سانحہ شکار پور اور دہشت گردوں سے نبٹنے کا عزم

ابن اﷲ دتہ

پشاور کے آرمی پبلک سکول کے سانحہ بعد شکارپور میں جعفریہ مکتب فکر کی امام بارگاہ کربلائے معلی میں قیامت توڑنے میں دہشت گرد کامیاب ہوگئے۔ دشہت گردوں کے حملے کے وقت کربلائے معلی شکار پور میں نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی۔ دہشت گردوں کی اس بربریت نے حکومت سندھ کے ساتھ وفاقی حکومت کے ایکشن پلان پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ دہشت گردی کے ہر واقعہ اور واردات کے بعد پاکستانی قوم کو مژدہ سنایا جاتا ہے کہ’’ سکیورٹی ہائی الرٹ‘‘ کردی گئی ۔ اگر ’’ سکیورٹی ہائی الرٹ‘‘ کرنے کے حوالے سے شائع ہونے والی اب تک کی خبریں اکٹھی کی جائیں اور حکومتی اعلان کو مدنظر رکھا جائے تو کیا تصویر بنے گی یہ اندازہ کرتے ہوئے دہشتگرد وں کا کسی واردات میں کامیاب ہونا عقل اور سمجھ سے باہر ہے۔ ہائی الرٹ سے سکیورٹی ریڈ الرٹ کرنے کے بھی اعلانات موجود ہیں۔

مساجد کی سکیورٹی کا جائزہ لیا جائے تو سوائے پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا کیونکہ بڑے شہروں سے لیکر قصبوں اور دیہاتوں میں مساجد کی سکیورٹی ایک یا دو پولیس اہلکاروں کے ذمہ ہوتی ہے۔ وہ بھی مساجد کے باہر دروازے کے دور و نذدیک ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھنے تک محدود ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ سکیورٹی کی ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کے پاس مساجد میں آنے والے نمازیوں کو چیک کرنے کے لیے کسی قسم کے جدید آلات ہی نہیں ہوتے۔ نمازی آتے ہیں اور بنا چیکینگ کے مساجد میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔مکتب جعفریہ کی مساجد کی اکثریت امام بارگاہوں کے اندر یا ان سے ملحقہ ہوتی ہیں۔ ان کے لیے سکیورٹی پر شازو نادر ہی پولیس اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر امام بارگاہوں کی سکیورٹی مساجد انتظامیہ کے ذمہ ہوتی ہے۔

مساجد ،امام بارگاہوں اور دیگر مقامات پر تعینات پولیس اہلکاران میں اکثریت ایسے اہلکاران کی ہوتی ہے جنہیں اسلحہ استعمال کرنے کی مہارت سے عاری ہوتی ہے۔ 90 فیصد پولیس اہلکاروں کی ازسرنو تربیت کرنے کی ضرورت ہنوز باقی ہے۔ یہ امر سب سے زیادہ حکومتی توجہ کا متقاضی ہے۔ انہیں ( پولیس اہلکاران کو) جدید دور کے تقاجوں کے مطابق تربیت دیئے بغیر ہم دہشت گردی کی جنگ میں دہشت گردوں کو شسکت دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

دوسری جانب مساجد کے خطباء اور امام صاھبان کی ڈیوٹی اور فرائض بھی بڑے سخت ہیں۔ دیہات کی چھوٹی مساجد سے لیکر شہروں اور قصبہ جات کی مساجد میں امامت کے فرائض ادا کرنے والے علماء کرام اور ان کے معاونین کی تنخواہیں بہت ہی قلیل ہوتی ہیں۔ بقول شاعرعـ․ ’’
بڑے سخت ہیں بندہ مزدور کے اوقات‘‘
کے مصداق مساجد کے علما ئے کرام کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ چاہے موسم گرمی کا ہو یا سردی کا ، برسات کا ہو یا بہار کا یاچاہے موسم خزان ہی کیوں نہ ہو انہیں روزانہ پانچ اوقات اذان کہنے ہے اور پانچ وقت نماز بھی پڑھانی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ طور پر صبح و شام بچوں کو دینی تعلیم بھی دینی ہوتی ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ آگیا تھا۔بات ہو رہی تھی مساجد ،تعلیمی اداروں ،امام بارگاہوں اور دیگر حوالوں سے معصوم شہریوں کو دہشت گردوں کی بربریت سے بچانے کیلیے سکیورٹی کے اقدامات کی۔ جو ہمیشہ سے غیر تسلی بخش ہی ہوتے ہیں۔

خیبر پختون خواہ میں تو پولیس خواتین اساتذہ کو تربیت دینے کی کوشش کررہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام محکموں کے ملازمین اور غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کو دہشت گردی سے نبٹنے کی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے اور غور کرنے کے لیے وقت نکالنا ہوگا۔ کیونکہ دہشت گردوں کے مضبوط نیٹ ورک کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لیے پوری قوم کو جدوجہد کرنا ہوگی۔ محض پولیس اور پاک فوج پر ذمہ داریاں ڈالنا قرین انصاف نہیں ہے۔ میں تو یہ تجویز بھی دوں گا کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان، پارلیمنٹ کے اندر کام کرنے والے ملازمین ، اور بلدیاتی اداروں کے کرتادھرتاؤں کو بھی دہشت گردوں سے لڑنے کی فنی مہارت فراہم کرنا لازمی قرار دیدیا جائے۔ ریلوے ملازمین اور بسوں ویگنوں کے ڈرائیورو ں اور کنڈکٹروں کو بھی تیار کرنا ہوگا۔

سانحہ پشاور پر حکومت خیبر پختونخواہ کو نااہلی اور ناکامی کے طعنے دینے والی پیپلز پارٹی کے اپنے صوبے سندھ میں اور وہ بھی وزیر اعلی سندھ کے اپنے علاقے کی امام بارگاہ میں سانحہ کارونما ہو نا پاکستانی قوم کے ہوش اڑادینے کے لیے کافی ہے۔ امام بارگاہوں ،مساجد مزارات اور دیگر مقامات کی سکیورٹی کے لیے ایک ایک دودو پولیس اہلکار وں کی تعیناتی کرکے دہشت گردوں کو شکست دینے کا عزم ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں، پشاور کے آرمی پبلک سکول کے بعد شکار پور کا سانحہ حکومت اور سکیورٹی اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔کیا حکومت دہشتگردوں کے اس چیلنج سے نبٹنے کی ہمت اور حکمت عملی رکھتی ہے؟
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144474 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.