مسلم اسکولوں میں آر ایس ایس کے گیت کی پرارتھنا

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں جمہوری اقدار کی پامالی کا سلسلہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ۔ بی جے پی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں کیا آئی شدت پسندوں ہندوؤں کی بہار ہی آگئی ہی۔ سنگھ پریوار اپنے سنگھی افکار و خیالات کو ملک میں نافذکرنے کے لئے دن ورات ایک کررکھے ہیں۔ جہاں جیسے موقع مل رہا ہے ملک کو سیکولرزم کے راستے سے ہٹاکر ہندوراشٹر کی طرف لانے کی کوشش کا سلسلہ جاری ہے ۔حکومتی ذرائع اور آر ایس ایس سے وابستہ تنظمیں دونوں اس کام کو اپنے اپنے طور پر انجام دینے میں مصروف ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی بھی دوغلی پالیسی کی آزاد ہندوستان میں سب سے بڑی مثال بن چکے ہیں ۔ ہر ایشو میں ان کے قول و فعل میں تضاد نمایاں ہورہا ہے ۔ ایک طرف وہ آئین کی قسمیں کھا تے ہیں ۔ ہندوستانی قوانین کو اپنا سب سے بڑا مذہب قرار دیتے ہیں ۔ انڈیا فرسٹ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے اصولوں پر ملک کو چلانے کا اعلان کرتے ہیں۔پوری دنیا میں گھوم گھوم کر وہ گاندھی کے عدم تشدد کے پیغام کو بھی عام کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔ لیکن خود باطنی طور پر تشدد کو ہوا دینے میں سب سے زیادہ ملوث نظر آتے ہیں ۔ ملک میں ثقافتی یلغار کی شکل میں جو کچھ ہورہا ہے پس پردہ اس کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ آرایس ایس بی جے پی کے دور اقتدار کو غنیمت جان کر اپنے تمام تر نظریات کو ملک میں بہ صورت قانون نافذکرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔

گجرات فسادات کے بعد مودی کے حامیوں کی جانب سے جن میں مسلمان بھی کثیر تعداد میں شامل رہے ہیں کہا جارہاتھا کہ 2002کے بعد ریاست میں امن وسلامتی۔ ہے اب وہاں مسلمان امن وسکون کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں۔ فرقہ پرست تنظیموں پر مودی جی نے شکنجہ کس دیا ہے۔ آرایس ایس اور ان کی ہمنوا تنظیمیں گجرات میں بے اثر ہوکر رہ گئی ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد پارلیمنٹ میں نریندر مودی نے جو پہلی تقریر کی تھی اس کو سن کر بھی کو یہ خوش فہمی ہونے لگی تھی کہ ضمیر فروش مسلمانوں کی جانب سے ان کے بارے میں جو کچھ بتایا جاتا ہے وہ شاید درست ہی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوش فہمی کی یہ عمارت مہندم ہوتی جارہی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ نریندر مودی کی دورخی پالیسی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ زبان پہ کچھ اور دل میں کچھ رکھنے کے لئے وہ نوبل پرائز کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ آج بھی اپنی تقریروں میں وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں ۔ دوسر ی طرف ان کی تنظیم آر ایس ایس ملک میں ہندو راشٹر نافذکررہی ہے۔ مدھیہ پردیش پہلے ہی ہندتوا کی لیبارٹری بن چکا ہے اور اب گجرات میں ہندولیباریٹی کو چسپاں کرنے کی پوری تیاری جاری ہے۔نرنیدرمودی کے اس طرز عمل کو دیکھتے ہوئے اٹل بہاری واجپئی کے سابق اڈوائزر رہے مشہور رائٹر سودھیندرا کلکرنی کی یہ بات سچائی پر مبنی نظر آتی ہے کہ نریندر مود ی سیکولرزم کے خلاف شروع سے ہیں ۔ انہوں نے مشہور اردو صحافی شاہد صدیقی کے پوچھے گئے سوال کا بھی گول مول جواب دیا تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک میں سیکولرزم کے قائل نہیں ہیں ۔ یوم جمہوریہ کے اشتہار اور راجیہ سبھا کے کلینڈر سے سیکولرزم اور سوشلسٹ کا لفظ ہٹاکر انہوں اپنی سرکاری مشنری کا نظریہ صاف طور پر بتادیا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کرنے جارہے ہیں۔نئی دنیا کے ایڈیٹر شاہد صدیقی نے عام انتخاب سے قبل اپنے انٹرویو میں مودی سے پوچھا تھاکہ آپ سیکولرزم کو کانسٹی ٹیوشن کا حصہ مان کر برقرار رکھیں گے یا اسے حذف کردیں گے ۔ مودی جی نے اس کا جواب دیا تھا کہ سیکولرزم ایک غریب لفظ( پور ورڈ)ہے۔ ملک کے مشہور انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے 31 جنوری کے شمارہ میں اس حوالے سے ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع کی ہے۔اس رپوٹ کے مطابق احمد آباد علاقے کی معروف مسلم بستی جوہاپور کے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں صبح کے وقت آرایس ایس کے ایک سونگ کو پرارتھنا کی صورت میں بچوں کو پڑھنا لازمی کردیاگیاہے۔ احمد آباد ضلع میں472سیکنڈری اور ہائرسیکنڈری سطح کے پرائیویٹ وسرکاری اسکول ہیں۔ وہاں کے محکمہ تعلیم کی طرف سے انہیں دو سونگ کا متبادل دیاگیاتھا کہ اس میں سے وہ جو چاہیں پرارتھنا کے لئے منتخب کرلیں۔

ایک گیت کا ٹائٹل ہے منوشیی تو بڑآ مہان ہے۔ دوسرے گیت ٹائٹل ہے ویشنوا جین تو۔اب صورت حال یہ ہے کہ مسلم اکثریتی اسکولوں میں بھی وہی پرارتھنا کرائی جارہی ہے۔ اس سے یقیناًمسلمانوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ احمد آباد میں ایس ڈی سوسائٹی اردو، گجراتی اور انگلش میڈیم کے24اسکول کا انتظام دیکھتی ہے۔ سوسائٹی کے وائس چیئرمین شفیع مینار کا کہنا ہے کہ ایسے نغموں کو جن سے ایک مخصوص مذہب کی نشاندہی ہو اسے تمام اسکولوں کے لئے لازمی نہیں قرار دیاجانا چاہئے تھا جہاں ایک مخصوص مذہب کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہوں۔ انہوں نے یہ سوال کیا کہ اگر ہم دوسرے مذاہب کے بچوں کو کوئی اپنا نغمہ گانے پر مجبور کریں تو؟ ظاہر ہے اسے کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ اور بات بگڑتی چلی جائے گی۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180700 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More