عالمی طاقتوں کا مقابلہ
(Muhammad Siddique, Layyah)
عالمی طاقتوں کا
مقابلہ،شیخ الحدیث محمدشریف رضوی ،علامہ محمدتقی یزدانی، برکت اعوان اور
منشی منظور
امریکی صدرکے حالیہ دورہ بھارت سے عالمی صورتحال میں واضح تبدیلی دکھائی دے
رہی ہے۔پہلے صرف پاکستان اورہندوستان مدمقابل تھے۔ اب کچھ طاقتیں ہندوستان
کی پشت پناہی کررہی ہیں اورکچھ طاقتیں پاکستان کی حمایت کررہی ہیں۔ اب ایک
طرف امریکہ اوربھارت ہیں تودوسری طرف پاکستان چین اورروس ہیں۔ایک قومی
اخبارکی رپورٹ کے مطابق اوباماکے حالیہ دورہ بھارت کے دوران جوہری معاہدے
پرپیش رفت اوردوسرے اہم سمجھوتوں پرپاکستان میں پائی جانے والی گہری تشویش
پاکستانی حکام کے بیانات سے واضح ہوتی ہے۔ذرائع نے بتایاکہ امریکہ کی جانب
سے بھارت کی اڑتالیس رکنی نیوکلیئرسپلایئرگروپ میں شمولیت کی حمایت
اورجوہری معاہدے پرواضح پیش رفت پاکستانی حکام کے لیے زیادہ پریشانی کاباعث
بنے ہیں۔ تاہم ایک مثبت اوراطمینان بخش امریہ بھی ہے کہ چین اس معاملے میں
پوری طرح پاکستان کے ساتھ ہے۔چینی حکام نے جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ
چین کے دوران واضح یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنے دیرینہ دوست کے ساتھ
کھڑارہے گا۔سفارتی چینلزسے پاکستان کوبتایاگیا ہے کہ امریکہ
نیوکلیئرسپلایئر گروپ میں بھارت کی شمولیت کے لیے کوششیں اورلابنگ کرتاہے
توچین یہی اقدام پاکستان کے حوالے سے اٹھائے گا۔ایک اورقومی اخبار میں
امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ جس کے مطابق بھارت امریکی
قربتوں کے بعد پاکستان روس کے قریب ہورہا ہے۔تین درجن روسی ایم آئی ۳۵ ہیلی
کاپٹرخریدنے کاروس پاکستانی معاہدہ حتمی مراحل میں ہے۔دہشت گردی، منشیات کے
خاتمے اورتوانائی بحران کے حل میں روس اورپاکستان تعاون کریں گے۔امریکی
اخبارکی رپورٹ کے مطابق بھارت امریکی قربتوں کے بعد پاکستان نے نئے دوستوں
کی تلاش شروع کردی ہے۔حکام پرامیدہیں کہ انہیں روس کی شکل میں دوست ملک مل
گیا۔سردجنگ کے بعد روس اورپاکستان کے تعلقات میں پائی جانے والی دوریوں کے
خاتمے کے لیے حالیہ مہینوں میں پاکستان کے فوجی اورسیاسی راہنماماسکوپہنچے
ہیں۔ایک اورقومی اخبارکی رپورٹ ہے کہ روس نے بھارت کادباؤ مسترد کرکے
پاکستان کوجدید لڑاکاہیلی کاپٹر فراہم کرنے کافیصلہ کرلیاہے۔ ایم آئی ۲۸
ہیلی کاپٹررات کے وقت پروازاورحملہ کرنے صلاحیت رکھتاہے۔پاکستان کودہشت
گردی کے خلاف جنگ میں مددملے گی۔پاکستان امریکہ کے قریب تھاتوروس بھارت کے
قریب تھا۔ اب امریکہ بھارت کے قریب ہورہا ہے توروس پاکستان کے قریب ہورہا
ہے۔ یوں عالمی صوتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ اس سے پاکستان کے لیے حوصلہ
افزاء خوشخبریاں ملیں گی۔ امریکہ ہندوستان کوجبکہ چین اورروس پاکستان
کومضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ خطے میں طاقت کاتوازن بگاڑناچاہتاہے۔ چین
اورروس طاقت کے توازن کوبرقراررکھنا چاہتے ہیں۔ یوں اب یہ صرف پاکستان
اوربھارت کانہیں بلکہ ایک طرف امریکہ دوسری طرف چین اورروس کے درمیان
مقابلہ ہے۔چین کے دارالحکومت بیجنگ میں روس بھارت اورچین پر مشتمل گروپ کے
اجلاس کے دوران بھارتی وزیرخارجہ سشماسورج نے تجویزدی کہ بھارت کی خواہش ہے
کہ دہشت گردی کی حمایت اور اس کے لیے وسائل فراہم کرنے والوں کے خلاف
کارروائی کی قرارداداقوام متحدہ منظور کرے۔سہہ فریقی کانفرنس میں تینوں
ممالک نے اس بات پراتفاق کیا ہے کہ وہ اس قراردادکی حمایت کریں گے۔اوراقوام
متحدہ پرزوردیں گے کہ وہ بھی اس کی حمایت کرے۔یہ بھارت کادعویٰ ہی ہے۔
بھارت دراصل پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں قراردادمنظور کراناچاہتا ہے۔
یہ قراردادصرف پاکستان نہیں بہت سوں کے خلاف جائے گی۔ وزیراعظم نوازشریف
بھارت کی قراردادسے پہلے اقوام متحدہ میں ایک قراردادپیش کریں جس میں یہ
کہاجائے کہ جس ملک نے پہلے سے منظورشدہ اقوام متحدہ کی قراردادپرعمل نہیں
کیااس ملک کواس فورم پرکوئی اورقراردادپیش نہ کرنے دی جائے۔ پہلے وہ پہلے
سے منظورشدہ قراردادپرعمل کرے پھر کوئی اورقراردادپیش کرے۔
انسان اس دارفانی میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آتا۔ ہرذی روح چیز نے ایک نہ
ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کچھ ایسی شخصیات نے دنیاکوچھوڑاہے ان میں سے
ہرایک کی شخصیت پرطویل آرٹیکل لکھاجاسکتاہے۔ اب چونکہ اس تحریرمیں تمام فوت
شدہ شخصیات کے بارے میں اختصارکے ساتھ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیخ الحدیث
محمد شریف رضوی رحمۃ اﷲ علیہ سادہ سی طبیعت کے حامل عالم دین تھے۔ وہ ہرسال
بڑی گیارھویں کے موقع پر غوثیہ منزل لیہ میں پیر سیّد سبط الحسنین شاہ
گیلانی کے پاس تشریف لاتے تھے۔ وہ عید میلادالنبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے
موقع پر چراغاں اورسجاوٹ کرنے والوں کوانعامات دینے کی تقریب سے خطاب کرتے۔
ان کا خطاب سادہ اورعلم سے بھرپورہواکرتاتھا۔ وہ ہربات دلیل اورثبوت کے
ساتھ کرتے۔ تقسیم انعامات کی تقریب کے علاوہ بھی لیہ میں تشریف لے آتے رہے۔
ان کا تعلق بھکر سے تھا۔ وہ فیصل آبادکی ایک جامعہ مسجدمیں نمازجمعہ
پڑھایاکرتے۔ بتایاگیا ہے کہ شیخ الحدیث نے تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت،
تحریک نظام مصطفی میں بھی حصہ لیا۔ ملتان میں سیّد احمدسعید کاظمی رحمۃ اﷲ
علیہ کے مدرسہ میں بھی فرائض منصبی اداکرتے رہے ہرسال پیر سواگ شریف
اورپیرباروشریف کے عرس پربھی خطاب کرتے رہے۔ شیخ الحدیث محمدشریف رضوی رحمۃ
اﷲ علیہ کے نمازجنازہ، قل خوانی اورچہلم میں ملک بھرسے مشائخ عظام،علماء
کرام اورزندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ مسلمانوں نے کثیر تعدادمیں شرکت
کی۔علامہ محمدتقی یزدانی رحمۃ اﷲ علیہ سے ہمارا تعلق لیہ شہرمیں سب سے
پرانا تعلق ہے۔ علامہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جامع مسجد نورچوبارہ روڈ لیہ میں
امامت وخطابت کے فرائض اداکرتے رہے۔ علامہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ تعالیٰ
نے بہت سی خوبیون سے نوازرکھاتھا۔ دلنشین آوازکے مالک تھے۔ جب بھی خطاب
کرتے یانعت شریف پڑھتے سننے والے خودبخودمتوجہ ہوجاتے۔ ان کوشہردیہات
برابرسناجاتا۔ ان کے ساتھ کئی جلسوں میں جانے کااتفاق ہوا۔ مسلمان ان کے
ساتھ عزت واحترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ایسا ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ
انہوں نے کسی کوکوئی کام کہاہو، کوئی بات کہی ہواورمخاطب نے انکارکردیاہو۔
روزانہ صبح کے وقت مسجدمیں بچوں کوقرآن پاک بھی پڑھاتے تھے۔ بچوں کے ساتھ
شفقت اورمحبت کے ساتھ پیش آتے۔ بچوں کاقرآن پاک سے لگاؤبڑھانے کے لیے ان کے
ساتھ ہنسی مذاق بھی کرلیاکرتے تھے۔ روزانہ صبح کے وقت ان کے پاس مسجدمیں
تین سے پانچ افرادموجودہوتے تھے۔ان میں اکثریت علماء کرام اورحفاظ عظام کی
ہوتی تھی۔مہمان نوازبھی تھے۔وہ کسی کوچائے پلائے بغیر نہیں جانے دیتے تھے۔
ان کے پاس کوئی نہ کوئی مہمان موجودرہتاتھا۔ جسے وہ رہنے کے لیے کمرہ
اورسونے کے لیے بسترہ اورکھانا بھی فراہم کرتے تھے۔ ان کواﷲ پاک نے اخلاق
کی دولت سے بھی نوازرکھاتھا۔ہرچھوٹے بڑے کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش
آتے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں بیماررہے۔ ان کے نمازجنازہ اورقل خوانی
میں علماء کرام سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ مسلمانوں نے
کثیرتعدادمیں شرکت کی۔شیخ الحدیث محمدشریف رضوی رحمۃ اﷲ علیہ اورعلامہ محمد
تقی یزدانی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی زندگی مقام مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
کے تحفظ اورنظام مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے نفاذ کی جدوجہدمیں گزاردی۔
عشق رسول کافروغ اور محبت رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کاپرچار مشائخ عظام
اوردیگر علماء کرام کے ساتھ ساتھ ان دونوں علماء کرام کی بھی زندگی کاسب سے
بڑا مشن تھا۔
برکت اعوان ایک ایسا نام ہے۔ جسے علاقائی تاریخ کانام دیاجاسکتاہے۔ وہ قومی
روزنامہ نوائے وقت سے منسلک رہے۔ پھر انہوں نے سرائیکی تاریخ پرلکھنا شروع
کردیا۔ وہ خود سرائیکی نہیں تھے مگروہ سرائیکیوں کے لیے لکھتے رہے یہ الفاظ
سینئرصحافی انجم صحرائی کے ہیں۔ کالم نویس مظہراقبال کھوکھرکی دکان پران سے
ملاقات ہوجاتی تھی۔ مختلف موضوعات پر ان سے تفصیلی گفتگوہوتی ۔ وہ ہرسوال
کاجواب واضح اوراطمینان کے ساتھ دیتے تھے۔ دکان کے علاوہ راستے میں بھی ان
سے جہاں بھی ملاقات ہوتی وہ کچھ نہ کچھ بتائے بغیر نہیں جاتے تھے۔ زندگی کے
آخری ایام میں بیماررہے۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کی یادمیں مقامی ہوٹل
میں تعزیتی ریفرنس ہوا جس میں راقم الحروف کوبھی شرکت کاموقع ملا۔ اس
تعزیتی ریفرنس میں رانا اعجازمحمود، پروفیسر گل عباس، پروفیسر مزمل حسین
اوردیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ زینت القراء قاری غلام رسول رحمۃ اﷲ علیہ
اورخواجہ فقیرمحمدباروی رحمۃ اﷲ علیہ پرپہلے ہی لکھ چکے ہیں۔
منشی منظورگھرسے ڈیوٹی پرجارہے تھے کہ ریلوے پھاٹک کراس کرنے کے بعد انہیں
دل کادورہ پڑا۔ جس سے وہ موٹرسائیکل سے گرپڑے۔خود ہی ریسکیو۱۱۲۲ کوفون کیا۔
دل کادورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کی وفات کی خبرکوقومی اورمقامی اخبارات
میں نمایاں کوریج دی گئی۔ ایک قومی اخبارکی خبرجس میں ان کی اکثر خوبیاں
لکھی گئی ہیں یوں ہے کہاآپریشن ضرب عضب کے لیے نغمہ کے خالق نامورشاعرمنشی
منظورحسین چل بسے۔ منشی منظور محکمہ صحت میں ویکسی نیٹرتعینات تھے۔ وہ
ڈسٹرکٹ ہسپتال کی الائیڈ یونین اورسانول سنگت ضلع لیہ کے صدراوربزم افکارکے
جنرل سیکرٹری تھے۔حال ہی میں ان کاشعری مجموعہ ’’اکھیں بھالی رکھو‘‘ کے نام
سے شائع ہوا۔ مرحوم نے آپریشن ضرب عضب کے لیے سولوترانہ
میرے وطن یہ عقیدتیں اورپیارتجھ پہ نثارکردوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمارتجھ پہ نثارکردوں
تخلیق کیاتھا۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی شاعری حلقوں کی فضا
سوگوارہوگئی۔ڈاکٹر جاویداقبال کنجال نے کہا ہے کہ منشی منظوراعلیٰ ظرف عظیم
لکھاری تھے۔محکمہ کے اندرغریب ملازمین کے حقوق اوران کے مسائل کے حل کے لیے
ہمشہ کوشش کی۔وہ حق اورسچائی کے علمبردارتھے۔ان کی قل خوانی کے اجتماع سے
علامہ محمداسلم فیضی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبرآخرت کی منزلوں میں سے
پہلی منزل ہے۔ جوقبرکے امتحان میں پاس ہوگیا اس کے لیے بعد کی منزلیں آسان
ہوجائیں گی۔ اورجوقبرکے امتحان میں پاس نہ ہوسکااس کے لیے بعد کی منزلیں
مشکل ہوجائیں گی۔ ہمیں قبرکے امتحان کی تیاری کرنی چاہیے۔ نمازروزہ
اوراعمال کے بارے میں بازپرس قیامت کے دن ہوگی۔ قبرکا امتحان عشق رسول صلی
اﷲ علیہ والہ وسلم ، محبت رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم اورمعرفت رسول صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم ہے۔قبرکے امتحان میں پاس ہوناہے تودلوں میں عشق رسول صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم کوبساناہوگا۔تھل دامان سرائیکی سنگت، لیہ آرٹ اکیڈمی،الائیڈ
ہیلتھ آرگنائزیشن ،پریس کلب چوک اعظم،میڈیا ہاؤس جمن شاہ،انجمن
تعمیرادب،پیرامیڈیکل سٹاف، صرافہ ایسوسی ایشن، ملک منظورحسین جوتہ، شاعر
رضا کاظمی،اقبال سامٹیہ، شوکت کھوکھر،عجب خان خٹک،جمشیدساحل، راناشکیل
احمد، جسارت خیالی اوردیگرنے افسوس کا اظہارکیا۔ڈپٹی ڈائریکٹرپبلک ریلیشنز
لیہ رانا اعجازمحمودکہتے ہیں کہ قابل فخر شاعر، تخلیق کار،منشی منظورحسین
کی وفات ناقابل تلافی تہذیبی سانحہ ہے۔سرپرست اعلیٰ پیرامیڈیکل سٹاف ایسوسی
ایشن لیہ ارشادگجرنے مطالبہ کیا ہے کہ ادبی حلقے منشی منظورایوارڈ کا اجراء
کریں۔ مرحوم منشی منظور حسین سیاسی جلسوں میں عوام کوہنسانے کاکام بھی کرتے
تھے۔ ایک جلسہ میں انہوں نے کہا کہ تالی بجاناثواب ہے۔ تالی میں
آکراگرڈینگی ماراجائے تویہ ثواب ہی ہوگا۔ ہم نے ان کی اس بات کے جواب میں
آرٹیکل لکھا تھا جس کاعنوان تھا ’’اسے پڑھ کروقت ضائع مت کریں‘‘ تھا۔اس
مزاحیہ کالم کی خود منشی منظورنے بھی تعریف کی ۔ان سے ملنگ پنسارسٹور اور
سٹی انٹرنیٹ پرملاقات ہوجایاکرتی تھی۔وہ سلطان العارفین سلطان باہورحمۃُ اﷲ
علیہ کے مریدین میں شامل تھے۔ملنسار تھے۔ ان کے آرٹیکل بھی اخبارات میں
شائع ہوتے رہے ہیں۔ہم نے ان کے لکھے ہوئے ایک کالم کے کسی پوائنٹ پران سے
اعتراض کیاتوبرانہیں منایااورکہاکہ آپ کااعتراض درست ہے۔انہیں بہت سے
ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔صرف لیہ ہی نہیں سرائیکی وسیب سمیت ملک بھرکے ادبی
حلقوں کی فضا منشی منظورحسین کی وفات پر سوگوارہوگئی۔انہیں بہت سے ایوارڈ
بھی مل چکے ہیں۔ ان کے لیے سب سے بڑااعزازیہی ہے کہ ان کا لکھا ہوانغمہ پاک
فوج نے آپریشن ضرب عضب کے لیے ترانہ کے طورپرمنتخب کرلیا۔
کوئی انسان اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آتا۔انسان کاکرداراسے مرنے
کے بعد بھی زندہ رکھتاہے۔کردارجیسا ہوگا اسے ویسا ہی یادرکھاجائے گا۔ذاتی
مفادات کے گرد گھومنے والے وقت کی گرد میں گم ہوجایاکرتے ہیں۔دوسروں کے لیے
سوچنے، لکھنے اورکچھ کرنے والے ہی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔خیال
امروہوی کے بعد منشی منظورحسین کی وفات کے سانحہ کوادبی حلقوں میں محسوس
کیاجارہا ہے۔دونوں کاتعلق لیہ سے ہی تھا۔مرحوم منشی منظورحسین نے نعتیں
اورماں کی شان بھی لکھی ہے۔ عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے
پروگراموں میں بھی شریک ہوتے تھے۔اس سال بارہ ربیع الاول کوعیدمیلادالنبی
صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے جلوس میں خوش نظرآرہے تھے۔ مسلمان کوایسے مواقع
اورایسے دنوں میں خوش رہنا اورخوش دکھائی دیناچاہیے۔یہی عین ایمان ہے۔ |
|