جمہوریت کیا ہے ؟ اوراسکا مفہوم
کیا ہے ؟ کیااس سے ہمارے سیاست دان ، بیوروکریٹس اور عوام نا آشنا ہیں۔ خود
کو اقتدار کے سرچشمے تصور کرنے والے تمام عناصر جن میں سول اور عسکری
بیوروکریسی ، پارلیمنٹیرین، سیاستدان شامل ہیں جمہوریت کے معانی و مطالب سے
بڑی اچھی طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ ہاں عوام کے متعلق بنا کسی شک کی گنجائش کے
کہا جا سکتا ہے کہ وہ جمہوریت کے معانی و مطالب اور مفہوم سے بالکل لاعلم
ہیں۔ سیاست دانوں ،پارلیمنٹرین اور بیوروکریسی خواہ وہ سول ہے یا عسکری
جمہوریت ان کے کسی کام کی نہیں ،بلکہ جمہوریت سے ان طبقات کے لیے انتہائی
نقصان دہ اور مضر صحت ہے ۔
جمہوریت کے جو معانی و مطالب میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ کہ جمہوریت، جمہوری
اصولوں اور جمہوری روایات کی پاسداری کرنے سے پروان چڑھتی اور پنپتی ہے،
مہذب اور صحتمند معاشریاخلاقی اقدار کی پیروی کرنے سے وجود میں آتے
ہیں۔قومیں عام ملکی قوانین اور ٹریفک قوانین کا احترام کرنے سے ہی اقوام
عالم میں باعزت مقام حاصل کرتی ہیں۔ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والے عمل
کا نام ہے۔ برداشت اور تحمل جمہوریت کے اہم اجزاء ہیں۔
ماہرین جمہوریت کی جو تعریف بیان کرتے ہیں اس کے مطابق ’’جمہوریت ‘‘ کے لیے
انگریزی لفظ ’’ ڈیموکریسی‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔جو یونانی زبان کے جڑواں
لفظ ’’ ڈیمو‘‘اور’’ کریٹا‘‘ سے لیا گیا ہے۔ڈیمو کے معنی عوام اور کریٹا کے
معنی حکومت ہیں۔ اس لیے کہاجاتا ہے کہ جمہوریت کے معنی لوگوں یاعوام کی
حکومت ہے۔ جمہوریت میں عوام حکومت سازی میں بلاواسطہ شریک ہوتے ہیں۔ جمہوری
نظام حکومت میں عوام پر ھکومت کرنے کی بجائے عوام کی مرضی ، منشاء اور
آرزؤں کے مطابق نظام حکومت چلایا جاتا ہے۔
اگرجمہوریت پاکستان میں خود کو اقتدار اعلی کے اصل حقدار سمجھنے والے طبقات
جمہوریت کو پاکستان اور اس کے عوام کے لیے بہتر نظام حکومت تسلیم کرتے ہوتے
تو بار بار لگنے والے مارشل لاء پاکستان اور عوام کا مقدر کیوں بنائے جاتے؟
اور کبھی بنیادی جمہوریت، اور کبھی لوکل باڈیز، یا پھر روٹ گراس جمہوریت
پاکستان کے عوام پر نہ تھونپی جاتی۔ اور نہ ہی 1956 اور1973کے دساتیر کو
حقیر تصور کرتے ہوئے اٹھا کر پھینکے جاتے ……پھینکے جانے سے میری مراد انہیں
منسوخ اور معطل کرنے سے ہے۔
محض جمہوریت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے کا مطلب جمہوریت نہیں ہوتا……جمہوریت
ہمارے سیاستدانوں، ہمارے بیوروکریٹس اور نہ ہی’’ میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کہنے
والوں کو عزیز ہے اور نہ ہی یہ طبقات جمہوریت کو وطن عزیز کے مفاد میں خیال
کیا جاتا ہے۔وہ اس لیے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں
ہے۔ کوئی ایک سیاسی جماعت کی طرف انگلی اٹھا کے نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں
جمہوری روایات کی پاسداری کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل سے لیکر پیپلزپارٹی
تک اور مسلم لیگ نواز سے پختونخواہ عوامی ملی پارٹی تک سب میں انتخابی عمل
سے عہدیداران منتخب کرنے کی بجائے نامزدگیاں کرنے کا رواج عام ہے۔کیا میرا
کوئی مہربان میرے علم میں اضافہ کریگا کہ فلاں سیاسی پارٹی کا پارلیمانی
بورڈ بااختیار ہے؟ پارلیمانی بورڈ وہ با اختیار ہوتا ہے جو ایک ہی خاندان
کے دو دو تین تین ٹکٹ کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی درخواستیں مسترد کردے
اور ان کی جگہ عام پارٹی کارکنان کو انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے۔
یہاں پاکستان میں تو تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ اپنی اپنی جماعت
کے سربراہ کو فائنل فہرست فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ’’ویٹوپاور‘‘ بھی عطا
کردیتا ہے کہ وہ کسی درخواست کو قبول یا مسترد بھی کر سکتا ہے۔ یا اپنی
مرضی کے امیدوار نامزد کرنے کے اختیارات بھی استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔
کیا یہ جمہوریت ہے یا جمہوری رویئے ہیں؟ بالکل اس پریکٹس کو جمہوری اقدار
میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ قیادت قربانیاں دیتی رہی ہے ،دیتی ہے اور دیتی
رہے گی دنیا بھر کی تاریخ ایسی قربانیوں ، پھانسیوں اور قید و بند کی
صعوبتیں جھیلنے والے بہادر کارکنوں اور قائدین کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔
لیکن کیا ان سب کے خاندان اقتدار پر قابض ہیں؟ ماؤزے تنگ اور چون لائی کے
خاندان میں کوئی قابل شخصیت نہ تھی جو ان کے بعد چین کا نظام حکومت سنبھال
سکتیں؟
مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لیے پیغمبر اعظم سب سے بڑے قائد ہیں۔ کیا ان کے
اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہم نے ان کے خاندان کے افراد کو اقتدار میں
دیکھا ہے؟ نہیں تو پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سمیت دیگر تمام سیاسی
جماعتوں میں بلاول،حمزہ،مریم نوازیں کیونکر کر پاکستان کے عوام پر مسلط کی
جا رہیں ہیں۔؟ |