سرخ وسفید چہرہ، نکلتا ہواقد،
کسرتی بدن، خوشنما عرب داڑھی، سرپرفلسطینی رومال، ہنس مکھ، متواضع اور
باوقار، رحم دل اور نرم گفتار، اپنوں کے لیے غم گسار، دونمبروں کے لیے
تلوار، یہ ہیں ہمارے شیخ ولی خان۔۔۔۔۔المظفر صاحب۔
شیخ ولی خان المظفر نے سوات کے علاقہ چغرزئی ضلع شانگلہ خیبرپختونخواہ میں
آنکھ کھولی، ۱۹۸۰ء میں عظیم دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ میں داخلہ لیا، سولہ
سال کی عمر میں دورہ حدیث جامعہ فاروقیہ سے ہی پاس کیا، اٹھارہ سال کی عمر
میں وفاق المدارس العربیہ سندھ بلوچستان زون کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے،
انیس سال کی عمر میں عربی میگزین ’’الفاروق‘‘ کے نائب مدیر بنے، صرف تین
ماہ عبداﷲ عزام شہید کی صحبت میں رہ کر عربی زبان پرعبور حاصل کیا۔ اردو
زبان میں تصنیف وتالیف، درس وتدریس اور غریبوں، مظلوموں، بے روزگاروں اور
سیلاب متاثرین کے لیے المظفر ٹرسٹ کے قیام کے علاوہ آپ کا سب سے بڑا
کارنامہ عربی زبان کی ترویج ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے بعد وہ واحد
غیرعربی ایشائی ہیں جنہیں عربی ادب میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں لبنان
سے ایوارڈ ملا، اس علاوہ عرب دنیا سے کئی اعزازات حاصل کیے۔طویل عرصہ وفاق
المدارس العربیہ پاکستان کے صدر شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان کے پرسنل
سیکٹری رہ چکے ہیں، اندرون و بیرون ملک اسفار میں ان کے شریک ورفیق رہے،
یوں عرب علماء سے روابط مزید مستحکم ہوئے۔ آج کل آپ اسلام آباد میں تخصص فی
العربیہ کے سرپرست، جامعۃ العلوم الاسلامیہ المفتوحہ (آن لائن ٹیچنگ سینٹر)
کے بانی اور دیگرکئی اداروں کے نگران ہیں۔
عابدی جامعہ فاروقیہ کے درجہ اعدادیہ اول میں داخل ہوا، برادر کبیر مفتی
حبیب حسین کے توسط سے شیخ ولی خان المظفر سے نیازمندانہ تعلقات قائم ہوئے،
درجہ اعدادیہ کا طالب علم ان کے کمرے میں جانے سے گھبراتا، جہان کبار علماء
وطلباء کا تانتا بندھا رہتا، شیخ صاحب ہمیشہ مزاح کے موڈ میں دکھائی دیتے،
چھوٹا عابدی جب حاضر ہوتاوہ اس سے دل لگی شروع کردیتے، کبھی اسے ملائیشین،
انڈونیشین اور کبھی بنگالی کہہ کر پکارتے۔ ایک مرتبہ باہر سے کچھ مہمان آئے
ہوئے تھے، عصر کے بعد کا وقت تھا، عابدی بھی حاضر ہوا، ان علماء سے عابدی
کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ یہ ملائیشین ہیں لیکن اردو اور پشتو زبان ایسی
روانی سے بولتے ہیں کہ آپ کے نزدیک ان کے ملائیشین ہونے کی حیثیت مشکوک
ہوجائے۔
شیخ صاحب جامعہ فاروقیہ کے دورہ حدیث میں نسائی شریف کے علاوہ درجہ خامسہ
میں التاریخ الاسلامی اور درجہ سادسہ میں جلالین شریفین پڑھاتے تھے، کلاس
میں داخل ہوتے ہی کھڑے کھڑے مزاح شروع کردیتے، اکثر پورا گھنٹہ انہی خارجی
باتوں کی نذر ہوجاتا، وہ کتاب پڑھانے سے زیادہ صاحبِ کتاب بننے پر زور
دیتے، ان کا ماٹو تھا’’کونوا منفتحین، کونوا متجددین‘‘ مولانا الیاسؒ اور
مولانا مودودیؒکی طرح کچھ نیا کرکے دکھاؤ۔
شیخ صاحب طلبہ کرام، مہمانان رسول عظام کے لیے انتہائی مشفق ومہربان تھے،
اپنی سخاوت کا ہاتھ ہمیشہ ان پر کھلا اور منفتح رکھتے، شیخ صاحب کے علاوہ
طلبہ کو کسی اور استاذ کے ساتھ اتنا بے تکلف کبھی نہ دیکھا، طلبہ اس طرح ان
کی مجلس میں آزادانہ ہم کلام ہوتے یوں محسوس ہی نہ ہوتا یہاں کوئی استاذ
محترم تشریف فرماہیں۔ جامعہ فاروقیہ کے حسین وجمیل صحن میں کوئی طالب علم
مصافحہ کے لیے آگے بڑھتا، وہ کسی یار مزاج شناس کی طرح اس کے کاندھوں پر
ہاتھ ڈال کر حال احوال پوچھتے اور اپنے الفاروق دفتر تک اسی حالت میں جاتے،
اوپر برآمدوں سے جھانکتے طلبہ یہ خوش کن منظر دیکھ رہے ہوتے، جس طالب علم
کے ساتھ یہ محبت بھرا معاملہ ہوتا وہ اپنے ہم جھولیوں میں آکر فخر وسرور سے
پھولے نہ سماتا۔
شیخ صاحب جس مجلس میں ہوتے وہ کشت زعفران بنی رہتی، بے زاریت وبوریت کا دور
تک نام ونشان نہ ہوتا، ان کی پیشانی ہردم مسکراہٹ سے دمکتی، لیکن پٹھان
ہونے کے کارن اپنے گرم خون کے ہاتھوں سال میں ایک آدھ بار کسی ناپسندیدہ
عمل پر صبر کا دامن لبریز ہوکر چھلک جاتا اور پھر جو ہولناک منظر سامنے
ہوتا وہ پورے سال طلبہ کو حدودِ ادب کے دائرے میں رکھنے کے لیے کافی ہوتا۔
درجہ خامسہ اور سادسہ معہد کا کمرہ ایک تھا جس میں تختے کی دیوارقائم کرکے
دوحصے بنادیے گئے تھے، ایک طرف کی بلند آواز دوسری طرف آسانی سے سنائی دیتی
تھی، اساتذہ کلاس میں نہ ہوتے تو طلبہ ایک دوسرے کو تنگ کرنے کے لیے تختے
کی دیوار پر اپنے وجود کاثبوت دیاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ درجہ خامسہ کی کلاس
میں دوطالب علم گتھم گتھا ہوگئے، درجہ سادسہ میں شیخ صاحب موجودتھے، تختے
کی دیوار نے ان کی حرکت واشگاف کر ڈالی، شیخ صاحب کا پارہ ساتویں آسمان چڑھ
گیا، دونوں کو بلوایا، ان پر وہ داؤ پیچ آزمائے کہ ہم فائٹر مین ساتھی بھی
اپنے کراٹے اور فائٹ بھول گئے۔ دوتین دن بعد عشاء کا وقت تھا، شیخ صاحب
اپنے دفتر کی طرف خراماں خراماں جارہے تھے، عابدی نے آگے بڑھ کر سلام کیا،
شیخ صاحب نے خیریت دریافت کے بعد مسکراتے ہوئے پوچھا’’اس دن میں حدسے کچھ
تجاوز نہیں کرگیا تھا‘‘ عابدی نے عرض کیا ’’استاذجی! حد سے تجاوز؟ ہمارا تو
پورا ایک کلو خون خشک ہوگیا تھا، پورا ایک کلو‘‘ شیخ صاحب نے ایک دم سنجیدہ
ہوتے ہوئے کہا’’اچھا یہ بتاؤ تم ان طلبہ کو جانتے ہو‘‘ عابدی نے ادب سے
جواب دیا’’جی! اچھی طرح دعاء سلام ہیں‘‘۔ شیخ صاحب عابدی کو اپنے گھر لے
گئے، ایک تھیلا تھماتے ہوئے کہا ’’طلبہ کی پٹائی کے بعد سے دل پر بوجھ سا
ہے، تحفہ دینے سے محبت پیدا ہوتی ہے، تم یہ چیزیں طلبہ کو دے دو، شاید دل
کا بوجھ کچھ ہلکا ہوجائے‘‘۔
شیخ صاحب کاایک وصف جو اس نفسانفسی کے دور میں ہزار اوصاف پر بھاری ہے، وہ
اپنے تلامذہ کو خود سے بڑھ کر درجہ دینا ہے، اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی
کرتے ہیں، کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونے دیتے، کوئی شاگرد ترقی کے
منازل طے کریں وہ تعارف کراتے سمے اپنے شاگرد نہیں بلکہ ان کا مرتبہ بتلاتے
ہیں۔ جامعہ فاروقیہ میں بھی مدرسین تلامذہ کی حوصلہ افزائی کا موقع ضائع
ہونے نہیں دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ابتدائی درجات کو پڑھانے والے ان کے شاگرد
استاذ ان سے کسی کام کے سلسلہ میں ملنے درجہ سادسہ معہد آئے، آپ نے ان کا
تعارف بڑے درجہ کے طلبہ سے کروایا، عربی ادب میں ان استاذ کے کارہائے
نمایاں گنواکر ان سے کہاکہ حاضرین کو عربی میں اپنے گراں قدر کلمات سے
نوازیں۔
وہ عربی ادب کے علاوہ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں، متعدد کتابیں ضبط
تحریر میں لاچکے ہیں جن میں مکالمہ بین المذاہب، مظفریات اور فیجی آئر لینڈ
کا سفرنامہ کو خاص شہرت حاصل ہے۔ ان پر لکھنے کے لیے قلم کو حرکت دی تو
بیتے ایام کی ایک تازہ ہوا فضاء کو معطر کرگئی۔ ان کی مجالس ومحافل، لطائف
وظرائف، واقعات وحکایات، کلمات وفرمودات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ
شروع ہوگیا، کس کس کو زیب قرطاس کیا جائے اور کس کس سے سرمو انحراف کیا
جائے، قلم کو اسی پر روک لیتے ہیں کہ
ایں سخن را نیست اختتام
پس سخن کوتاہ باید والسلام |