میں نے رواں ایک ہفتہ میں بارہا
قلم تھاما کہ کشمیر پر کچھ لکھ سکوں تا کہ میں! اس درد و الم کو بیان کر
سکوں جس کی سرگوشیاں اس جنت نظیر وادی میں جابجا موجود ہیں ،اس روح فرسا آہ
و زاری کو قلمبند کر سکوں جو عصمتوں کی پامالی کے سانحات سے پر نم ہے ،اس
کرب کو بیان کر سکوں جو جوان سال بیٹوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اس
کے ماں باپ کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دینے کے لرزہ خیز مناظر کی منہ بولتی
تصویرہو ۔ میں منظر کشی کر سکوں کہ بھارتی فوج سے جھڑپ کے دوران کتنے جوان
شہید ہوتے ہیں اور لاشوں کی بے حرمتی اس بے دردی سے کی جاتی ہے کہ درندے
بھی شرما جاتے ہیں ۔بھارتی فوج کے مظالم کا بیان مجھ سے نہ ہو سکا ،مجھے
الفاظ نہیں سوج سکے ،پوری لغت ،پوری دنیا میں ڈھائے جانے والے مظالم کے
واقعات کی ورق گردانی کرنے کے بعد بھی میں تہی دامن رہ گئی ۔ویسے بھی بہت
نوحے ہوچکے ،بہت داستانیں زدِ قلم آگئیں ،اب فیصلہ کن بات ہونی چاہیئے
،ہمارے بنیادی مسائل کا حل بھارت کو نکالنا چاہیئے ورنہ ہمیں امن و دوستی
کا علم گرا دینا ہوگا !
مجھے آج بھی یاد ہے جب میں نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو یہ الفاظ چیخ
کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرائے تھے’’اے دنیا کے منصفو! کشمیر کی جلتی وادی
میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو ۔۔۔‘‘وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور مسئلہ کشمیر
کو ازبر کرنے کا وقت آگیا تو معلوم ہوا کہ میرے والدین نے بھی اس سوال کو
یاد کیا تھا اور ہمیں بھی یہی باور کروایا کہ
یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نا ملے گی
مگر یہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے ۔حقائق اور وجوہات سے ہم سب آگاہ ہیں
میں اس کی وضاحت میں نہیں جاؤنگی ۔مگر آج کا سوال صرف یہ ہے کہ کیا ہم اس
مسئلے کا حل پاک بھارت نے کرنا ہے یا اقوام عالم نے ؟ کیا اقوام متحدہ کی
قراردادوں پر عمل درآمد UNO نے کرنا ہے یا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج
اور عوام نے کرنا ہے یا کہ ہمارے حکمرانوں نے منافقت سے اور عیاری سے’’
ڈھنگ ٹپاؤ‘‘ فارمولے پر عمل پیرا رہنا ہے ۔
اگر ہم 1947سے 2015کے حکومتی ادوار کا عمیق نظری سے مطالعہ کریں تو یہ
حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ ہمارا وطن نا تجربہ کار سیاستدانوں ،اقتدار
پسند جرنیلوں ،اور مخصوص مفادات کی حامل بیورو کریسی کے رویوں میں الجھ کر
اپنا تشخص ہی داؤ پر لگا بیٹھا ہے ۔حالات کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ سرحدی
خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور آئے دن کی خلاف ورزیاں ہماری کمزور حکمت
عملیوں کا نتیجہ ہیں اور ہماری وزارت دفاع کی انتہائی نالائقی کا منہ بولتا
ثبوت ہیں ،حاکم نشۂ اقتدار میں یوں مست مئے پندار ہیں کہ وہ اپنا دور حکومت
سمیٹنے اور آئندہ کے لیے حکومتی وسعتوں کو یقینی بنانے کے لیے انتظامات
کرنے میں کوشاں ہیں ،اس ملک کو کھوکھلے نعروں اور بلند و بانگ دعووں کی
بھینٹ چڑھا رکھا ہے ۔رہی سہی کسر فیوڈل نظام نے نکال دی ہے جن کے سامنے
انسان ڈھور ڈھنگروں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔پھر ہم کیسے توقع کر سکتے
ہیں کہ کشمیر کازکے لیے ہمارا کوئی سربراہ آواز بلند کرے گا اوراگر کوئی
کشمیر کاز کاداعی ہے بھی تو اس کا یہ دعوی بھی رکھ رکھاؤ اور رسمی ڈائلاگ
پر انحصار رکھتا ہے آج بیرونی طاقتیں اور ہمارے ایوان بالا بھی اپنے مفادات
کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔جس کا کھلا ثبوت 2014 میں ڈاکٹر غلام نبی
فائی کو دی جانے والی ناحق سزا سے ملتا ہے جب انھیں مسئلہ کشمیر پر غیر
قانونی لابنگ کرنے ،پاکستان کی خفیہ ایجینسی سے رقوم وصول کرنے اور اس کا
ایجینٹ ہونے کا الزام لگا کر دو سال قید اور بعد از رہائی تین سال ان کی
زندگی کی نگرانی کی سزا سنائی گئی تھی ۔حالانکہ ان کا بنیادی مقصد امریکہ
میں مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر
فائی کی گرفتاری اور سزا سے کشمیر کاز کو دھچکا لگا تھا مگر اس سے یہ بات
کھل کر سامنے آگئی کہ کشمیریوں کی آہ و بکا کے ذمہ دار صرف بھارتی سامراج
ہی نہیں ہے بلکہ پس پردہ کئی چھپے رستم ہیں ،جو حمایت کے روپ میں اپنے
مفادات کو پروان چڑھاجاتے ہیں ۔
نام نہاد انسانی حقوق کے بڑے علمبرداروں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ
کشمیر کے لئے آواز اٹھانے والوں کوصرف راستے سے نہیں بلکہ صفحۂ ہستی سے بھی
مٹا دیا جائے ،تاکہ کشمیریوں کی آواز اقوام عالم تک نہ پہنچ سکے اور کشمیر
کاز کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا جائے اس سلسلے میں آج کل بھی بعض راہنماؤں کو
امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے بھارت مسلسل پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور
اس کی راہ کو ہموار کرنے کے لیے ایسے پچیدہ حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ
جن کے سبب پاکستانی حکمران بے بس ہو جائیں لیکن امریکہ کو سوچنا چاہیئے کہ
وہ انصاف اور قانون کا جونمائشی ڈھول پیٹتا پھرتارہتا ہے اس کی عملداری
کہاں ہے ، مسلمانوں کی جب بات آتی ہے کبھی آزادیء اظہار رائے کا نام دیکر
’’ توہین آمیز خاکوں ‘‘ کی شکل میں عالمی دہشت گردی کی پشت پناہی کی جاتی
ہے اور کبھی عافیہ صدیقی جیسے معصوم بے گناہوں کو نا کردہ گناہوں کی پاداش
میں لا محدود عرصہ کے لیے پابند سلاسل رکھا جاتا ہے اور کبھی ڈاکٹر غلام
نبی فائی کی آواز کودبا دیا جاتا ہے ۔اور پاکستانی حکام کا منہ’’ بھیک ‘‘کے
طور پر دئیے گئے قرضوں کے مسلسل احسانات سے بند کر دیا جاتا ہے ۔کیوں ۔۔!
کشمیریوں کی آہیں دنیا کے کسی بھی انصاف کے ایوانوں سے نہیں ٹکراتیں ؟کیوں
بھارتی عوام ان کے حکمرانوں کے مظالم پر خاموش رہتے ہیں ،آج یہ کہنے میں
کوئی عار نہیں کہ’’ اسلام دشمنی ‘‘نے اقوام عالم کو احساس سے عاری بنا
رکھاہے ۔اور امت مسلمہ مسلسل اپنی بے ہمتیوں اور تساہل پسندی کی وجہ سے ان
کے مضموم مقاصد کا نشانہ بن رہی ہے اوریہ ’’عالمی دہشت گرد ‘‘جوانسانی
روحوں پر وار کرتے ہیں ، الٹا ہمیں طنز و تزہیک اور تنقید کا نشانہ بنا رہے
ہیں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ہی مسائل میں اس قدر الجھ چکے ہیں
کہ ہمیں کسی دوسرے کی تکلیف کو دور کرنے یا امداد کرنے کی فرصت ہی نہیں رہی
ہے اور اگر مل بھی جائے تو ہم دہشت گردی سمجھ کر چند دن کا ماتم کرتے ہیں
اور حادثہ بنا کر فراموش کر دیتے ہیں ۔مگر اب وقت متقاضی ہے کہ ہم
منافقت،مفاد پرستی اور مصلحت پسندی کا لبادھا اتار کر اپنے وسائل کو بروئے
کار لا کر بنیادی مسائل کا حل تلاش کریں۔
آج ہمیں سوچنا ہوگا اور ان سازشوں کے خلاف متحد ہو کر برسر پیکار ہونا ہوگا
کہ جن میں ہماری سوچ ،ہماری عملی کارکردگیوں اور ہمارے ارادوں ،سب پرمختلف
قسم کے دباؤ ڈال کر ہمیں اپنے ہی گھر کی جنگوں میں الجھا کر کمزور کر دیا
گیا ہے ،ممکن ہے مغرب کے انتہا پسند اور مخالف حلقے جان بوجھ کر بھی ایسی
غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہوں ،تاہم اس میں شک نہیں کہ اہل مغرب کا ایک بڑا
حصہ سنجیدگی سے اسلام کے متعلق تحفظات رکھتا ہے اس لیے ہمیں ایسی حکمت
عملیاں اختیا ر کرنی ہونگی کہ ہم مغرب کے انصاف پسند حلقے کو اپنی طرف مائل
کر سکیں ،بے شک یہ ایک مشکل کام ہے مگر نا ممکن نہیں اگر ہم خواب غفلت سے
نہ جاگے اور کشمیری بھائیوں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کی تو ہمارا
ذکر تاریخ کے سیاہ ابواب میں لکھا جائے گا ۔ویسے بھی یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ
حقوق کاسۂ گدائی میں نہیں ملتے ،اپنا حق اس زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات
بنے ۔ |