ممتاز قادری کی اپیل میں
اٹھائے جانے والے بنیادی سوال کا جواب !
قانون کو ھاتھ میں نہ لینے کو ایک جامد اور مجرد اصول قرار نہیں دیا جا
سکتا ، خود تعزیرا ت پاکستان میں ایسی مستثنیات (EXCEPTIONS) موجود ہیں جو
مخصوص حالات میں قانون کو ھاتھ میں لینے کا جواز مہیا کردیتی ہیں لیکن
بالفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ قانون کو کسی بھی صورت میں ہاتھ
میں نہیں لیا جا سکتا تو اس صورت میں یہ فرض کرنا بلکہ ماننا بھی لازم آتا
ہے کہ قانون اپنی پوری قوت ، ہیبت اور اثر کے ساتھ موجود ہے اور جس طرح
بجلی کی ننگی تار کو چھونے سے فی الفور اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اسی
طرح ، ہمہ وقت اور ہرجگہ ، ہرشخص کو اس کی موجودگی کا احساس ہو ۔کسی قانون
کی کتاب قانون میں موجودگی اسی طرح بے معنی ہے جس طرح بجلی کا پاور ھاؤس
میں موجود ہونا ، لیکن تاروں میں غیر موجودگی ۔ بجلی کی مثال ایک اور صورت
حال پر بھی صادق آتی ہے کہ چند لوگ تو بجلی کی تاروں اور کھمبوں کو بطور
جھولا استعمال کر رھے ہوں اور بجلی سے مکمل طور پر بے خوف ہوں لیکن جونہی
کوئی گاما ، ماجھا یا اس کے بچے یہی کھیل شروع کریں تو کرنٹ چھوڑ دیا جائے
اور وہ زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھیں ۔EQUALITY BEFORE LAW اور EQUALITY OF LAW
میں UNIFORMITYہونی چاہئے ۔
مذکورہ بالا تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ سلمان تاثیر کے قتل کے
بعد کچھ لوگ یہ درس دیتے ہوئے نہیں تھکتے کہ قانون کو ھاتھ میں نہیں لینا
چاہئے تھا ، یہ رحجان معاشرے کے لئے خطرناک ہے ۔ قانون کو ھاتھ میں لینے کے
روئے کی کوئی بھی سنجیدہ اور باہوش شخص حمایت نہیں کرسکتا لیکن ھاتھ میں
اسی چیز کو لیا جا سکتا ہے جو موجود ہو ، قانو ن کو محسوس اور موجود ہونا
چاہئے ۔ انارکی ، قانون کے نہ ہونے سے پھیلتی ہے ، کسی فرد یا چند افراد کے
قانون کو ھاتھ میں لینے سے نہیں ، بلکہ قانون اپنی پوری ہیبت ، قوت اور اثر
سے یعنی قوت قاہرہ سے بالفعل موجود ہو تو ایسے واقعات معاشرے کا تارو پود
نہیں بکھیر سکتے بلکہ عبرت ناک سزاؤں کے ذریعے معاشرے کی بقا اور استحکام
کا سبب بنتے ہیں ۔ قانون کو ھاتھ میں لینے کے رحجان ( جس کے کم از کم
پاکستان میں مخصوص اسباب ہیں ) سے لاقانونیت اور قانون کا احترام نہ کرنے
کا رحجان ( جو طبقہ خواص ( نام نہاد ) میں بہت زیادہ عام ہے ) زیادہ خطرناک
ہے ۔
ممتاز قادری کا اقدام جرم تھا یا فرض ؟ اس بحث میں پڑے بغیر ، قانون کی
موجودگی کے پہلو کی طرف آئیے !
۱۔ اس وقت آئین اور قانون کہاں تھے جب آئین پاکستان اور نظریہ پاکستان کی
حفاظت کا حلف اٹھانے والے صدر ، گورنر پنجاب کو شیخوپورہ جیل کا دورہ کرنے
اور سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے ملاقات کرکے رحم کی
اپیل حاصل کرنے کی ہدایت دے رھے تھے ؟آئین کی کون سی شق اور کونسا قانون
انہیں اس بات کی اجازت دیتا تھا ؟کیا یہ براہ راست توہین عدالت نہیں تھی؟
۲۔وہ کون سا قانون ، کون سا ضابطہ اخلاق تھا جس کے تحت آنجہانی مسٹر سلمان
تاثیر نے شیخوپورہ کے اندر پریس کانفرنس سجائی اور آسیہ بی بی کی سزا کو
سخت اور ظالمانہ قرار دیا اور جس قانون کے تحت آسیہ بی بی کو سزا ہوئی تھی
، اسے کالا قانون قرار دیا ؟ایک آئینی عہدیدار کی ان خرافات کا کسی نے بھی
نوٹس لیا ؟آرٹیکل ۲۴۸ تو کسی بھی صورت میں مزاحم نہ ہو سکتا تھا اس لئے کہ
یہ فرائض منصبی کی ادائیگی نہیں بلکہ سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی فعل
تھا ؟ جب مسٹر سلمان تاثیر نے یہ سب کچھ کیا تو آئین کیوں نہ حرکت میں آیا
؟ قانون توہین عدالت کو کیا ہو گیا تھا ؟آئین اور قانون کے ساتھ اس مذاق پہ
چپ کیوں سادھ لی گئی ؟
۳۔قانون اور آئین کہاں سورھے تھے جب صدر زرداری نے سترہ کروڑ مسلمان عوام
کے سینوں پہ مونگ دلتے ہوئے ، اپنے حلف اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
قانون توہین رسالت ﷺ میں تبدیلی و ترمیم کے لئے ایک کمیٹی قائم کردی ؟اور
قانون ایسے مذاق پہ کیوں نہ حرکت میں آیا کہ ایسی کمیٹی کا سربراہ ایک غیر
مسلم کو بنا دیا گیا ؟ ،
۴۔ قانون اس وقت حرکت میں کیوں نہ آیا جب توہین رسالت قانون میں ترمیم کے
لئے ( جسے عمل درآمد کے طریق کار میں اصلاحات کا پر فریب نام دیا جارہا تھا
) قائم کردہ کمیٹی کی طرف سے پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شیری رحمان نے
بطورMEMBER INCHARGE ،پرائیویٹ ممبر بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا ، کیا
آرٹیکل ۶۲ کی اس خلاف ورزی پر سپیکر یا کسی دیگر نے کوئی نوٹس لیا ؟
۵۔ قانون اس وقت حرکت میں کیوں نہ آیا جب اپنے بیان میں شیری رحمان نے کہا
کہ توہین رسالت کے قانون میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھا کر اقلییتوں اور
کمزور طبقات کو نشانہ بنایا جاتا ہے؟
۶۔ قانون اس وقت حرکت میں کیوں نہ آیا جب بل میں شیری رحمان نے یہ کہا کہ
قانون توہین سالت AN MADE LAW ہے ؟
۷۔ آئین اور قانون کو اس وقت تعجب کیوں نہ ہوا جب صدر زرداری سلمان تاثیر
کی بیوہ سے تعزیت کرتے ہوئے مغفرت کی دعا مانگ رھے تھے اور کہ رھے تھے کہ
مقتول گورنر نے تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کی ۔ مذہب کی آڑ میں معاشرے کو
تقسیم کرنے کے لئے گورنر کو قتل کیا گیا ۔ سلمان تاثیر انسانی حقوق ، اور
اقلیتوں کے حقوق اور جمہوریت کے لئے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف
جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ؟۔
۸۔ قانون اس وقت کہاں تھا جب وفاقی وزیر تعلیم ( یا جہالت؟ ) توہین رسالت
ایکٹ کو انسان کا بنایا ہوا اور نامکمل قانون قرار دے رہے تھے ؟
۹۔ کیا قانون اس وقت نشے کی حالت میں تھا جب شیری رحمن ( کے قائم کردہ جناح
انسٹیٹیوٹ میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
کی موجودہ صدر عاصمہ جہانگیر چیف جسٹس لاہور ھائی کورٹ کی طرف سے آسیہ بی
بی کی رھائی سے متعلق جاری کردہ حکم امتناعی پر براہِ راست تنقید کرتے ہوئے
یہ کہ رہی تھیں ۔
"A stay had been granted on
an action that was yet to take place..... if the judges want to get
popular there are other ways to do it. Do not twist the laws as court
verdicts become precedence."
۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔جب وہ لندن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہ رہی تھیں کہ
پاکستان میں توہین رسالت قانون کا غلط استعمال ہو رھا ہے ، پاکستان میں
سزائے موت کا خاتمہ کیا جائے اور ایسے مقدمات کی سماعت ھائی کورٹ میں ہونی
چاہیے؟
۱۰۔ قانون اس وقت کہاں تھا جب دی نیوز کا ایک کالم نگارجو چکوال سے مسلم
لیگ ( نون ) کا ایم این اے بھی ہے، توہین رسالت کے قوانین کیوں دکھائی نہیں
دیتے ، کے عنوان سے یوں لب کشائی فرمارھا تھا !:
ہم نے اس خود ساختہ نعرے کو سینے سے لگا رکھا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ
ہے ۔ ساتھ ہی اس خود فریبی کا شکار ہیں کہ کہ پاکستان ایک خاص مقصد کے لئے
تخلیق کیا گیا تھا تاکہ خدائی مشن کی تکمیل ہو سکے ۔ میرا یہ کہنا مذاق
نہیں ، انتہائی سنجیدہ لوگوں کو بھی اس سوچ کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا جا
سکتا ہے ۔بظاہر سنجیدہ اور معقول دکھائی دینے والے آرمی چیف جنرل کیانی نے
بھی ایک موقع پر اعلان کیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ، اگر پاکستان
واقعی اسلام کا قلعہ ہے تو پھر مجھے کہنا پڑے گا کہ اسلام درحقیقت سخت
خطرات کی زد میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔،
یا۔۔۔ جب وہ یہ بکواس کر رھا تھا کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تحریک پاکستان کی مخالفت
اور قائد اعظم پر کڑی تنقید کرنے والے علما نے ۴۷ء کے بعد ایک فقید المثال
یو ٹرن لیا ، وہ اچانک ہی نظریہ پاکستان کے نگران بن گئے ۔ وہ جنہیں بد
فطرت قرار دینے کی ضرورت تھی ، وہ پاکستان نام کے اس مندر کے سب سے بڑے
پیشوا بن گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ یا ۔۔۔۔جب وہ کہہ رھا تھا کہ ۔۔۔۔۔ اس مقصد کے
حصول کے لئے پارلیمانی کمیٹی کی بجائے اعلیٰ تعلیمیافتہ علما ور مشائخ پر
پر مشتمل کمیٹی بنا ئی جائے جو اپنی سفارشات مرتب کرے ۔ ان سفارشات کی حتمی
منظوری تک آئین سمیت پاکستان کے تمام قوانین کو ضیا بغاوت سے پہلے کی صورت
میں بحال کردیا جائے ۔ اس قسم کی تبدیلی سے کئی غیر ضروری قوانین جن میں
حدود آرڈیننس ، توہین رسالت کے قوانین اور آئین کے آرٹیکل ۶۲ ، ۶۳ شامل ہیں
، از خود ختم ہو جائییں گے ، لوگ آزاد فضا میں سانس لینا اور اس بند معاشرے
کے دروازے از خود کھلنا شروع ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔جب وہ یہ گوہر
فشانیاں کر رھا تھا کہ ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ نظریہ پاکستان ایک فریب سے زیادہ کچھ نہ تھا ، بظاہر یہ عوامی لیگ
کے چھ نکاتی ایجنڈے کا جواب تھا مگر درحقیقت مغربی پاکستان کی سیاسی
اشرافیہ بشمول جاگیردار ، جنرل اور بیوروکریسی کی اس سوچ کا آئینی دار تھا
، جس کا اظہار ۴۷ کے فورا بعد ہی انہوں نے کردیا تھا ۔۔۔ یا ۔۔۔۔ جب وہ
آئین اور آرٹیکل ۶۲ کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہ رھا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔ 1979کا
آرڈیننس جس کے تحت کسی احمدی کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے کو جرم قرار دیا
گیا تھا ، ضرورت ہے کہ ہم اسے اپنی قانون کی کتابوں سے مٹا دیں ۔کچھ احتجاج
ہوں گے مگر یہ صرف توقع ہے ۔ یہ اچھا اقدام ہمیں احمدیوں کے لئے نہیں بلکہ
خود اپنی خاطر کرنا چاہیئے۔ ایسے قوانین بنانے والوں کی قدر و قیمت کم ہو
جاتی ہے ۔ جنرل ضیاء نے۱۹۷۹ میں چار حدود قوانین منظور کئے تھے مگر ان سے
بھی کوئی اچھا نتیجہ بر آمد نہیں ہوا ۔ ان قوانین نے ملک میں شرپسندی
پھیلائی ہے ، رشوت کے ریٹ بڑھائے ہیں ۔ یہ مناسب وقت ہے کہ اس قسم کے برے
قوانین کو ختم کیا جائے ؟
۱۱۔ قانون نے تو ایسے دریدہ دہن یا زبان دراز کا کچھ نہ بگاڑا ، کیا نواز
شریف نے بھی ایسے گستاخ رسول کو پارٹی سے نکال باہرکرنے کی ہمت کی ؟
۱۲۔ کیا قانون نے نیلو فر بختیار کا کچھ بگاڑا جب وہ کہ رہی تھی کہ توہین
رسالت کے قانون کے باعث اقلیتوں کو مشکلات پیدا ہو رھی ہیں ، پوری دنیا میں
پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے چنانچہ اس قانون پر نظر ثانی کی جائے ؟
۱۳۔ کیا قانون نے شہباز بھٹی کے اس بیان کا کچھ نوٹس لیا جب اس نے یہ کہا
کہ توہین رسالت کے قانون کو لوگ سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کر
رھے ہیں اور اس میں نظر ثانی بہت ضروری ہو گئی ہے ۔۔ سلمان تاثیر کے بیان
کو غلط رنگ دے کر سیاسی فائدہ اٹھایا گیا آسیہ بی بی کے لئے آواز اٹھانے پر
مذہبی جنونیوں نے انہیں قتل کردیا ۔انہوں نے مذہبی تنظیموں پر واضح کرتے
ہوئے کہا کہ اگر آئندہ اس قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اقلیتی برادری
بھی اپنا حق استعمال کرے گی ؟
۱۴۔ سترہ کروڑ مسلمانوں کو ایک اقلیتی وزیر کی طرف سے اس دھمکی پر قانون کو
سانپ کیوں سونگھ گیا ؟
آئین اور قانون کی بے حسی ، بے عملی ، خاموشی اور ، ٹک ٹک دیدم ، دم نہ
کشیدم ، کی یہ محض چند مثالیں ہیں ۔ اگر پاکستان کے بنیادی نظرئے ، آئین
پاکستان ، دین اور مذہب اور سرور کائنات ﷺکی تضحیک اور اعلانیہ مخالفت پہ
آئین اور قانون حرکت میں نہ آئے تو اس آئین اور اس کے تحت بنائے گئے قو ا
نین کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ عمل درآمد ، تابعداری اور احترام کا مطالبہ
کریں ۔۔۔۔ اور ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ اگر آرٹیکلز ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق
منتخب ہونے والے اور اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے اتنا بھی نہیں جانتے کہ
قانون توہین رسالت جس پر چودہ صدیوں سے عمل ہو رھا ہے ، ضیاء الحق کا بنایا
ہوا نہیں ، اﷲ اور رسول کا قانون ہے ۔۔۔۔۔تو ۔۔۔ ایسے جہلا ۔۔۔ یا ۔۔۔ بے
دین ۔۔۔ ہمارے سروں پہ کیسے مسلط ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور سوال جو قانون پر عمل درآمد اور اس کے احترام کے تناظر میں
بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا گذشتہ چودہ سو سال میں ایک بھی ایسی مثال ملتی
ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف کسی عدالت ، قاضی یا جج کے
پاس مقدمہ درج کرایا گیا ہو ؟اس نے شہادیتں قلمبند کی ہوں اور پھر کسی شاتم
رسول کو سزا دی ہو ؟ ایساکیوں نہیں ؟ جواب سیدھا سادا ہے ! امت مسلمہ کا ہر
فرد ایسی کسی سورت حال میں مستغیث بھی ہے ، شاہد بھی ہے ، منصف اور قاضی
بھی ۔۔۔ اور اس پر عمل درآمد کرنے والا بھی !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ اس لئے ہے
کہ کایسی عبرتناک اور بر موقع اوبر وقت سزا کے بعد ، پھر صدیوں تک اس قبیہہ
اور ناقابل معافی و توبہ جرم کے ارتکاب کا امکان نہیں رہتا ۔۔۔ ذرا غور تو
فرمائیے ! ایک ممتاز قادری کے اقدام سے گز گز بھر لمبی اور بے قابو زبانوں
کو کیسا لگام لگا ؟ اور جب بتوں نے رنج دیا تو کیسا خدا یاد آیا ؟ شیری
صاھبہ فرمانے لگیں ، میں حرمت رسول ﷺ پر جان دینے کو تیار ہوں ، رحمان ملک
کہنے لگے ، میرے سامنے کوئی توہین کرے تو میں اسے گولی ماردوں ! زرداری اور
گیلانی چیخنے لگے ، بھئی ، نہیں کریں گے ترمیم ! ۔۔۔۔( نہیں ، نہیں ، کرو!
ورنہ تمہارے آقا ناراض ہو جائین گے !)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں قانون کو ھاتھ میں
نہ لینے کا اپدیش دینے والے ، صرف ایک بات اچھی طرح سن لیں اور سمجھ بھی
لیں ، اور وہ یہ ہے کہ ۔۔۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ سی ۔۔۔ سارے آئین
اور اس کے تحت تمام قوانین کو OVER RIDE کرتی ہے ، یہ دفعہ اپنی اصلیت اور
اہمیت کے اعتبار سے مافوق آئین اور مافوق قوانین ہے ! |