ تو سکتے ہیں،لیکن راہِ فرار اختیار
نہیں کرتے،واویلا بھی نہیں کرتے ،اس صورتِ حال نے جہاں عربوں میں بہت بڑا
حوصلہ پیدا کیا، وہاں یہودیوں میں خوف وہراس نے آلیا،ان کی ھیبت فلسطینیوں
کے دلوں میں کم ہوگئی اورعربوں کا رعب ودہشت صہیونیوں کے دماغوں پر سوار
ہونے لگا،وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم دنیا کے کونے کونے سے یہاں مجتمع
ہوکر کہاں آکر پھنس چکے ہیں، بالخصوص 2008اور2009کی جنگوں میں اسرائیل نے
بزدلانہ طریقے سے مد مقابل لڑاکا نوجوانوں کے بجائے شہری املاک، سویلین
لوگوں اور مفادِ عامہ کے منتصبات پر ساراغصہ نکالا،ان کی اس حواس باختگی
اور جنگی جرائم سے مقاومت کاروں نے یہ اندازہ لگایا کہ اسرائیلی فوج کی قوت
ناقابل شکست نہیں،بلکہ قابل شکست تھی اور ہے،جس کے لئے محض استقامت،استقرار
اور ثابت قدمی کی جتنی ضرورت ہے،بھاری بھرکم ہتھیاروں کی اتنی حاجت
نہیں،نیز اسرائیلی فوج وعوام سب ہی نے اسی سے اندازہ لگایا کہ عرب کے
جدیدلڑاکا نوجوان اب تر نوالہ نہیں،بلکہ یہ گوریلا جنگ کے وہ ماہرین ہیں،جو
تربیت یافتہ،پڑھے لکھے،منضبط،باشعور،جنگی اخلاقیات کے علمبردار،عزیمت کے
پہاڑ اوراچھی طرح مسلح ہیں، اس طرح اسرائیلی افواج کا مورال روزبروز گرتا
چلا جارہاہے،جب بھی وہ نئی جنگ چھیڑتے ہیں،مزید روبزوال ہوتے جاتے ہیں،وہ
پریشان بھی ہیں،کیونکہ انہوں نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل لانے کے
لئے یہ پروپیگنڈا کیاتھا کہ یہودیوں کو سوائے ارض موعود(یعنی فلسطین )کے
کہیں اور امن وسکون نہیں مل سکتا،اب وہ انہیں یہ اطمینان نہیں دلاسکتے،کہ
تمہارے لئے یہاں امن وسلامتی ہے،کہیں اور نہیں، اس لئے کہ عام یہودی شہری
گذشتہ رمضان2014سے یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے،کہ ان کے لئے دنیا میں کہیں
امن وسکون ہے یا نہیں،البتہ عربوں کی سر زمینِ فلسطین پر قابض جماکر ان کے
لئے امن ،سکون اور سلامتی نام کی کوئی چیزیہاں نہیں ہے،وہ دیکھ رہے ہیں کہ
اسرائیلی فوج تدریجاً1965کے مقابلے اس وقت غیر منضبط،حواس باختہ، ڈرے ہوئے
اور فرار کی راہوں کے متلاشی ہیں،رشوت ستانی ،کمیشن خوری،شراب وکباب ،نا
پائیدار مستقبل ،انسانیت کی حدوں سے گری ہوئی بدکرداری اور سہولت پسندی نے
ان کا ستیا ناس کیا ہوا ہے،اوپر سے مشکل یہ کہ وہ فوج میں ’’جوب ‘‘ کے لئے
آئے تھے، مستقبل بنانے آئے تھے، اپنی ایک خیالی دنیا بسانے آئے تھے،اب
انہیں ہرموڑپر موت کا سامنا ہے، خواری اور رسوائی کا سامنا ہے،پوری دنیا نے
انہیں محفوظ سرنگوں کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہوئے دکھایا،بھیڑیوں کو روتے
ہوئے دکھایا،اُس وقت یوں لگ رہا تھا جیسے مزعومہ ارض ِ موعود اُن کے لئے
میدانِ’’ تِیہ‘‘ بن چکا ہو،انہیں اب اپنی حکومت پر بھی اعتماد نہیں ہے،کہ
اگر وہ کسی جنگ کا ایندہن بن کر مرکھپ گئے،تو انکے پسماندگان کا کیا بنے گا،
ان کی دیکھ بھال یہ مفاد پرست ٹولہ کرے گابھی یا نہیں، اس کے بالمقابل عرب
رضاکارنوجوانوں کو شہادت درکارہے،اپنے وطن پر قرباں ہونا اور فدا ہونا
مطلوب ہے،انہیں اپنی تنظیموں پرہرطرح کا اعتماد ہے،اسی لئے گذشتہ رمضان میں
اسرائیل نے معصوم بچوں،خواتین اور نہتھے شہریوں کوبہیمانہ طورپر خون میں
نہلاکر ،نیزعام املاک کو تباہ وبرباد کرکے جب جنگی اہداف میں کسی بھی طرح
فتح نہ پائی ،اہلِ غزہ اور ان کے حماس کوقابو میں نہ لا سکے، تولجاجت پر
آگئے،ناک رگڑکر ا نکل سام اور مصر کی منت سماجت کی،خدارا درمیان میں
پڑجاؤ،مصالحت کراؤ، ہماری جان چھڑاؤ۔
یہی وہ صورتِ حال ہے جس کی وجہ سے فلسطین اب امریکہ واسرائیل کے علیٰ الرغم
اقوامِ متحدہ کا باقاعدہ ایک ’’رکن‘‘ ملک بن چکا ہے، بین الاقوامی عدالتِ
انصاف تک بھی اسے رسائی حاصل ہے،مسلم ممالک کے علاوہ بہت سے یورپین ملکوں
کے پارلیمانوں میں اسے تسلیم کرنے کی قراردادیں بھی پاس ہوچکی ہیں ، جس سے
امریکہ کاپروردہ وبغل بچہ اسرائیل اور ان کے دیگر چاچے مامے پیچ وتاب میں
ہیں،مزیدبرآں تین چار روز قبل لبنانی حزب اﷲ نے اپنے شہید کارکنوں کا بدلہ
16اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل کرکے لیا،اس سے یہودیوں کویہ بھی اندازہ
ہواکہ حزب اﷲ اگر چہ شام میں اپنے مسلمان بھائیوں سے مصروفِ جنگ اور
برسرِپیکارہے، لیکن اسرائیل کے دانت اب بھی کھٹے کرسکتا ہے، وہ اب بھی اینٹ
کا جواب پتھر سے دے سکتا ہے اور اب بھی یہودیوں کے چودہ طبق روشن کر سکتا
ہے،معلوم ہوا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں ہے،حال کی بات ہے ،کئی میدانوں
اور محاذوں پے وہ ہزیمت سے ہمکنار ہوا ہے،اس کے غبارے میں سے ہوا کا نکلنا
شروع ہوا ہے،بحیثیتِ مجموعی (قوم وفوج)ان کا مورال بہت زیادہ گر چکا
ہے،انہیں پتہ لگ گیا ہے کہ عزم وایمان سے معمورچھوٹی چھوٹی تنظیمیں بھی
انہیں خاک وخون میں لت پت کرسکتی ہیں اوردنیاپر یہ بھی اچھی طرح واضح ہواکہ
بزدل اورمادہ پرست یہودی یہاں پُرامن نہیں ہیں،بلکہ کسی بھی طرح شکست وریخت
سے آج یا کل دوچار ہوسکنے کے ڈرکی وجہ سے وہ ارض فلسطین خالی کرکے بھاگنے
کو ہیں۔ |
|