کڑوا سچ بولنے والا کھرا انسان’چودھری محمد سرور‘

کڑوا سچ بولنے والے کھرے انسان چودھری محمد سرور ۲۹ جنوری کو گورنر ہاؤس پنجاب سے رخصت کر دیے گئے۔آج انہیں مستعفی ہوئے صرف ۱۰ واں دن ہے ان مختصر سے دنوں میں چودھری صاحب کے حوالے سے کالم نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں اپنا موضوع بنا یا۔ تاحال میری نظر سے کوئی ایک کالم بھی ایسا نہیں گزرا جس میں کسی کالم نگار نے چودھری صاحب کو تنقید کا نشانہ بنا یا ہو، ان کی خامیاں گنوائی ہوں، انہیں ناکام منتظم قرار دیا ہو، سیاست کرنے والا گورنر لکھا ہو، حکومت کے خلاف کسی اقدام کا ذکر کیا ہو۔ البتہ نواز شریف کا دم بھر نے والے ، اپنے کالموں میں نواز شریف حکومت کو دنیا کی سب سے کامیاب حکومت قرار دینے والے کالم نگار وں نے اتنا کرم کیا کہ وہ اس موضوع پر خاموشی اختیار کیے رہے۔ جیسے چودھری سرور کوئی عام سا انسان تھا ، حکومت نے کہا چلے جاؤ اور وہ چلا گیا ۔ یہ بھی ان کالم نگاروں کی چودھری سرور کی سچائی ، ایمانداری اور نیک نامی کے حق میں فیصلہ ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اگر چودھری صاحب کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں جیسا کہ سن گن ہے ہمارے کالم نگار مظہر بر لاس کا خیال ہے کہ’ چودھری سرور کی اگلی منزل تحریک انصاف ہے ‘۔ کوئی پیپلز پارٹی تو کوئی انہیں جماعت اسلامی میں شامل کرنا چاہتا ہے -

اگر ایسا ہوا تو اب تک خاموش رہنے والے کالم نگار چودھری سرور کو کسی صورت نہیں بخشیں گے اور ان پر یہ الزام یقینا لگے گا کہ وہ دورانِ گورنری اندرون خانہ کپتان کے لیے ہمدردی رکھتے تھے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سے دوستی اور ان سے میل ملاقات بھی کپتان سے تعلق کی ایک کڑی تھی۔

چودھری سرور پر خواہ کچھ بھی الزام لگا یا جائے لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کے لیے حقیقی معنوں میں محبت رکھتے ہیں، عوام کی فلا ح چاہتے ہین، سچے اورایماندار ہیں۔ انہوں نے پنجاب کی گورنر ی کے دوران نواز حکومت کواور نواز شریف کے دائیں بائیں موجود لیگیوں کو نذدیک سے اوراندر سے دیکھا محسوس کیا ، پرکھا، آزمایا اور کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی اور نہ امیدی دیکھنا پڑی۔ چودھری صاحب برطانیہ سے یہ امید لے کر آئے تھے کہ وہ پاکستان کی سیاست کو برائیوں سے پاک کریں گے، عوام کے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کی سیاست برائیوں کی دلدل میں اس قدر دہنس چکی ہے کہ اسے اﷲ ہی سیدھے راستے پر ڈالنے والا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ وہ پاکستان کے غریب عوام کی زندگی میں سدھار لانے کی غرض سے پنجاب کے گورنر بنے تھے، لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔

مَیں بھی ایسے کالم نگاروں میں ہوں جن کا چودھری سرور سے دور نذدیک کا کوئی تعلق نہ رہا نہ ہی اب ہے ، انہیں قریب سے نہ دور سے دیکھا، اگر دیکھا تو صرف ٹیلی ویژن پر دیکھا، اخبارات میں ان کے بارے میں پڑھا اور لکھنے والوں نے ان کی جو اچھا ئیاں ، خوبیاں لکھیں انہیں پڑھا۔ ان کی باتوں میں سچائی لگی، محسوس ہوا کہ جو شخص جو کچھ کہہ رہا ہے اس میں حقیقت ہے، سچائی ہے۔ ایسا ہمدرد، نیک سیرت، عوام کا ہمدرد، مسائل کو حل کرنے کی خواہش رکھنے والا موجودہ حکومت میں کیسے چل سکتا ہے۔حالانکہ جب چودھری سرور نے یہ عہدہ سنبھالا تھا اس وقت ہی بعض تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ ایک شریف انسان کہاپھنس گیا۔چودھری سرور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہونے والے پہلے مسلمان ہیں اور وہ اس پارلیمنٹ کے مسلسل تین مرتبہ رکن رہے۔ ان کا شمار برطانیہ کی لیبر پارٹی کے معروف اور اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ تو برطانیہ سے پاکستانی معاشرے کی خرابیوں کا تدارک کرنے کے عزائم لے کر پاکستان آئے تھے۔

جن دنوں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور کپتان احتجاجی سیاست کر رہے تھے جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں دھروں کی بہار آئی ہوئی تھی اس وقت چودھری سرور نے جو کردار ادا کیا، ڈاکٹر طاہر القادری نے چودھری سرور پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں ثالث کے طور پر قبول کیا ۔یہ بات نواز شریف کے علاوہ ان کے تمام ہی قریبی ساتھیوں کو نہ پسند تھی۔ وہ محسوس کررہے تھے کہ چودھری سرور کے تانے بانے کسی نہ کسی راستے سے ڈاکٹر طاہر القادری اور کپتان سے ملتے ہیں۔ یا پھر چودھری سرور کے دل میں دونوں کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب نون لیگی لیڈروں میں یہ احساس پیدا ہو چلا تھا کہ چودھری سرور کا حکومت میں رہنا مناسب نہیں۔ چنانچہ گورنر اور نواز لیگ میں دوریوں کاآغاز ہوگیا۔ چودھری سرور کہا کہنا ہے کہ جب وہ برطانیہ میں تھے اور کوئی ان سے کسی کام کو کہہ دیتا اور وہ اس کے کام کے لیے نواز حکومت کے کسی بھی شخص کو فون پر وہ کام کرنے کا کہتے تو وہ کام فوری ہوجایا کرتا تھا لیکن گورنر کی حیثیت سے جب انہوں نے نواز حکومت کے صاحب اختیار سے کچھ کرنے کو کہا تو انہیں ہری جھنڈی دکھا ئی جانے لگے۔ دراصل یہی وہ عمل تھا جو نواز شریف کے اردگرد پائی جانے والی مخلوق اور چودھری سرور کے درمیان تھا۔ چودھری صاحب برطانیہ کی سیاست کے صاف ستھرے کھلاڑی رہے چکے تھے۔ جب کہ ہماری سیاست اور سیاست داں کا حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے بہت ہی درست کہا کہ وہ’ پاکستانی سیاست کو منافقت کے مترادف سمجھتے ہیں‘۔یہاں سیاست میں جھوٹ، دروغ گوئی، لوٹ کھسوٹ، ہیرا پھیری، منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ ہم ان لوگوں کو جو پاکستان سے باہر سے سیاست میں لائے گئے ۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قسمت انہیں پاکستان لے آئی اور ان کی قسمت میں پاکستان میں اعلیٰ منصب لکھا تھا۔ ان میں شرافت، سچائی، پاکستان سے محبت، ایمانداری، حب الوطنی اور پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ نظر آیا ۔ ان لوگوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کی نیک نامی ،شرافت قابلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ میری ذاتی رائے ہے اختلا ف کرنے والوں کو اختلاف کا حق حاصل ہے۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر معین الدین قریشی، شوکت عزیز اور اب چودھری سرور کی شرافت، ایماندار ی، سچائی اور پاکستانی عوام کے لیے کچھ کرگزرنے کی خواہش سب کے سامنے ہے۔بیرون ملک سے درآمد کیے جانے والے اعلیٰ منصب کے حامل اشخاص نے دولت کی لوٹ کھسوٹ کو اپنا نصب العین نہیں بنایا، بیرون ملک جائیدادیں نہیں بنائیں، فلیٹ نہیں خریدے، تجارت کو وسیع سے وسیع تر نہیں کیا،بینک بیلنس نہیں بڑھایا، اپنے عزیز رشتہ داروں کو اعلیٰ عہدوں پر براجمان نہیں کیا، محل نہیں خریدے، فضول خرچی اور بے جا دولت خرچ نہیں کی۔ اس لیے کہ وہ پاکستان کی خدمت کے جذبہ لے کرپاکستان آئے تھے۔ ہمارے سیاست دانوں کا حال اس کے برعکس ہے وزیر، ایم این اے یا ایم پی اے تو دور کی بات ہے اقتدار میں موجود پارٹی کا کوئی عہدہ ہی مل گیا تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔وزیر تو زمین پر پاؤں ہی نہیں رکھتے۔

چودھری محمد سرور نے پنجاب کی گورنری کو خیر باد کہتے ہوئے پریس کانفرنس میں اُن وجو ہات کا تفصیل سے احاطہ کیا جن کی وجہ سے انہوں نے گورنری کو خدا حافظ کہا۔انہوں نے ایمانداری ، سچائی کے ساتھ اپنی ناکامی کا کھلے بندواعتراف کیا۔،انہوں نے کہا کہ یہاں سچائی کا قحط ہے، قبضہ گروپ اور مافیا گروپ تمام معاملات پر حاوی ہے۔تمام طرح کی برائیاں بڑھ چکی ہیں جن میں عورتوں پر تیزاب پھینکنا، بچوں کو اغواکرنا، بچوں کے ساتھ زیادتی کرنا، قتل و غارت گری عام ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان تمام برائیوں اور نہ انصافیوں کو روکنے کی بھر پور کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے۔ چودھری صاحب کی گفتگو اور باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ سچ بول رہے ہیں۔یہ پریس کانفرنس درحقیقت نواز حکومت کے خلاف چارج شیٹ تھی۔نواز حکومت کی جانب سے ان الزامت کا جواب تو نہیں دیا گیا لیکن انہوں نے چودھری صاحب کو عزت و احترام کے ساتھ گورنر ہاؤس سے رخصت کرنے میں ہی عافیت جانی۔چودھری صاحب یہ تمام کام پاکستان کے دستور کی رو سے اب صدر پاکستان یا گورنروں کے کرنے کے ہیں ہیں یہ تو وزیر اعظم اور ان کی سیاسی ٹیم کو کرنا ہوتے ہیں۔

بتانے والے بتا تے ہیں کہ چودھری سرور اور نواز لیگ کے درمیان فاصلوں کی بنیادی وجہ سانحۂ ماڈل ٹاؤن تھا۔ حکومت نے از خود گورنر پنجاب اور گورنر سندھ کو اپنی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کرنے کا اختیار دیا، چودھری سرور کو حکومتی ٹیم کا سربراہ مقرر کیاگیا ۔اس وقت تک تو چودھری سرور بہت اچھے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا کہ سانحۂ ماڈل میں شہید کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے اور تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ آنے تک حکومتی ذمہ داروں کو حکومت سے علیحدہ کردیا جائے۔ یہ بات نوازشریف کے اردگرد ساتھیوں کو پسند نہ آئی ، آتی بھی کیسے؟ بھلا کوئی نواز لیگ کا لیڈر یہ برداشت کرسکتا ہے کہ ان کے لیڈر کے بھائی کو پنجاب کی وزارت اعظمی سے اس طرح ہٹادیا جائے۔ چنانچہ چودھری سرور سے نون لیگ کے فاصلے بڑھنے شروع ہوگئے۔یہاں تک کہ چودھری صاحب کو قادری صاحب کا دوست قرار دے دیا گیا۔ اتنا ضرور ہوا کہ مخالفت میں شدت نہیں آئی، بیان بازی نہیں ہوئی، اس کی وجہ نواز شریف کا از خود چودھری سرور کے لیے نرم
گوشہ ہے جو ان کے جانے بعد بھی پایا جاتا ہے۔

چودھری سرورکی گفتگوجو انہوں نے پریس کانفرنس میں کی اوراس کے بعد ایک نجی ٹیلی ویژن پر لندن سے اپنے ایک انٹر ویومیں کی سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ گورنر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد برطانیہ میں پھر سے رہائش اختیار نہیں کریں گے بلکہ و ہ پاکستان کی سیاست میں کوئی عملی کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اینکر پرسن نے چودھری صاحب کو بہت کریدنے کی کوشش کی پر انہوں نے صاف الفاظ میں یہ نہیں بتا یا کہ وہ اپنے مقاصد جن کا ذکر انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا ملک میں موجود کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو کر حاصل کرنا چاہتے ہیں یا پھر وہ اپنی کوئی سیاسی جماعت بنا کر غریب و نادار عوام کے مسائل کو حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا کہ جو کچھ بھی وہ مستقبل میں عوام کی بہبود کے لیے کریں گے’ مل جل کر کریں گے‘۔ اس بات سے اشارہ ملتا ہے کہ شاید وہ کسی اتحاد کا حصہ ہونے جارہے ہیں،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل اس قدر گھمبیر اور زیادہ ہیں کہ انہیں کوئی شخص واحد یا کوئی ایک سیاسی جماعت تنہا حل نہیں کرسکتی ۔ سب کو مل جل کر یہ کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے جن مسائل کا ذکر کیا ان کاکہنا تھا کہ یہ ۱۸ کروڑعوام کے دل کی آواز ہے جو وہ کہہ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گورنر ہاؤس میں جن لوگوں سے ملاقاتیں کیں ان میں اکثریت نون لیگ کے ورکروں کی تھی ۔ انہوں نے ان سے ملاقات سے ہی یہ محسوس کیا کہ عوام کے مسائل حل نہیں ہورہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں گڈ گورننس چاہتے ہیں، سینٹرالائز یشن کے خلاف ہیں ۔اختیارات کی تقسیم اوپر سے یونین کونسل کی سطح تک منتقل ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومتیں بلدیاتی نظام قائم کرتی ہیں جب کہ جمہوری حکومتیں اس نظام کے خلاف نظر آتی ہیں۔ حالانکہ ایسی جمہوریت دیر پا نہیں ہوتی جس میں بلدیاتی نظام نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم باہر کے ملکوں کی باتیں کرتے ہیں ، برطانیہ میں تو جانور بھی بیمار ہوجائے تو اسے فوری طور پر اسپتال لے جایا جاتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں عوام بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ ان کی ترجیح بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ادارے سیاسی ہوگئے انہیں ڈی پالیٹیسائز کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے میاں برادران سے اپنے تعلقات کے حوالے سے کسی بھی قسم کے اختلاف کی نفی کی۔

چودھری سرورنے اپنے آپ کو بے اختیار گورنر کہا ۔ حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے یہ اہم عہدہ قبول کرنے سے قبل اور نئی آئینی ترامیم کے بعد ملک کے صدر اور گورنرکے اختیارات کا مطالعہ نہیں کیا۔ یا پھر یہ عہدہ قبول کرنے سے قبل انہیں کسی قسم کا عندیہ دیا گیا تھا یا وعدہ کیا گیا تھا جو پورا نہیں کیا گیا۔ جوکچھ بھی ہوا گورنر کا جانا اچھا نہیں ہوا۔ ہم حکومت میں شامل ایک اہم اور بلند عہدہ پر فائز نیک سیرت ، سچ بولنے والے کھرے انسان سے محروم ہوگئے۔(۸ فروری ۲۰۱۵)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437228 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More