جموں کشمیر برصغیر کی اہم ترین ریاست
(Sajjad Ali Shakir, Lahore)
اسلام میں معاملات کو بڑی اہمیت
حاصل ہے۔ جس کسی نے بھی اﷲ کے بندوں کے حقوق مارے، ستایا،دل دْکھایا،غیبت
کی،چغلی کھائی ، کسی قسم کی زیادتی کی یا نقصان پہنچایا،تو یہ ظلم معاف
نہیں ہوں گے۔ عدل حکمرانی کا سب سے بڑا شیوہ ہے۔ حاکم ،سربراہ چاہے
گھر،علاقے،ادارے یا مْلک کا ہے۔چھوٹا ہو یا بڑا عدل اْس کا سب سے کڑا
امتحان ہے۔ ارشادِربانی ہے: ترجمہ -:(کہ اے ایمان والو! مضبوطی سے انصاف پر
قائم رہو)۔چیف جسٹس کے بیٹے کا کچھ لوگوں سے لین دین تھا۔ کسی وجہ سے
معاملات بگڑ گئے۔ چیف جسٹس کے بیٹے کا خیال تھا کہ میرے ساتھ ناانصافی ہوئی
ہے اور میرا حق نہیں دیا گیا۔ بیٹے نے سارے حالات کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے
بعداپنے والد سے مشورہ مانگا۔ کہ اگر کامیابی کی اْمید ہو توپھر میں عدالت
میں دعویٰ دائر کردوں۔ ورنہ خاموش رہوں۔ باپ نے کچھ دیرسوچنے کے بعد کہا
بہتر ہے دعویٰ کردو۔ بیٹے نے باپ کے مشورہ کے بعداس یقین ِ کامل کے ساتھ کہ
مقدمہ میں جیت اس کی ہوگی دعوی ٰ دائر کردیا۔ مقدمہ پیش ہوا ! بیانات ،
شہادتیں لی گئیں بحث مباحثہ کے بعد قاضی نے جو مقدمے کے ایک فریق کاباپ بھی
تھا، مقدمہ کا فیصلہ صادر کردیا۔ فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہوا۔جیت چیف
جسٹس کے بیٹے کی نہیں دوسرے فریق کی ہوئی۔ معلوم ہوا منصف ، منصف ہوتا ہے
کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا آقا، کسی کا نوکر نہیں۔انفرادی سطح سے
اجتماعی معاشرے اور قومی سطح پر چاہیے تو یہ تھا کہ ہم ہر شعبہ اور ہر سطح
پر سنجیدگی سے ان کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے لیکن !آج بھی ہم اجتماعی طور
پر دوسروں کو برا کہنے، دوسروں کی برائی سننے، لوگوں کے بھید لینے، جھوٹی
باتیں گھڑنے اور سب سے پہلے ،کے چکر میں، کسی بھی شخصیت ،مرتبہ کا لحاظ کئے
بغیر، بلاتحقیق غلط خبریں اْڑانے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب
صورت ِ حال یہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر بڑے سے بڑے عہدہ دار تک کسی بھی جگہ
،مقام اور حتی کہ انٹر نیشنل پلیٹ فارم پرپہلے تو بغیر سوچے سمجھے بڑے فخر
سے بیان داغ دیتے ہیں پھربھلے تردید اور وضاحتی بیان سے سب کے سامنے خاک
آلود ہونا پڑے۔فیصلہ کے بعد گھر پہنچے تو بیٹے نے عرض کی ! ابا جان اگر میں
نے آپ سے مشورہ نہ کیا ہوتا اور آپ مقدمے کا فیصلہ میرے خلاف کردیتے تو
مجھے ذرا بھی افسوس نہ ہوتا۔ لیکن میں نے آپ سے پوچھا، آپ نے مقدمہ دائر
کرنے کا مشورہ دیا، پھر میرے خلاف فیصلہ کردیا۔قاضی نے اپنے بیٹے سے کہا۔
جب تم نے مجھ سے مشورہ کیا تو تفصیلات کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ تم حق پر
نہیں ہو۔ اگر اْس وقت تم کو یہ بات بتا دیتا تو ان لوگوں کا حق مارا جاتا۔
میرے بیٹے ! تو مجھے اْن لوگوں سے زیادہ پیارا ہے۔ لیکن اپنا ایمان اور
آخرت مجھے تجھ سے بھی زیادہ پیاری ہے۔یہ واقعہ ابن ِ سعد نے طبقات کی چھٹی
جلدمیں قاضی شریح کے حالا ت میں لکھا ہے۔کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے دورخلافت سے عبدالملک بن مروان کے عہد تک تقریباََ 60برس چیف
جسٹس کے عہدہ پر فائز رہنے والے شریح بن حارث تھے۔حضرت سلیمان علیہ السلام
کو اﷲ تعالیٰ نے زمین، پانی، ہوا، چرند، پرند، آدمی، جِنات سب پر حکومت
عطاء فرمائی تھی۔ اْنہوں نے ایک مرتبہ اپنا ایک جن پیامبر کہیں بھیجا۔ اْس
نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس سے نکلنے سے پہلے آسمان کی طرف سر
اْٹھایا۔ تھوڑی دیر تک کچھ دیکھتا رہا پھر خوب اپنا سر ہلایا۔ حضرت سلیمان
علیہ السلام نے پوچھا۔۔۔کیا بات ہے۔ جن بولا مجھے فرشتوں پر تعجب ہورہا ہے
جولوگوں کے سروں پر ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا تعجب کس بات پر
؟ اس نے کہا لکھے جارہے اور ایک لمحہ کے لئے نہیں رْکتے۔ پھر بولا مجھے ان
فرشتوں سے زیادہ اِن لوگوں پر تعجب ہورہا ہے۔جوانہیں تھکائے دے رہے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کررکھے ہیں جوہربات اور ہمارے اعمال
لکھتے جاتے ہیں۔ ہم ایسی بے کار اور بے ہودہ باتیں کرنے والے ہیں کہ نہ
ہمیں چین، نہ دوسروں کو چین لینے دیتے ہیں۔کسی پر مصیبت پڑے تو اﷲ تعالیٰ
اپنی رحمت سے مصیبت دور کردیتا ہے،دعاؤں سے مرض کا ازالہ ممکن ہے مگراحمق
پن، یابیوقوفی تو اﷲ کا قہرہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر قہرہوتو
پھراس کا کوئی علاج نہیں۔جموں کشمیر برصغیر کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک
ہے جس طرح حیدر آباد، جونا گڑھ اور مناوا درجیسے مسلم اکثریتی علاقوں پر
بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا اسی طرح قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد
29اکتوبر1947کو انڈیا نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں کشمیر
پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے پاکستانی افواج
کو بھارتی لشکر کشی کا جواب دینے کا حکم دیا تو پاکستانی فوج کے انگریز
کمانڈر جنرل ڈگلس گریسی نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اس
حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔بعد ازاں 1948ء میں پاکستانی افواج اور
قبائلی مجاہدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت یکم جنوری 1948ء کو
کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیاجس پر سلامتی کونسل نے 12اگست 1948ء
اور 5مئی 1949ء کو دو قراردادیں پاس کیں کہ جنگ بند کرکے دونوں حکومتیں
کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب
رائے کا انتظام کیا جائے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں
جنگ بندی ہوگئی۔ اس کے بعد پاکستان کی تمامتر کوششوں کے باوجود بھارت
مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کو ٹالتا رہا اور اقوام متحدہ جیسا حقوق
انسانی کا علمبردار ادارہ جو مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو،مسلمانوں کی رفاہی
تنظیموں ، شخصیات واداروں پر پابندیوں کا مسئلہ ہو تو دنوں میں اپنی
قراردادوں و فیصلوں پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر مسئلہ
کشمیر کے حل کے لئے اس نے کبھی بھارت پر اس طرح دباؤ نہیں ڈالا جس طرح اسے
ڈالنا چاہئے تھا۔یہ نام نہاد عالمی طاقتوں اور اداروں کے بھارت کی طرف
جھکاؤ کا نتیجہ تھا کہ انڈیانے ہمیشہ اس مسئلہ پر روایتی ٹال مٹول سے کام
لیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا’ یوں وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں
کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا، کشمیر میں استصواب رائے کے وعدہ سے
انڈیا صاف طور پر مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع
کردیا۔اس وقت سے لیکر آج تک بھارت ہٹ دھرمی کا یہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے
اور مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کیلئے تیا رنہیں ہے۔ اگرچہ
یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے نائن الیون کے بعد سابق حکمرانوں کی جانب سے
بھارت و امریکہ کے دباؤ پرکشمیری جہادی تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئیں
اورایسے ایسے اقدامات کئے گئے کہ جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا
تھا۔ کنٹرول لائن پریکطرفہ سیز فائر کردیا گیا، اعلان اسلام آباد پر دستخط
کئے گئے اور بھارت سے یکطرفہ دوستی اور باہمی اعتماد سازی کے نام پر ملکی و
قومی خود مختاری اور وقار کی دھجیاں اڑا دی گئیں مگر اس قدر بھارت نوازی کے
باوجود کشمیری مسلمانوں کی اہل پاکستان سے محبت میں کوئی کمی واقع نہیں
ہوئی۔ وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں۔ وہ اپنی گھڑیاں پاکستانی
وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں، عیدین کا مسئلہ ہو تو ان کی نگاہیں
پاکستانی روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرف ہوتی ہیں۔یوم پاکستان پر کشمیر
کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور پاک بھارت کرکٹ میچ ہو تو
ان کی تمامتر محبت اور ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں۔بھارت نے
ستاسٹھ برسوں میں ہر ممکن طریقہ سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے اور
کچلنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی فوج نے ڈیڑھ
لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا ،ہزاروں کشمیری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں
کی عصمت دری کی گئی،بچوں و بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا،
ہزاروں کشمیری نوجوان ابھی تک بھارتی جیلوں میں پڑ ے ہیں۔جگہ جگہ سے
اجتماعی قبریں برآمد ہو رہی ہیں۔کشمیر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی
فرد شہید نہ ہوا ہو یا وہ کسی اور انداز میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا
نشانہ نہ بنا ہو لیکن اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ
دھڑکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیری قوم67 برس سے عزم و استقلال کا پہاڑ
بن کر بھارت کے ظلم و تشدد کو برداشت کر رہی ہے مگر ان کی بھارت سے نفرت کی
شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی۔ ہم ہر سال5 فروری کو کشمیری
مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف
فرما اور ہمارے ملک پاکستان اور کشمیرسمیت پْورے عالمِ اسلام میں امن سکون
عطاء فرما آمین ثم آمین یارب العالمین |
|