کیا ’پاکستان‘ سعودی حکمراں شاہ سلمان کا بھی دوسرا گھر ہوگا

سعودی عرب کے شاہ عبد اﷲ بن عبد العزیز مرحوم کی پاکستان سے محبت اور چاہت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ وہ پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔وہ پاکستان کو اپنا بھائی اور دوسرا گھر سمجھتے تھے۔پاکستان سے محبت اور تعلق کا اظہار انہوں نے متعدد بار دو ٹوک انداز میں کیا۔ انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں ۔ پاکستان نے ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے توپورا مغرب پاکستان سے ناراض اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ تھا اس نازک اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والا ملک سعودی عرب اور حمایت کرنے والے شاہ عبد اﷲ ہی تھے۔ پاکستان کو ’ڈیفرڈ ادائیگی ‘پر تیل فراہم کرنے والے شاہ عبد اﷲ ہی تھے جنہوں نے دنیا کی پروا کیے بغیر پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا اور اعلانیہ ، بلا ڈر و خوف پاکستان کا ساتھ دیا۔ ڈیفرڈ ادئیگی پر تیل کی فراہمی تقریباً مفت میں تیل کی فراہمی کے برابر تھی۔ اقتصادی طور پر پاکستان کے لیے یہ مشکل گھڑی تھی، دنیا کے اکثر ممالک ایٹمی دھماکوں پر پاکستان سے خوش نہ تھے۔ بہت سے ملکوں نے پاکستان کی امداد بند یا مختصر کردی تھی۔ اس مشکل وقت میں شاہ عبداﷲ کا پاکستان کی حمایت کرنا اس بات کا ثبوت ہی تو تھا کہ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے تھے۔اُس وقت شاہ عبد اﷲ نے جس وقت کہ وہ بھارت کے دورہ پر تھے کسی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان کے لیے زندگی اور موت کے اس مرحلے پر آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہم اسے تنہا چھوڑ دیں گے‘۔شاہ عبد اﷲ مرحوم سعودی عرب کے ان سربراہان میں سے تھے کہ جنہیں نیک نام اور اچھے بادشاہ کے طور پر یاد کیاجاتا ہے۔ شاہ عبد اﷲ نے شاہ فہد بن عبد العزیز کی زندگی میں ہی مملکت کے امور چلانا شروع کردیے تھے۔ ان کی پاکستان دوست پالیسیاں ڈھکی چھپی نہیں تھیں بلکہ وہ کھلے بندوپاکستان سے اظہار ہمدردی اور چاہت کا عملی مظاہرہ کرتے تھے شاہ عبد اﷲ کے دور حکومت میں پاکستانیوں کو جو سعودی عرب میں ملازمت کررہے تھے اور پاکستانی جو سعودی عرب ملازمت کے سلسلے میں جانا چا ہتے تھے کے لیے خصو صی احکامات جاری کیے تھے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شاہ عبد اﷲ مرحوم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سعودی عرب کے نئے بادشاہ شاہ سلمان بن عبد العزیز السعودکے اقدامات کس قسم کے ہوں گے کیا وہ شاہ عبد اﷲ کی پالیسیوں کو ریاست میں جاری و ساری رکھیں گے یا ان کی پالیسیاں مختلف ہوں گی؟۔ خصوصاً پاکستان کے حوالے سے ان کا طرز عمل کس قسم کا ہوگا ؟۔ عالمی معاملات اور دیگر ممالک سے تعلقات میں شاہ عبداﷲ کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے یا نہیں لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے معاملات میں ان کا رویہ اور عمل شاہ عبد اﷲ سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ شاہ سلمان ،شاہ عبد اﷲ کی زندگی میں ہی سلطنت کے معاملات میں عملی طور پر سرگرام ہوگئے تھے اگر انہیں پاکستان سے کسی بھی قسم کا اختلاف ہوتا تو وہ اختلاف شاہ عبد اﷲ کی زندگی میں ہی سامنے آنا شروع ہوجاتا۔ شاہ سلمان بھی پاکستان کے ہمدردوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

شاہ سلمان بن عبد العزیز نے تخت ِشاہی پر براجمان ہوتے ہی جو بیان جاری کیا اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے۔ ’سیکورٹی اور استحکام برقرار رکھنے اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت کرنے میں اﷲ میری مدد کرے‘۔ شاہ سلمان کا یہ بیان ان کے عزائم اور مستقبل کے رویے کی غمازی کرتا ہے۔ وہ نہ صرف سعودی عرب کو مستحکم بنیادوں پر آگے لے کر چلیں گے بلکہ شاہ عبد اﷲ کے پیروکار کے طور پر کام کریں گے۔ تاہم ریاست کے لیے بعض تبدیلیاں لازمی کرنا ہوں گی ، وہ انہوں نے کیں اور آئندہ مزید سامنے آئیں گی۔ ان تبدیلیوں کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوگا کہ وہ شاہ عبد اﷲ سے مختلف سمت میں چلیں گے بلکہ بعض تبدیلیاں نئے آنے والے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے ۔شاہ سلمان نیک اورصالحِ انسان ہیں۔ ان کے صالح ہونے اور جُرأت کے اظہار کے لیے یہ واقع ہی کافی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی قوت امریکہ کے صدر اوباما کو گارڈ آف آنر کی تقریب کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے تقریب سے اٹھ کر چلے جانا، پھر ان کے ہمراہ تقریب میں موجود تمام سعودیوں کا شاہ کے ساتھ اٹھ کر چلے جاناشاہ سلمان کی دین سے گہری وابستگی اور تقویٰ کا مظہر ہے۔ گو ہر مسلمان کو ہی یہ عمل کرنا چاہیے لیکن طاقت اور قوت کے پہاڑکے سامنے بڑے بڑے سر جھکائے یہ وقت خاموشی سے گزاردیتے ہیں۔

شاہ سلمان دو سال قبل شہزادہ نائف بن عبد العزیز کی وفات کے بعد ولی عہد کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ شاہ سلمان ابھی صرف ۱۹ برس کے تھے کہ انہیں ۱۹۵۴ء میں ریاض شہر کا میٔر بنا دیا گیا تھا۔ایک سال بعد ہی یعنی ۲۰ سال کی عمر میں انہیں وزیر کا منصب عطا کردیا گیا تھا۔۱۹۶۳ء میں جب کہ ان کی عمر ۲۷ برس تھی انہیں ریاض شہر کا گورنر بنا دیا گیا ۔ شاہ سلمان کا یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ ۴۸ سال (۱۹۶۳ء تا ۲۰۱۱ء) ریاض شہر کے گورنر رہے۔ریاض شہر کو ایک چھوٹے اور دیہات نما شہر سے دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک شہر بنا دینا شاہ سلمان ہی کا کارنامہ ہے۔ ۵ نومبر ۲۰۱۱ء کو انہیں وزیر دفاع کا قلم دان سونپا گیا اور ۱۸ جون ۲۰۱۲ء کو اپنے بھائی شہزادہ نائف کے انتقال کے بعد ولی عہد کا منصب عطا ہوا اور پھر شاہ عبد اﷲ کے انتقال کے بعد سعودی فرما ں روا بنے۔

سعودی روایت ہے کہ جب خوشی کے موقع پر اپنی عوام کو بھی خوش کرتے ہیں۔ شاہ عبداﷲ مرحوم صحت یاب ہوئے تو انہوں نے سعودی عرب کے ملازمین کو ریالوں کے انعام و اکرم سے نوازا۔ موجودہ شاہ سلمان نے اقتددار سنبھالا تو یہ بھی ایک خوشی کی بات تھی چنانچہ تمام ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کیاہے۔جب کہ طلباء اور ریٹائر ڈ ملازمین کو بھی اسی طرح بونسز دیے جائیں گے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے جو شاہ سلمان نے قائم رکھی۔ شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالتے ہی مملکت کے امور میں ردو بدل کرتے ہوئے سعودی کابینہ میں پرانے چہروں کی جگہ نئے چہروں کو شامل کرنے کے اقدامات شروع کر دئے ہیں۔ سابق شاہ عبد اﷲ کے دو بیٹوں شہزادہ مشعال جو مکہ کے گورنر تھے اور شہزادہ ترکی جو دارالحکومت ریاض کے گورنر تھے کو برطرف کر دیا گیا۔اسی طرح اینٹلی جنس سربراہ اور قومی سلامتی کے سیکریٹری اور مذہبی پولس کے سربراہ کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔جب کہ شاہ عبد اﷲ کے تیسرے بیٹے شہزادہ متعب نیشنل گارڈ کے انچارج وزیر کی حیثیت پر برقرار رہے ۔اسی طرح ثقافت، اطلاعات، سماجی امور، سول سروس ، انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی وزارتوں پر نئے چہرے سامنے لائے گئے ہیں۔ اسی طرح بندرگاہ اور قومی انسداد کرپشن کمیشن کے سربرہوں کو کو بھی فارغ کردیا گیا ہے ۔شاہ سلمان نے اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’ آپ اس سے بھی زیادہ کے حقدار ہیں جو میں آپ کو نہیں دے سکتا‘۔ان تبدیلیوں سے سعودی عرب مزید ترقی کرے گا اور وہاں کی معیشت اور مستحکم ہوگی۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق شاہی فرمان کے مطابق خالد بن بندر بن عبد العزیز کی جگہ جنرل خالد بن علی کو ملک کے خفیہ ادارے کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جن کا عہدہ وزیر کے برابر ہوگا۔ اسی طرح شاہ عبد اﷲ کے بھتیجے اور امریکہ میں ۲۲ سال تک سعودی عرب کے سفیر رہنے والے شہزادہ بندر بن سلطان کو قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹی جنرل اور بادشاہ کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ شاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ملک کا نیا وزیر دفاع اور شہزادہ مقرن کو ولی عہد اور وزیر داخلہ ، شہزادہ محمد بن نائف کو نائب ولی عہد مقرر کیا ہے۔شہزادہ مقرن سعودی نسل کی نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے شاہی تخت جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے اور شاہی انتظامی تیم میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔

سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی رسمی، عارضی، مصلحت کی دوستی نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام ایک دسرے سے روحانی تعلق کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کے وجود کا مرکز و محور مکہ ان کی روح ہے تو مدینہ میں ان زندگی ہے۔ پاکستان اپنی روح اور زندگی کے بغیر اددھورے ہیں۔ وہ ان دونوں کے بغیر نہ مکمل اور کچھ بھی نہیں۔سعودی عرب اس بات کو بخوبی سمجھتا ۔ شاہ عبد اﷲ ہی نہیں بلکہ ان سے پہلے تمام سعودی سربراہوں نے پاکستان کے اس تعلق کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ شاہ فیصل بن عبد العزیز السعود (۱۹۰۶ء ۔۱۹۷۵ء) بھی پاکستان سے اتنی ہی محبت کیا کرتے تھے اس کا ثبوت فروری ۱۹۷۴ ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی براہی کانفرنس تھی جس میں شاہ فیصل کے علاوہ معمر قذافی ، یاسر عرفات کے علاوہ متعدد اسلامی مما لک کے سربراہان نے شرکت کی تھی۔ سعودی عرب کے دیگر سر براہان نے مختلف مواقع پر پاکستان کے موقف کی بر ملا حمایت کی۔ دونوں ممالک او آئی سیOrganization of Islamic Coopertation(OIC) کے سرگرم رکن ہیں اور دونوں ممالک نے اس ادارے تحت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت کی وہ ہندوستان کے طرز عمل سے خوش نہیں تھا اور پاکستان سے ہمدردی رکھتا تھا۔ کشمیر تنازع میں پاکستان کے موقف کا حامی رہا ہے۔ دہشت گردی میں پاکستان کی کھل کر مدد کی اور کررہا ہے۔ان کے علاوہ دیگر بے شمار معاملات میں سعودی عرب اور پاکستان باہم ساتھ رہے ہیں۔پاکستان بھی سعودی عرب کی مدد کرنے میں جب کبھی ضرورت پڑی کبھی پیچھے نہیں رہا۔

پاک ، سعودی تعلقات میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی شخصیت بھی اہم رہی ہے۔ میاں صاحب کا جیل سے سعودی عرب جانا وہاں قیام کرنا شاہ عبداﷲ کے دور میں ہی ممکن ہوا اور یہ عمل میاں صاحب اور شاہ عبد اﷲ کی قربت کی نشاندھی کرتا ہے۔میاں صاحب کے علاوہ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف اور شاہ عبد اﷲ کے مراسم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ایک جانب شاہ عبد اﷲ میاں صاحب کے دوست تھے تو دوسری جانب پرویز مشرف کی بعض خوبیوں اور اقدامات نے شاہ عبد اﷲ کو پرویز مشرف کا قریبی دوست بنا دیا تھا۔تب ہی تو خصو صی طیارہ کراچی ائر پورٹ پرپرویز مشرف کے انتظار میں کھڑا رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ شاہ عبد اﷲ کے پاکستانی شخصیات سے ذاتی نوعیت کے مراسم کے اثرات موجودہ سعودی قیادت پر بھی پڑیں گے یا نہیں۔جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ نئے پرنس بعض معاملات میں نواز شریف سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن شخصیات آنی جانی ہوتی ہیں ،شخصیات کے کیے ہوئے فیصلے اہم اور دور رس ہوتے ہیں ان کے اثرات کئی نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔شاہ سلمان انتظامی و اصلاحات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سعودی خاندان میں سمجھ بوچھ اور عقل و دانش کے حامل ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔سابق سعودی شاہ ان کے مشوروں سے مستفیض ہوا کرتے تھے ۔ امید یہی ہے کہ شاہ عبداﷲ کی پاکستان سے خصوصی محبت اور چاہت کا عمل شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ان کے بعد بھی جاری و ساری رہے گا اور پاکستان شاہ سلمان بن عبد العزیز السعود کابھی دوسرا گھر ہو گا۔(۳ مارچ ۲۰۱۵ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1288683 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More