کچھ تاخیر کے بعدہی سہی لیکن ایک
بار پھر ملکی فضاؤں میں فراڈ الیکشن، دھاندلی اور حکومت پر تنقید کا سلسلہ
شروع ہو چکا ہے۔ جوں جوں حلقہ این اے ایک سو بائیس کی تحقیقات کا معاملہ
آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے ، اس گونج میں تیزی آرہی ہے۔ جیت پی ٹی آئی کے حصے
میں آتی ہے یا ن لیگ کے ، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ان آوازوں میں اب
پہلے جیسا اثر نہیں رہا۔ کہاں دو ماہ قبل کے وہ دھرنے، احتجاج، بیان بازیاں
اور کہاں یہ غمزدہ ماحول۔سانحہ پشاور نے ہر شے بدل کر رکھ دی ہے۔ کوئی شک
نہیں کہ الیکشن میں فراڈہوا،کسی کا مینڈیٹ کسی کے حصے میں گیا، ہر سیاسی
جماعت نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیا کہ دھاندلی ہوئی ہے، لیکن قوم کو اب
اس راگ میں شایدوہ دلچسپی نہیں رہی، جوکبھی ہوا کرتی تھی۔ اب تو ساری توجہ
اُس ناسورنے اپنی طرف کھینچ لی ہے جس نے ایک دہائی سے زائد عرصہ سے اس ملک
کو جکڑ رکھا ہے۔ ہمارے ہزاروں فوجی جوان اور عام شہری دہشت گردی کی بھینٹ
چڑھ چکے ہیں ۔ معیشت تباہ وبرباد ہوگئی ۔ معاشرتی ڈھانچہ ہل کر رہ گیا اور
پوری دنیا میں ہمارا جو تماشا بن چکا ہے اُسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
شایدیہ بات اب دھرنے والوں کی سمجھ میں بھی آگئی ہے کہ ان تلوں میں اب تیل
نہیں رہا۔تاش کے جو پتے وہ کھیل سکتے تھے کھیل چکے۔ اب اُن کے پاس سوائے
اچھے وقت کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف
نے بھی اپنی ساری توجہ نئے پاکستان سے پہلے نیا خیبر پختونخواہ بنانے پر
لگانے کا اعلان کیا ہے۔ کاش کے وہ اس میں کامیاب بھی ہوجائیں، اور انہیں ہر
حال میں کامیاب ہونا ہوگا کہ یہ صوبہ اُن کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔ جہاں تک اُن
کے کزن ڈاکٹر طاہرالقادری کا تعلق ہے وہ تو بہت پہلے ہی ماحول کو بھانپتے
ہوئے کینیڈا سدھار گئے تھے۔ وقتا فوقتا وہ بھی ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز
ہوتے ہیں، حکومت کونااہل قرار دیتے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا رونا روتے ہیں
لیکن اب اس نقار خانے میں طوطی کی سننے والا شاید اب کوئی نہیں رہا۔
صورتحال یہ ہے کہ حکومت مکمل طورپر سکھ کا سانس لے رہی ہے۔ حکومت کے ڈیل
ریل ہونے کا کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس لیے دھرنے ختم ہوتے ہی بجلی کا
بحران، پیٹرول کا بحران۔ جی ایس ٹی وغیر وغیر ۔ کوئی جائے اور جاکر ن
لیگیوں سے پوچھے کہ! بھائی صاحب آپ تو کہتے تھے کہ عالمی منڈی میں پیٹرول
کی قیمتوں میں کمی کا صحیح فائدہ عوام تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ
دھرنے ہیں، کیوں کہ ان دھرنوں نے ملکی معیشت کو غیر مستحکم کر رکھا ہے ۔
لیکن اب کیا ہوا؟ اب تو دھرنے ختم ہوچکے ہیں ۔ عالمی منڈی میں تیل کی
قیمتیں بھی مزید گر گئیں ہیں۔ اب یہ جی ایس ٹی کی مہربانیاں کیوں ؟
خیرحکومت کے پاس یقینا اس سوال کا بھی کوئی نہ کوئی جواب ہوگا، اور اگرجواب
نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ کون سوال کر سکتاہے؟ احتساب نامی چڑیا کو تو
اس ملک سے اُڑے عرصہ بیت چکا ہے۔ کسی بھی حکومت کو اتنی مضبوط پوزیشن قسمت
سے ملتی ہے۔ پانچ سال پورے کرنے میں فی الحال کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دے
رہی۔ اسی لیے سرمایہ کار بھی کھل کر پیسہ لگا رہے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج ملکی
تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھورہی ہے۔ خدا کرے کے صدایہی صورتحال رہے
لیکن اگر حکمران یہی سوچ رہے ہیں کہ وہی پرانی روش پر چلتے ہوئے وہ اپنے دن
پورے کرلیں گے تو ممکن ہے ایسا ہوجائے ۔ پیپلزپارٹی نے بھی اپنے دن پورے کر
لیے تھے لیکن اُس کا جو حال ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ کہاں وفاق کی علامت
اور کہاں بچ بچا کر سندھ کی حکمرانی۔ حکمرانوں کو اب بدلنا ہوگا۔ نئی نسل
تبدیلی چاہتی ہے، احتساب سب کے لیے۔ قانون ایسا جیسا جو امیر اور غریب
دونوں کے لیے یکساں ہو۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم۔گُڈگورننس۔ لیکن کیا حکومت
یہ سب کچھ عوام کودے پائے گی؟
اب تو ان کے گورنر خاص بھی انہیں داغ مفارقت دے چکے ہیں۔ جو باتیں دھرنے
والے ڈیڑھ سال تک لوگوں کی کانوں میں ٹھونستے رہے وہی باتیں گورنرصاحب کو
تجربہ کرکے سمجھ آگئیں اور وہ جاتے جاتے یہ جملہ دہرائے گئے: کہ چاہے جتنا
نیک اورپارسا شخص کرسی اقتدار پر بیٹھا دیں جب تک اس ملک کا نظام تبدیل
نہیں ہوگا۔ تب تک تبدیلی کے خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا
کروڑوں روپے خرچ کرکے کرسی اقتدار پر آنے والے غریب کی بات کریں۔
سسٹم کو بچانے والی ن لیگ اور اس کی اتحادیوں کو عوام کی قسمت سنوارنے کا
موقع ملا ہے ۔ اس بار تو قدرت بھی ان پر مہربان ہے۔ اتنی بڑی تحریک بھی کچھ
نہ بگاڑ سکی، اوپر سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بھی کم ہوگئیں، مہنگائی
کا مسئلہ تو حکومت چٹکی بجا کر حل کر سکتی ہے۔ رہا دہشت گردی کا خاتمہ ، تو
پوری قوم اپنے اختلافات بھلا کر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ایک بار اس
ناسور کا خاتمہ ہو جائے تو معیشت بھی اپنے راستے پر آہی جائے گی۔ ان
دوچیلنجز پر قابوپالیاتو کوئی وجہ نہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو۔
دو سال گزر چکے ہیں ۔ باقی رہا سا وقت بھی گزر جائے گا۔ دھرنوں نے اس ملک
کو کچھ دیا ہو یا نہیں،لیکن اتناشعور تو دے گئے ہیں کہ قوم اب کی بار
دوہزار تیرا جیسے انتخابات قبول نہیں کرے گی۔ ہو نہ ہو اس مرتبہ الیکشن میں
کچھ نہ کچھ نیا ضرور ہوگا اور شاید یہی دھرنے والوں کی سب سے بڑی کامیابی
اور نئے پاکستان کی پہلی اینٹ ثابت ہو۔ |