جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے
اور شادی کرنے کے بہت کم معاملات اعلی عدالتوں یا میڈیا تک پہنچ پاتے
ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کے اندارج صرف۴۵فیصد ہیں جس میں کسی نہ کسی
طور پر متاثرہ خاندان اپنی فریاد ارباب اختیار تک پہنچانے میں کامیاب ہوتا
ہے۔کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے جس میں متاثرہ خاندان نے عدالتی فیصلوں
پر سخت حیرت اور اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔اس سلسلے میں سندھ اسمبلی کی
ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی
تھی ۔سندھ ہائی کورٹ نے رنکل کماری کیس کے بارے میں2012ء میں فیصلہ دیا تھا
کہ اسے شوہر کیساتھ گھر جانے کی اجازت ہے ۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار
محمد چوہدری کی عدالت میں بھی فریال ( رنکل کماری) نے اپنے گھر جانے جبکہ
ڈاکٹر حفضہ (لتا) نے اپنے شوہر نادر بیگ کے ہمراہ جانے کا بیان دیا۔ عدالت
نے بیانات سننے کے بعد سندھ پولیس کو ہدایت کی کہ دونوں لڑکیوں کو باحفاظت
کراچی میں قائم "پناہ"نامی شیلٹر ہوم میں پہنچائیں تاکہ وہ دباؤ سے آزاد
ہوکر فیصلہ کرسکیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں۔ہائی کورٹ کے سامنے اس لڑکی کو
بالغ بنا کر پیش کیا گیا جبکہ اس کے والدین نے اسکول اور پیدائشی اسناد سے
ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لڑکی کی عمر بارہ سال ہے۔ لہذا قانون کے مطابق
اٹھارہ سالہ لڑکی یا لڑکا ہی شادی کرسکتے ہیں۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن
نے سندھ کے شہر میر پور ماتھیلو کی ہندو لڑکی رنکل کماری کی مبینہ طور پر
مذہب تبدیلی اور جبری شادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری
کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میاں مٹھو نے میر پور ماتھیلو
سے اغوا شدہ لڑکی رنکل کماری کو اپنے پاس رکھا جسے بعد ازاں ہندو کیمونٹی
کے احتجاج پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔پاکستان انسانی حقوق کمیشن یہ دعوی
کرتی ہے کہ لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کرکے اس کا نام فریال رکھا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی کے رکن پیتامبر سیوانی نے ایوان میں
ایک قراداد پیش کی تھی کہ نوجوان ہندولڑکیوں کو اغوا اور ان کا مذہب
زبردستی تبدیل کرکے ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں انھوں نے میر پور ماتھیلو
کی رنکل کے واقع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ" اگر کوئی ہندو لڑکی اپنی رضا
مندی سے مسلمان ہونا چاہتی ہے تو ہندو کیمونٹی کو کوئی اعتراض نہیں مگر
زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔"پتیامبر
شیوانی اور ہندو پنجایت کمیٹی کا یہ دعوی غور طلب ہے کہ سندھ سے ہر ماہ بیس
سے پچیسلڑکیوں کو مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ فریال (رنکل کماری)
کے چچا راج کمار نے کراچی پریس کلب میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں
ایک چھ سالہ لڑکی جمنا کو اسٹیج پر بلا کر یہ دعوی کیا تھا کہ جمنا اور اس
کی دس سالہ بہن پوجا کو بھی مذہب تبدیل کرانے کی کوششیں کی گئی لیکن معاملہ
میڈیا پر آنے سے ایسا نہ ہوسکا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دس سالہ جمنا کو
دارالامان بھیجا گیا ، جب جمنا کے والد سوما کے مطابق ’ پوجا‘ کی ذہنی حالت
ٹھیک نہیں لگتی اور اس کی برین واشنگ کی گئی ہے کیونکہ وہ ہمارے بارے میں
عجیب و غریب باتیں کرتی ہے ‘۔
ڈھرکی کے بھر چونڈی کے پیر خاندان پر یہ الزام رنکل کمار نامی لڑکی کے جبری
تبدیلی مذہب و شادی کرانے پر عائد کیا گیا تھا تو ایک اسی طرح کا دوسرا
واقعہ میگھوار کی انجلی نامی لڑکی کے ساتھ بھی پیش آیا جس میں والدین نے
الزام لگایا کہ انجلی کو زبردستی اغوا کیا گیا ۔ ریاض سیال نامی شخص نے
دعوی کیا کہ اس نے انجلی سے پسند کی شادی کی ہے ۔کندن میگھواڑ نے عدالت میں
نادرا کا پیدائشی سر ٹیفکیٹ اور اسکول کا سر ٹیفکیٹ دکھایا کہ انجلی
کیعمرساڑھے گیارہ سال ہے۔ عدالت نے انجلی کو کراچی کے دارالامان بھیجنے کا
حکم دیا، بعد ازاں انجلی جس کا اسلامی نام سلمی رکھا گیا تھا ،2015ء میں
سندھ ہائی کورٹ کے روبرو اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اٹھارہ سال کی ہے اور
انہوں نے اپنی مرضی سے ریاض سیال سے بیاہ رچایا اور اسلام قبول کیا ہے اب
وہ اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ عدالت کے ریاض سیال سے اس کی رہائش
اور سیکورٹی سے متعلق استفسار پر مطمئن ہونے کے بعد سلمی (انجلی) کو شوہر
کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی ، جبکہ اس قبل عدلیہ نے آدھا گھنٹہ والدین اور
آدھا گھنٹہ ریاض سیال کے ساتھ ملاقات کروانے کا حکم دیا تھا اور بعد میں
لڑکی کومزید ایک گھنٹہ سوچنے کی مہلت بھی دی تھی ۔ یہاں ایک بات قابل ذکر
ہے کہ سندھ کے کئی شہروں میں میگھواڑ برادری نے احتجاج کرتے ہوئے اس بات پر
شکوہ کیا تھا کہ "ہندو اراکان اسمبلی جو اکثر اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں
، دلتوں سے زیادتی پر خاموش رہتے ہیں۔"
گذشتہ دنوں دو واقعات مزید رپورٹ ہوئے ۔سیشن جج حیدرآباد کی عدالت میں
مارکیٹ کے علاقے ٹنڈو ولی محمد کی رہائشی مریم دختر داسو کی جانب سے دائر
درخواست میں کہا گیا کہ وہ عاقل و بالغ ہے اور گورنمنٹ گرلز شاہ لطیف کالج
میں ملازم ہے ، مذہب اسلام سے متاثر ہوکر اس نے19جنوری 2015ء کو اسلام قبول
کیا تھا جس کے بعد سے اس کے بھائی ہیرا، کرشن ، مصر و دیگر رشتہ دارو ارجن
، میکش ، راجواسے ہراساں کر رہے ہیں ، جبرا مذہب تبدیل کرنیکے لئے دباؤ
ڈالا جا رہا ہے ، اسے اپنی جان کا خطرہ ہے ، رشتہ داروں سے اسے تحفظ دینے
کا حکم دیا جائے۔ عدالت نے ایس ایچ او مارکیٹ کو حکم دیا کہ درخواست کے
رشتہ داروں کو ہراساں نہ کرنے کا پابند کرکے اسے تحفظ دیا جائے۔
اسی طرح کی ایک درخواست پر سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ میں پسند کی
شادی کرنے والی نو مسلم لڑکی اور نو مسلم جوڑے کی جانب سے ہراساں کرنے اور
دہمکیاں دینے کے خلاف دائر درخواست پر ایس ایس پی تھرپارکر اور ایس ایچ او
چھاچھرو کو درخواستگذاروں کو ہراساں نہ کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کا حکم
دیا۔درخواست چھاچھرو کی رہائشی نو مسلم ثمرین فرزانہ( شیلا) اور محبت کی
جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی۔ ثمرین فرزانہ( شیلا) نے دلدار نامی شخص
سے پسند کی شادی کی تھی جس پر اس کے والدین اور دیگر رشتہ دار ہراساں اور
دہمکیاں دے رہے تھے ۔ فرزانہ اور محبت نے دائر درخواست میں کہا
کہ17دسمبر2014ء کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے شادی کی ہے لیکن والدین
اسے ہراساں کرکے مذہب کی تبدیلی کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ہمیں دونوں اطراف سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا کہ اصل معاملہ کیا ہے ، اس کی
وجوہات اور معاشرتی و سیاسی معاملات کا بھی بغور مطالعہ کرنا ہوگا۔اس سلسلے
میں 2011ء میں کراچی کے علاقے لیاری میں رہنے والی دھن بائی کی لاپتہ اکیس
سالہ بیٹی بانو کا معاملہ ہے جس میں خاندان والوں کو معلوم ہوا کہ وہ
مسلمان ہوچکی ہے۔ دھن بائی کے مطابق اس کی لڑکی بانو نے ان سے کام کرنے کی
اجازت مانگی اور ایک غیر سرکاری تنظیم میں کام کرنا شروع کیا اور گھر کا
خرچ چلانے میں اپنے والد کی مدد کرتی تھی بلکہ غریبوں کی بھی مدد کی جاتی
تھی لیکن پھر اچانک وہ لاپتہ ہوگئی ۔ دھن بائی کو اپنی دو بیٹوں لکشمی اور
شردھا کی بھی فکر ہے کہ کہیں وہ بھی غائب نہ ہوجائیں ۔ بانو کے والد بدھا
رام لعل جی ایک مقامی کمپنی میں ڈرائیور ہیں اور ان کو بہت کم تنخواہ ملتی
ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں، بظاہر معاملہ معاشی نظر آتا ہے۔
جبکہ دوسرا سیاسی گیم اسکورنگ کا پہلو بھی ہے کہ ہندو لڑکیوں کی جبری شادی
کے حوالے سے جہاں حکمراں جماعت پی پی پی کے دوسرے اراکین ہندو کیمونٹی کا
ساتھ دیتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب اسی حکمراں جماعت کے رکن قومی اسمبلی
میاں عبدالحق عرف میاں مٹھا کے صاحبزادے میاں اسلم، ہندو لڑکیوں کی شادی کے
حوالے سے یہ کہتے نظر آئے کہ"ہم پہلے مسلمان ہیں ، اس کے بعد پاکستانی پھر
سیاست دان ہیں ، یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے ، ہم شروع سے ہندو لڑکیوں کو
مسلمان کرتے رہے ہیں اور ہم نے انلڑکیوں کا ساتھ دیا ہے ، ساتھ دیتے رہیں
گے ، مزید لڑکیاں آئیں گی تو ان کا ساتھ بھی دیں گے۔"سیاسی پہلو کے علاوہ
ایک مذہبی پہلو بھی ہے کہ شریعتمیں لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے عمر کی قید
کا کوئی تعین نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے
بھی مسالک میں اختلافی مختلف وضاحتیں ہیں۔حالاں کہ پاکستانی آئین میں نکاح
کیلئے عمر کی حد اٹھارہ سال معین رکھی گئی ہے لیکن اس پر عام حالات میں بھی
عمل کم ہی ہوتا ہے اور نکاح خواں ، خانہ پری کیلئے بغیر کسی تصدیق کئے جو
عمر لڑکی کی بتائی جاتی ہے ، نکاح نامے میں اندراج کردیتا ہے۔اس ضمن میں
صرف اتنی اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کا جبری مذہب
تبدیل کا معاملہ ہو یا زبردستی پسند کی شادی کیلئے اغوا اور دباؤ ڈالنے کے
لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی روایت ، بہ حیثیت مسلم ہمیں ایسے
اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے اسلام کی بد نامی کا موقع کسی غیر مسلم
کو ملے۔ اسلام امن و آشتی کا دین ہے جو جبر کی شدید مخالفت کرتا ہے، قبولیت
اسلام کیلئے دباؤ اور لالچ قرآن و سنت رسول ﷺ میں نہیں ہے اگر کوئی یہ عمل
کرتا ہے تو وہ اسلام کے برخلاف ہے۔ |