آئین تو سیکلولر ہے مگر سرکاریں؟

یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک سرکاری اشتہار کے پس منظر میں آئین ہند کے افتتاحیہ کا اولین عکس شائع ہوا ہے جس میں دوالفاظ ’سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ شامل نہیں ہیں۔ ان الفاظ کا اضافہ اندراگاندھی کے دورحکومت میں ایمرجنسی کے دوران کیا گیا تھا۔ 26نومبر1949کو آئین سازاسمبلی نے جو افتتاحیہ منظور کیا تھا اس میں یہ الفاظ شامل کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں کی گئی کہ ان کے بغیربھی اس کی سیکولر اور سوشلسٹ روح صاف ظاہر تھی۔ افتتاحیہ کا مفہوم یہ ہے کہ’ ہم ہندستانی عوام اپنے ملک کو ایک خودمختار عوامی جمہوریہ دیتے ہیں جس میں تمام شہریوں کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، سوچنے سمجھنے، رائے قائم کرنے، رائے کا اظہار کرنے اور عقیدے و عبادت کی آزادی ہوگی، قانون کی نظر میں اور مواقع میں سب کا درجہ برابر ہوگا، بھائی چارہ کی ،ہرفردکی عزت نفس کی اورقومی اتحاد کی ضمانت ہوگی۔‘

جوعندیہ اس افتتاحیہ میں ظاہر کیا گیا ہے وہ ’سیکولر‘ اور’سوشلسٹ‘ کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ سیکولر سے مراد یہ ہے کہ عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر قانون اورسرکاری پالیسوں میں نہ کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ ہوگا، نہ کسی کو مراعات حاصل ہونگی۔ سوشلست سے مراد یہ ہے کہ ہرشخص کو معاشی اعتبار سے آگے بڑھنے اورترقی کرنے کے مواقع بغیر کسی اونچ، نیچ کے حاصل ہونگے اور حکومت یکساں طور سے پورے معاشرے کی بہبود کے لئے کاربند ہوگی۔

اس روح کوآئین کی چند دفعات سے واضح کردیا گیاہے جن میں کمزور طبقوں اور اقلیتوں کے حقوق وتحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ دفعات 16، 25، 29 اور 30 میں ان ضمانتوں کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے جو اجمالاً افتتاحیہ میں شامل ہیں۔ واضح ہدایات کے ساتھ اگرچہ آئین سازوں نے افتتاحیہ میں سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ کو شامل نہیں کیا تھا، مگر ان کے شامل ہونے یا نہ ہونے سے آئین کی حیثیت پر کوئی جوہری فرق نہیں پڑتا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے 1975 میں ان الفاظ کو شامل کئے جانے سے پہلے اوراس کے بعد حکومتوں کا رویہ کیا رہا؟ کیا انہوں نے اپنے رویہ اور پالیسوں سے اس روح کو زندہ رکھا یا محض سجاوٹ اور دکھاوے کی چیز بنا کررکھ دیا؟ کیا سب کو انصاف ملا، کیا سرکاری پالیسیوں اوراقدام میں مڈہب کی بنیاد پر تفریق نہیں برتی گئی ، کیا ایسا ماحول بنا یا گیا جس میں ہر شخص بے خوف ہوکر اپنے عقیدے کے مطابق زندگی جی سکے ، عبادت گاہیں محفوظ رہیں اورکسی کے مذہب کو نشانہ بناکر اس کی عزت نفس کو چوٹ نہ پہچائی جائے؟اور کیا سرکاری اقدامات نے مختلف سماجی اور مذہبی فرقوں میں ہم آہنگی اور تحمل کو فروغ دیا یا اس کے برعکس عمل رہا؟
پہلی ضرب آئین کی اس روح پر پہلی ضرب تو نفاذ کے فوراً بعد ہی پڑگئی، حالانکہ پارلیمنٹ اور سرکار میں وہ لیڈر موجود تھے ، جنہوں نے آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے اور اس عہدنامہ پر دستخط کئے تھے۔ نفاذ آئین کے فوراً بعد اس کی دفعہ(1) 341 کے تحت صدرجمہوریہ کی حیثیت سے ڈاکٹرراجندر پرساد کے دستخط سے ریزرویشن کے لئے مندرجہ فہرست اقوام وقبائل کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں مذہب کو بنیاد بنا کر رزرویشن کو صرف ہندواقوام وقبائل کے لئے محدود کردیا گیا اور غیر ہندوؤں کومحروم کردیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے ڈاکٹرپرساد ہی آئین ساز اسمبلی کے صدر تھے ۔ ہرچند کہ آئین کا مطالبہ اورسماجی انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ سبھی دبے کچلے طبقوں کی دست گیری کی جاتی۔

اس تفریق کے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ تبدیلی مذہب کو روکنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔حالانکہ آئین حکومت کو یہ حق نہیں دیتا کہ اپنے اقدامات سے کسی خاص مذہب کو تحفظ فراہم کرے اورچند مراعات کے عوض لوگوں کی عقیدے کی اوراس کی تبلیغ کی آزادی کو سلب کرلے۔ چنانچہ پہلے ہی دن سے یہ ظاہرہوگیا آئین میں جو خوشنما وعدے کئے گئے ہیں ،ارادہ ان پر دیانتداری سے عمل کا نہیں ،بلکہ اکثریتی طبقہ کو تحفظ اور تقویت پہچانے کا ہے۔ یہی بات سرکاری طور پر سومناتھ مندر کی تعمیر سے ظاہر ہوتی ہے ۔ اسی فکر کے تحت سرکار کی سرپرستی میں اجودھیا کی مسجد میں 23 دسمبر1949کو رات کے اندھیرے میں مورتیاں رکھوائی گئیں، اسی ذہنیت کے زیراثر 1985میں مسجد کا تالا کھلوایا گیا اور پوجا پاٹ کی عام اجازت دیدی گئی، اسی سلسلہ کی کڑی عین پارلیمانی الیکشن کے موقع پر 1989میں سرکار کی سرپرستی میں شیلانیاس اور پھر 6 دسمبر 1992کو مسجد کا غیرقانونی انہدام اور اس کے ملبہ پر عارضی مندر کی تعمیرہے۔

یکساں مواقع
واقعات اور بھی ہیں مگر اب سچرکمیٹی کی رپورٹ کو لیجئے ، جس نے یہ صاف کردیا کہ آزادی کے بعد مسلم اقلیت کی تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی حالت خراب ہوئی ہے۔ یہ سب سرکاری پالیسیوں کی بدولت ہوا۔سرکاری ملازمتوں میں حصہ داری میں بھاری گراوٹ آئی۔ منصوبہ بند طریقے سے فسادات کرا کر تاجروں اور صنعت کاروں پر اقتصادی مار ڈالی گئی ۔سرکاریں آتی جاتی رہیں مگران کے رویہ اور پالیسیوں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جو صورتحال آئین کے افتتاحیہ میں سیکولرلفظ کے شامل کئے جانے سے پہلے تھی وہی بعد میں بھی رہی۔
انصاف کہاں ملا؟

سپریم کورٹ میں عرصہ سے ایک عرضی زیرالتوا ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر مسلم اورعیسائی دلتوں کو ریزرویشن سے محروم رکھے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ مرکز سے سپریم کورٹ نے جواب طلب کیا اور کئی سال گزرجانے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا۔ عدالت عالیہ میں ، جو انصاف کا سب سے بڑا اور مقدس ادارہ ہے، اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے۔ 22مئی 1987 کی رات فساد کے دوران میرٹھ کے ہاشم پورہ میں چالیس سے زیادہ مسلم باشندوں کو گھروں سے لیجاکر مرادنگر نہر میں گولیاں مار کر بہادیا گیا۔ انصاف کا تقاضا، جس گارنٹی آئین دیتا ہے کیا اسی طرح پورا کیا جانا چاہئے کہ 27 سال گزرجانے کے باوجود ابھی تک خطاکاروں کی نشاندہی نہیں ہوئی اور مظلومین کو انصاف نہیں ملا ؟ غرض آئین میں دی ہوئی ان تمام گارنٹیوں کو مذاق اڑایا گیا ہے ۔ اس لئے جہاں تک عمل کا تعلق ہے کیا فرق پڑتا ہے، افتتاحیہ میں یہ دولفظ رہیں، یا نہ رہیں؟
مودی سرکار کے ایک وزیر روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ اس پر بحث ہونی چاہئے۔ مسٹرپرساد سپریم کورٹ کے وکیل بھی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آئین کیا کہتا ہے اورسرکاریں کیا کرتی رہی ہیں؟ انکو آئین کی فکر چھوڑ کر اپنے محکمہ کی فکر کرنی چاہئے۔ ابھی یہ خبرآچکی ہے مہاراشٹر بھون دہلی سے وزیراعلا کو 17جنوری کو اسپیڈ پوسٹ سے بھیجا ہوا ایک دعوت نامہ 25کے بعدممبئی پہنچا، حالانکہ اگلے دن ملنا چاہئے تھا۔یہ دعوت نامہ امریکی صدر بارک اوبامہ کے طرف سے عشائیہ میں شرکت کے لئے تھا۔ لیکن ڈاک میں تاخیر کی وجہ سے وہ اس اہم دعوت میں شریک نہ ہوسکے جس میں صرف دووزرائے اعلا مدعو تھے۔ یہ توروی شنکر پرساد کے محکمہ کی مستعدی کا حال ایک وزیراعلا کے سلسلے میں ہے، عوام کے ساتھ کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟ راقم کے نام اسپیڈ پوسٹ سے دہلی اقلیتی کمیشن کاارسال کردہ ایک دعوت نامہ پانچ دن بعد اس وقت موصول ہوا جب جلسہ ہوچکا تھا۔ میرے نام بعض اخبار ورسائل ڈاک سے آتے ہیں، مگر حال یہ ہے کہ ہفتہ میں کبھی ایک دودن کے اخبار مل گئے کبھی چار دن کے۔ درمیان میں ڈاک غائب ہوجاتی ہے۔علاقہ کی آبادی چند ہزار سے بڑھ کر لاکھوں میں پہنچ گئی مگر پوسٹ آفس میں اسٹاف نہیں بڑھا۔ پہلے دہلی میں ڈاک دن میں دو بارتقسیم ہواتی تھی، مقامی خط اگلے دن مل جاتے تھے مگر اب ہفتہ میں ایک دوبار تقسیم ہوتی ہے۔ مگر پرساد صاحب کو اپنے محکمہ کی سدھ نہیں، فکر اس بات کی ہے کہ آئین کا کردار کس طرح بدلا جائے؟ غنیمت یہ ہے کہ تین دیگر وزراء مسٹر ونکیا نائیڈو،پرکاش جاوڈیکر اور اب مسٹرراجناتھ سنگھ نے صاف کردیا ہے کہ آئین سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائیگی۔قابل ذکر بات یہ ہے جب باجپئی جی کی قیادت میں پہلی بھگوا قیادت والی سرکار بنی تھی، تب ایک کمیشن آئین میں ترامیم تجویز کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، جس نے صاف کردیا تھا کہ اس میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے کی گنجائش نہیں۔لگے ہاتھ یہ بھی عرض کردوں پارلیمنٹ کو قانوناً یہ اختیار نہیں کہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ یا کردار میں کوئی تبدیلی کردے۔ چنانچہ بھگوادھاری لاکھ ہندو راشٹرا کا نعرہ لگاتے رہیں، یہ اس وقت ممکن نہیں جب تک جمہوریت کو دفن کرکے یہاں فوجی راج قائم نہ ہوجائے ، جو بظاہر ممکن نہیں۔

اتحاد کا ثمرہ
یسین اخترمصباحی صاحب ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی کتابیں بیرون ہند بھی پڑھی جاتی ہیں۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ان کا مسلک کیا ہے اور ان سے کتنا اختلاف کیا جاسکتا ہے، غرض اس بات سے ہے کہ ان کی مسلمانان ہند کے درمیان ایک نمایاں حیثیت ہے۔ان سے عقیدت و تعلق رکھنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ عالم ہونے کی حیثیت سے ہم بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔وہ عرصہ سے اوکھلا کی کالونی ذاکر نگر میں رہتے ہیں۔ 22 جنوری کو دہلی پولیس نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ افسران تھانے میں ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ بلاتامل چلے آئے۔ تھانے میں کہا گیا کہ اے ٹی ایس افسران پوچھ تاچھ کریں گے، وہاں چلنا ہوگا۔ دہلی اے ٹی ایس کی ساکھ اچھی نہیں ہے۔ اس کے بنائے ہوئے دہشت گردی کے کئی کیسوں میں ملزمان عدالتوں سے بری ہوگئے اورکیس بے بنیاد قراردے کر خارج کردئے گئے۔ چنانچہ یہ خبرجنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عوام میں شدید اضطراب پیدا ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تھانے پر ہجوم جمع ہوگیا، جس میں ہرمسلک کے لوگ شامل تھے۔مصروف راستہ جام ہوگیا۔ صورت حال بگڑتی دیکھ کر ان کوکچھ ہی دیر میں گھرپہنچادیا گیا۔ اس وقت دہلی میں انتخابی ماحول گرم ہے اور حکومت نہیں چاہتی ہوگی کہ اس موقع پر کوئی فتنہ و فساد پھیلے۔ کہا یہ گیا کہ ان کے پاس پاکستان سے جو کالس آتی ہیں ان کے بارے میں معلوم کرنا تھا۔ حالانکہ اس کے لئے ان کو بلانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ پولیس کالس کی نگرانی کرسکتی تھی یا ا ن سے ان کی اکیڈمی آکرمعلوم کر سکتی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ دیگر مسالک سے وابستہ افراد تنظیموں نے بھی اس واقعہ کی سخت مذمت کی اور حکومت کو متنبہ بھی کیا۔

بنیادی بات ہم کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ منتشر رہ کر مسائل کا مقابلہ نہیں کرسکتے، بلکہ ملت اسلامیہ ہند کو اپنے درمیان سے فرقوں اور مسلکوں کی دیواروں کو توڑ کر وسعت قلبی اور تحمل کے ساتھ آپس میں تعلق جوڑنا چاہئے۔ رہے عقائد، توان کافیصلہ اﷲ پر چھوڑدیں۔ان کو وجہ نزاع نہ بنائیں۔ سورہ کافرون کی روح پرعمل کریں ۔ جب کسی پر کوئی براوقت آئے تو بلاامتیاز مذہب ومسلک ایک مضبوط دیوار بن کر اس کی حمایت میں کھڑے نظر آئیں۔ اوکھلا میں پہلے بھی کئی لوگوں کو عوامی اتحاد نے گرفتار بلا ہونے سے چھڑایا ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ اس وقت ان کو اس لئے چھوڑ دیا گیا کہ انتخابات سر پر ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ موصوف خود بھی احتیاط برتیں اورانکے متعلقین بھی چوکنا رہیں۔(ختم)
Syyed Mansoor Agha
About the Author: Syyed Mansoor Agha Read More Articles by Syyed Mansoor Agha: 226 Articles with 163538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.