کشمیر ہمارا ہے

کشمیر کمیٹی کے چیئرمین حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب نے عالمی رائے عامہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر سکاٹ لینڈ کے مسئلیء پر استصواب رائے ہو سکتا ہے تو کشمیر بارے کیوں نہیں ہوسکتا مولانا صاحب کا یہ فرمان اور سوال بالکل درست ہے لیکن ہم ادب سے عرض کریں گے کہ وہ گزشتہ تقریباً ایک عشرے سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں جس قدر ان کی بات کا وزن ہے ان کی شخصیت کی عالمی پہچان ہے اگر وہ کشمیریوں پر کئے گئے مظالم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے معیار کے مطابق کوشش کرتے تو یقیناً عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر عالمی برادری کیلئے دنیا کے تشویشناک مسائل میں یقیناً نمایاں حیثیت حاصل کرچکا ہوتا کشمیر اس حسین و جمیل دوشیزہ کی طرح ہے جس کی مانگ اجڑ گئی ہے یہ جنت نظیر وادی اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کے ظلم و ستم کے باعث برباد ہوگئی ہے ایک کروڑ سے زائد باشندوں کی آماجگاہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے یہ اقوام متحدہ کے فورم پر ایک حل طلب مسئلے کی حیثیت سے 7 عشروں سے لاوارث پڑا ہے پاکستان اور کشمیر پر قابض بھارت میں اس مسئلے کی وجہ سے کئی جنگیں ہوچکی ہیں پاکستان کیلئے یہ موت و حیات کا مسئلہ ہے لیکن ہم اپنی نادانیوں کمزوریوں اور لاپرواہی کی وجہ سے اسے اپنی دسترس سے دور رکھے ہوئے ہیں ہم نے بانی پاکستان کے فرمان کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے کو نظر انداز کرنے کی سزا بھگت رہے ہیں کشمیر کو جب شہنشاہ جہانگیر نے دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھا کہ اگر زمین پر کوئی جنت ہے تو بے شک وادی کشمیر ہے کشمیر کے ساتھ ڈوگرہ مہاراجوں نے جو ظلم کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے کشمیری نسل در نسل غلامی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں کبھی اسے بیچ دیاجاتا ہے کبھی برباد کردیاجاتا ہے ہے ہم یہ تو کہتے ہیں کہ
جنت کبھی ہوسکتی نہیں کفر کی جاگیر

اے وادی کشمیر لیکن ہم نے اپنی اس جنت کے حصول کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی اور اگر کی بھی تو وہ سازشوں کی نظر ہوگئی ہمارے حکمرانوں نے بلند و بانگ دعوے تو کئے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے کشمیر ہمارا ہے کے نعرے تو لگائے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے کشمیر کے ایشو کو اٹھایا تو ضرور لیکن کبھی اس کیلئے تن من دھن کی بازی نہ لگا سکے ہماری عوام کشمیر کے ساتھ ہے اس کی عوام کے دلوں کے ساتھ ہماری عوام کے دل دھڑکتے ہیں ان پر ہونے والے ظلم پر روتے بین کرتے نوحے پڑھتے ہیں کشمیر میں جہاد کیلئے بھی تیار ہیں دامے درمے سخنے قدمے حصہ لینے کیلئے بھی تیار ہیں لیکن یہ توفیق ہمارے حکمرانوں کو نہیں ہے آج سب کی سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو شہہ رگ کیوں کہا تھا ؟ اس لئے کہ ہمارا تقریباً تمام پانی کشمیر کے پہاڑوں سے آرہا ہے بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے اب اس نے وہ پانی روک لیا ہے سینکڑوں ڈیم بنا کر ہماری زمینوں کو بنجر اور ویران کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے اور ہمارے حکمران امن کی مالا جپ رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کے چکر میں ہیں سیمنٹ دینے کے چکر میں ہیں آلو پیاز لینے کے چکر میں ہیں آج کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد شہداء اسی ہزار سے زائد بیوائیں ہم سے سوال کررہی ہیں کہ مسلمان تو مسلمان کی مدد کرتا ہے ہم اپنے رب کے بعد کسے پکاریں ہم سے مدد کا وعدہ کرنے والے کب ہماری امداد کریں گے آج ہمیں وہ بہنیں ، بیٹیاں ان کی چیخیں دردناک آہیں نہیں سنائی دے رہیں جو بھارتی فوج کے ظالم سپاہیوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں لٹوا کر مرچکی ہیں یا زندہ درگور ہوچکی ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان سے ایک ہزار سے زائد راستے کشمیر کو نکلتے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے جبکہ بھارت کو گورداسپور کے ذریعے ایک ہی راستہ ہے اور وہ پورے کشمیر پر قابض ہے پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ کشمیر میری پہلی محبت ہے اس نے اپنی محبت پر جبراً قبضہ کرلیا ہم اپنے جسم کو کٹوا بیٹھے آج اگر ایمانداری سے جائزہ لیاجائے تو 5 فروری کو ہم یوم کشمیر کے طور پر مناتے ضرورت ہیں لیکن اسے بھی ایک رسم کے طور پر ہی لیا جاتا ہے کشمیریوں کو مزید دکھی کرتے ہیں کہ تم زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہو اور ہم تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکتے ۔آج اگر جماعت اسلامی کو 5 فروری سے علیحدہ کردیاجائے تو باقی صرف کچھ سیمینار رہ جاتی ہیں اور کچھ کاغذی کاروائیاں ہمیں جماعت اسلامی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ کم از کم وہ اس مسئلے کو زندہ رکھے ہوئے ہے جلسے کرتی ہے جلوس نکالتی ہے ریلیاں سجاتی ہے عوام کو بتاتی ہے کہ ہم کچھ بھول گئے ہیں کچھ فرائض ہمارے ذمہ ابھی بقایا ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے کچھ وعدے کئے تھے ہمیں اسے پورا کرنا ہے برطانیہ بھارت اور مرزائیوں نے ملکر کشمیریوں کو برباد کیا ہے لیکن ہم ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکے اب تو لگتا ہے کہ ہم بے بس ہوچکے ہیں کشمیر بزور شمشیر بھارت نے قبضہ کیا تھا لیکن ہماری شمشیر زنگ کی زد میں ہے ہمیں جہاد کیلئے ہر وقت گھوڑے تیار اور ہتھیار تیز کرنے کا آفاقی قرآنی حکم ہے لیکن ہم اپنے فرائض سے غافل ہوچکے ہیں چین نے بزور طاقت بھارت سے تبت والداخ لیا لیکن ہم اپنے زیر قبضہ کشمیر کو دیکھ کر چپ ہوگئے ہم 70 سال سے اپنے بھائیوں کو رورہے ہیں لیکن ان پر ظلم کرنے والے ہاتھوں کو نہیں روک رہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری ایمانی غیرت کب جاگے گی کب ہم اپنی بہنوں ، بیٹیوں کی پکار کو سنیں گے اور کب اقوام متحدہ سے یہ سوال کریں گے کہ عیسائیوں کا مسئلہ ہو تو مہینوں میں مشرقی تیمور میں ریفرنڈم ہوجاتا ہے سوڈان ٹکڑے ہوجاتا ہے ہندووں کی سازش پر بنگلہ دیش بن جاتا ہے کشمیر کے مسئلہ پر اقوام عالم کا ضمیر کیوں مردہ ہے کیوں نہیں انہیں کہتے لیکن شاید یہ ہمارے بس میں نہیں یا شاید ہمارے حکمران اتنی ہمت ہی نہیں رکھتے کہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں کشمیر کبھی منت سماجت اور انصاف کی بھیک مانگنے سے آزاد نہیں ہوگا کشمیر لہو مانگتا ہے تازہ جوان لہو ہمارے حکمرانوں کو غیرت کرنا ہوگی کیونکہ جو سر وار پر ہوتے ہیں وہی سردار ہوتے ہیں آج پوری قوم کو حکمرانوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ ہم کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں وہی حکمران چاہیں جو ہمیں کشمیر آزاد کراکے دیں ہماری فوج جرأت ایمانی سے بھری ہیں پوری قوم فوج کے ساتھ ہے حکمران پاک فوج کا ساتھ دیں کشمیر کی آزادی کو اپنا نصب العین بنائیں اور بھارت کو بتادیں کہ اب تمہارے ساتھ ہماری فیصلہ کن جنگ ہے یہ صرف 90سالہ سید علی گیلانی کی جنگ نہیں ہے یہ ہر پاکستانی کی جنگ ہے اور ہر پاکستانی کو اس جہاد میں حصہ لیکر اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد کرنا ہے یاد رکھیں زندگی وہی ہے جو غیرت اور ایمان کے ساتھ گزاری جائے آج بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے یہود و ہنود عیسائیت و مرزائیت اس کی پشت پر ہے لیکن مسلمانوں کو امت واحدہ بن کر ان کا مقابلہ کرنا ہے ۔ ہمیں اپنے حقوق میں 54 اسلامی ممالک اور پونے 2 ارب مسلمانو ں کو آواز بلند کرنے کیلیئے مائل کرنا ہے اگر امت مسلمہ ہمارے حق میں آواز بلند نہیں کرتی تو یہ ہماری نہیں پوری امت مسلمہ کے لئے شرم کا مقام ہے مسلمانوں کو تو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کریں۔ مسلمانوںکو تو ایک دیوار کی مثل کہا گیا ہے جسکی ہر اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے ۔اور انکو حکم دیا گیا ہے کہ مظلوم کی مدد اور ظالم کی سرکوبی کریں۔ مسلمان تو مسلمان کی تکلیف پر بے چین ہوتا ہے ۔ تڑپتا ہے ۔ بقول شاعر :
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیروجواں بیتاب ہوجائے

لیکن ہندوستان اور کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک جو ظلم ہو رھا ہے تمام دنیا کے مسلم حکمران کی آنکھیں اس ظلم پر بند ہیں ۔ یاد رکھیں 5 فروری کو ہم ایک رسم کے طور پر نہ نبھائیںبلکہ ایک عہد ساز دن بنائیں کہ خون دینا پڑا تو دیں گے جان دینی پڑی تو دیں گے لیکن ہندوؤ ں ظالموں اور لیٹروں سے کشمیر کو آزاد کراکر دم لینگے ۔ ہمیں بھارت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرنی ہوگی ۔ اگر وہ بات نہیں کرتا تو ہمیں بھارت سے ہر صورت آخری جنگ لڑنا ہوگی ہمیں یا تو عزت سے جینا ہو گا یا غیرت سے لڑتے ہوئے شہیدہونا ہوگا کشمیر کے مسئلے پر بہت کچھ کمالیا سیاست دانوںنے ،غداروں نے،اب کشمیر کے حصول کیلئے جہاد کرنا ہوگا اپنی فوج کو طاقتو ر بناکر اسکے قدم بہ قدم ہونا ہوگا یادرکھیں دنیا میں وہی قومیں عزت افتخار پا تی ہیں جو اپنے رہنماؤں کی با ت اور ان سے لئے وعدوں کا پاس رکھتی ہیں ۔ ہمیں قائد اعظم کا قول ثابت کرنا ہوگا ہمیں مظلوموں کی امداد کرناہوگی ہمیں ہندوستان کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرناہوگا ۔آج ہمیں ہندوستا ن سے اپنا بدلہ لیناہوگا جو خنجر اس نے ١٩٧١ئ میں ہماری پشت میں گھونپا تھا ہمیں اپنی موجودہ اور آنے والی نسل کو بتاناہوگا کہ پاکستان ایک جسم ہے لیکن اسکا دھڑکتا ہو ادل کشمیر ہے جو دشمنوں قبضے میں ہے ہمیں اپنی دھڑکن اپنے دل کو واپس اپنے جسم میں لانا ہے ۔اور اسکے لئے اگرہمیں اپنے ایٹمی اور نیوکلئیر اثاثے بھی استعمال کرنے پڑے تو ہم دریغ نہیں کرینگے ۔ اور ہندوستان کو بتادینا چاہیئے۔
کہ ماریں گے مرجائینگے،
کشمیر آزاد کرائینگے۔
Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 28800 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.