ایک اور نظریہ ضرورت
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
وزیرِاعظم پاکستان میاں نوازشریف نے بیدیاں روڈ لاہورمیں انسدادِدہشت گردی
فورس کی پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قوم ،فوج اورادارے
متحدہیں اوردہشت گردوں کے عبرت ناک انجام کاوقت قریب آگیا۔اُنہوں نے فرمایا
’’دہشت گردی کے خلاف جس طرح سیاسی جماعتوں ،صوبائی حکومتوں اورافواجِ
پاکستان نے کردار اداکیا وہ قابلِ ستائش ہے اورماضی میں اِس کی مثال نہیں
ملتی ‘‘۔ یہ بجاکہ دہشت گردی کے خلاف حکومت اورفوج ایک صفحے پرہے مگر۔۔۔
سیاسی جماعتیں ؟۔نوازلیگ کی حلیف ،جمعیت علمائے اسلام نے توپہلے دن سے
آنکھیں دکھانی شروع کردیں ۔اُس نے اکیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیانہ وہ
اِس ترمیم کوتسلیم کرتی ہے ۔یہی حال جماعت اسلامی کا بھی ہے ، وہ دہشت گردی
کے خلاف ایکشن کی توبھرپور حمایت کرتی ہے لیکن اکیسویں ترمیم سے الگ تھلگ
کھڑی نظرآتی ہے ۔محترم عمران خاں نے دہشت گردی کے خلاف ایکشن کی نہ صرف
بھرپور حمایت کی بلکہ ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنادھرنابھی ختم
کردیا لیکن عملی طورپر وہ آج بھی دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج اورسڑکوں پر
آنے کے لیے تیار ۔ایم کیوایم کراچی میں ہونے والے ہرپولیس اور رینجرزایکشن
سے نالاں اور سندھ حکومت کو موردِالزام ٹھہراتی ہوئی ۔اِس منظرنامے کو
مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتاہے کہ حکومت اورفوج دہشت گردی کی لعنت کے
خاتمے کے لیے یکسو ہے اورقوم بھی لیکن دیگرسیاسی جماعتوں کی ’’وہی ہے چال
بے ڈھنگی ،جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘۔
ہماری سیاسی اشرافیہ دہشت گردی کے خلاف تین بار اکٹھی ہوئی اوراعلیٰ عسکری
قیادت بھی اِس مشاورت میں شامل رہی ۔عسکری قیادت تو ہر قسم کی قربانی کے
لیے یکسوتھی لیکن سیاسی اکابرین کے چہروں پر بیزاری ، تھکاوٹ اوربناوٹ عیاں
۔ہرسیاسی جماعت نے میڈیاکے سامنے یہی رونارویا کہ وہ بحالتِ مجبوری ملٹری
کورٹس کوقبول کررہی ہے ۔ جمہوریت بچانے کی فکرمیں غلطاں اِن بزرجمہروں سے
سوال کیاجا سکتاہے کہ کیااُن کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت ہے؟۔اکیسویں
ترمیم کی سینٹ میں منظوری پر پیپلزپارٹی کے سینیٹررضاربانی آبدیدہ ہوگئے
۔اُنہوں نے فرمایاکہ ووٹ پیپلزپارٹی کی امانت تھا جو دے دیالیکن ضمیرپر
ہمیشہ بوجھ رہے گا ۔سوال مگریہ ہے کہ محترم رضاربانی اُس وقت آبدیدہ کیوں
نہیں ہوئے جب ایک آمرکے این آراو کی چھتری تلے بی بی شہید پاکستان تشریف
لائیں ؟۔وہ جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی میں موروثیت ہے جمہوریت نہیں،پھر
موروثیت کے خلاف بات کرنے سے پہلے اُن کی زبان پرلکنت کیوں طاری ہوجاتی ہے؟
۔بلاول زرداری نے ٹویٹ کیاکہ پیپلزپارٹی نے اکیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ دے
کراپنی ناک کٹوادی ۔یہ ناک اُس وقت کیوں نہیں کٹی جب بلاول زرداری کوبیٹھے
بٹھائے ’’بٹھو‘‘بنا دیاگیا ۔یہ ناک اُس وقت بھی سلامت رہی جب ’’غضب کرپشن
کی عجب کہانیاں‘‘منظرِعام پر آتی رہیں ۔یہ ناک تب بھی سلامت رہی جب میموگیٹ
سکینڈل کے مرکزی ملزم کوپہلے ایوانِ صدر اورپھر وزیرِاعظم ہاؤس میں پناہ دی
گئی اوریہ ناک اُس وقت بھی سلامت رہی جب ایک طرف تونوازلیگ کے ساتھ
’’میثاقِ جمہوریت‘‘پر دستخط کیے جارہے تھے اوردوسری طرف آمر پرویزمشرف کے
ساتھ خفیہ ملاقاتیں ۔واہ ! کیابات ہے پیپلزپارٹی کی اِس موم کی ناک کی کہ
جس کوجب ،جہاں اور جیسے موڑلیں ،وہ سلامت ہی رہتی ہے لیکن آج جب قوم
پردَورِ ابتلاء ہے اورقوم دہشت گردی کے خلاف یکسو تو پیپلزپارٹی کی بیٹھے
بٹھائے ناک کٹ گئی ۔ایم کیوایم کے الطاف بھائی کہتے ہیں کہ اگرپورے ملک میں
مارشل لاء نہیں لگانا تو کم ازکم سندھ کوہی فوج کے حوالے کردیا جائے تاکہ
شہرِقائد کوبھتہ خوروں ،قبضہ گروپوں اورٹارگٹ کلرز سے پاک کردیا جائے
۔الطاف بھائی شایدیہ بھول چکے کہ یہ سارے نخل اُنہی کی نرسری میں اُگے اور
اُنہی کی کاوشوں سے آج ایسے تن آور درخت بن چکے جنہیں جڑ سے اکھاڑنا اگر
ناممکن نہیں توانتہائی مشکل ضرورہے ۔یہ بجاکہ اب کراچی میں بھی دہشت گردوں
نے جابجا ٹھکانے بنا لیے ہیں لیکن نو گوایریاز ،عقوبت خانے اورٹارگٹ کلنگ
تواُس دور کی پیداوارہیں جب الطاف بھائی نے اپنے کارکنوں کو گھریلوسامان
بیچ کر اسلحہ خریدنے کاحکم دیا ۔ایم کیوایم (حقیقی) کے کارکنوں کا قتلِ عام
بھی تاریخ کا حصہ ہے اور چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی کراچی آمدپر بہائے
گئے خون کے دھبے بھی ابھی مٹ نہیں پائے۔اسلحے سے بھرے ہزاروں کنٹینربھی اسی
دور میں گُم ہوئے جب ایم کیوایم کے بابرغوری پورٹس اینڈشپنگ کے وزیرتھے
۔’’مہاجر لبریشن آرمی ‘‘کی گونج بھی کراچی ہی میں سنائی دی اوروزیرِداخلہ
چودھری نثاراحمد کایہ مضحکہ خیزبیان بھی سامنے آیاکہ مہاجرلبریشن آرمی کی
رپورٹس تواُن تک پہنچیں لیکن یہ رپورٹس سپریم کورٹ میں داخل کروانے کے لیے
نہیں تھیں ۔یہ بھی کوئی سربستہ رازنہیں کہ 90 کی دہائی سے پہلے ہرکسی
کواپنی آغوشِ محبت میں سمیٹنے والے روشنیوں کے شہرکراچی کو لسانی ،نسلی
اورگروہی منافرتوں میں کس نے تقسیم کیا؟۔ خونم خون کراچی کی بربادیوں کے
افسانے سب سے پہلے ایم کیوایم نے لکھے پھر پیپلزپارٹی اوراے این پی بھی اِس
میں شامل ہوگئیں۔ایک کراچی کے اندر کئی کراچی بن گئے ،جگہ جگہ بابا
لاڈلااور عزیربلوچ جنم لینے لگے ۔جب سیرکو سواسیر مِل گیا تو الطاف بھائی
نے بھی کراچی کوفوج کے حوالے کرنے کامطالبہ کردیا ۔ہم تویہی کہہ سکتے ہیں
کہ
اب کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں میں
کچھ قلم فروشی کادھندا کرنے والوں کو چھوڑکر سبھی متفق تھے کہ پیپلزپارٹی
کے دورِحکومت میں جنابِ زرداری کامفاہمتی رنگ اُن کی مجبوریوں کا عکاس تھا
اور مفاہمتی پالیسی’’ کرسی‘‘ بچانے کی تگ ودو البتہ میاں نوازشریف کے سامنے
ایسی کوئی مجبوری نہیں کیونکہ اُنہیں پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل ہے
، پھربھی وہ پارلیمنٹ کوساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں جسے خالصتاََ جذبۂ
تعمیرکہا جاسکتاہے ۔نوازلیگ بھی متوازی عدالتی نظام کے ہرگز حق میں نہیں
اور اقتدارکے ایوانوں سے اِس کا برملا اظہاربھی کیا جاچکا لیکن جب حالات
اِس نہج پرپہنچ جائیں کہ زندگی اورموت میں کسی ایک کا انتخاب مقصود ہو
توپھر طارق بن زیادکی طرح سفینے جلانے ہی پڑتے ہیں ۔ ہم نے چاردہائیاں
’’نظریۂ ضرورت ‘‘کے تحت گزاردیں ۔آمروں نے اپنی آمریت کواستحکام بخشنے کے
لئے ہمیشہ اعلیٰ عدلیہ کو ’’نظریۂ ضرورت‘‘کے لیے استعمال کیا ۔اب اگر قوم
کواسی ’’نظریۂ ضرورت‘‘کی ضرورت آن پڑی تو اعلیٰ عدلیہ ایک سول حکومت کو دو
سال کے لیے ’’ملٹری کورٹس‘‘کی اجازت دے دے تواِس میں ہرج ہی کیاہے ۔
|
|