حق نواز جیلانی رپورٹ
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے
زیادہ متاثر ہ ہو نے والے ملک پا کستان میں جہاں پر 60 ہزار سے زائد لوگوں
نے قربانیاں دی وہاں پر آج چودہ سال بعد بھی دہشت گردی کے واقعات میں کمی
نہیں آئی ۔ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول حملے نے پوری قوم کو سو چنے پر
مجبور کر دیا کہ اب نہیں تو کب ان د ہشت گردوں کا خا تمہ کیا جا ئے گا۔
ارمی پبلک سکول حملے میں جہاں پر 160معصوم بچوں اور عملے نے جا نوں کے
نظرانے پیش کیے وہاں پر پوری قوم کی مائیں ، بہنیں، بیٹایاں بھی روئی۔ اس
دہشت گرد کارروائی نے پشاور کے عوام سمیت ہر محب وطن ، سیاستدان اور مذہبی
طبقے کومتاثر کیا۔ اس واقعے کے بعد تمام سیاسی اور عسکری قیادت اس بات پر
متفق ہو گئے تھے کہ دہشت گردوں کو اب کسی بھی صورت نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ جس
کے لئے متفق طور پر21ویں آئینی ترمیم بھی پاس کرائی گئی ۔جس میں دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں قومی ایکشن پلان کے 20 نکات پراتفاق کیا گیا جس میں ایک
پوائنٹ فو جی عدالتوں کا قیام عمل میں لانا بھی تھا جس پر عمل ہوا ہے لیکن
باقی نکات پر اس طر ح عمل نہیں ہوا جس طر ح ہو نا چاہیے تھا ۔ اس سلسلے میں
اخبار خیبر سے بات کر تے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے راہنمامیاں افتخار حسین
نے بتا یا کہ قومی ایکشن پلان پر ہر صورت میں عمل کر نے کی ضرورت ہے ۔
سیاسی پارٹیز کو قومی ایکشن پلان پر سیاست نہیں کر نا چاہیے ۔ انہوں نے کہا
کہ قو می ایکشن پلان پر باوجود تحفظا ت کے ہم نے اس لئے اتفاق کیا تھا کہ
ملک سے دہشت گردی ختم ہو جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک قومی ایکشن پلان
پر مکمل عمل نہیں ہو تا اس وقت تک عوام کنفیوژن کا شکار رہے گی ۔میا ں
افتخار حسین نے یہ بھی بتا یا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پختون قوم سب
سے زیادہ متاثر ہو ئی ہے۔ اس جنگ میں ہمارے بچوں تک نے شہادتیں دی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی حکومت کا اچھا فیصلہ کہ اچھے اور برے طالبان کی
تمیز ختم ہو گئی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف فوجی عدالتوں کے قیام سے
دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قومی ایکشن پلان کے حوالے سے وزیر اعظم نواز
شریف کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کا آخری وقت آچکاہے ان کا نام و نشانہ مٹا
دیں گے ۔وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ہماری
بقاکے لئے ضروری ہے ۔ دوسری طرف تحر یک انصاف کے چیر مین عمر ان خان کا بھی
یہ کہنا ہے کہ حکومت سے اختلافات اپنی جگہ مو جود ہے لیکن دہشت گردی کے
خلاف قومی ایکشن پلان میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں تاکہ ملک سے شدت پسندی
اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکیں۔
قومی ایکشن پلان کے حوالے سے سابق جنرل (ر) طلعت مسعود نے اخبار خیبر کو
بتا یا کہ دہشتگردوں کا قلع قمع کر نے کے لئے ان کے خلاف سخت سے سخت
اقدامات اٹھا نے چا ہیے جو مکتب فکر بھی دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہا ہو ان
کے خلاف ایکشن لینا چا ہیے ۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے ان کا کہنا
تھا کہ یہ حکومت کا اچھا فیصلہ ہے ۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے دہشت گردی میں
ملوث افراد کو جلد سزا ہو گی ۔ طلعت مسعود نے بتایا کہ آرمی پبلک سکول پر
حملہ ہو یا دوسرے دہشتگرد کارروائی ‘ یہ سب شمالی وزیر ستان میں آپر یشن
ضرب عضب کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے بتا یا کہ آپر یشن ضرب عضب کا میابی سے
جاری ہے جس کی وجہ دہشت گردوں کو اب پناہ کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وز یر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب
کر تے ہو ئے کہا ہے کہ دہشت گردی ختم کر نے میں مہینے اور سال لگ سکتے ہیں
۔ وفاق اور صوبے مل کر دہشت گردوں کامقابلہ کر یں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا
کہ دہشت گردوں کے خلاف آپر یشن کی وجہ سے جو ملک میں ردعمل آرہا ہے وہ
آئندہ بھی آئے گا۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خاتمے تک ہم
بمباری کر تے رہیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں سکیورٹی اداروں
کی اپنی اپنی سلطنت تھی ‘اب بہتر کوآرڈی نیشن ہے جبکہ گزشتہ دنوں راولپنڈی
میں کور کمانڈر اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شر یف نے کہا
ہے کہ ملک سے دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے قومی ایکشن پر بلاامتیاز اور موثر
عمل کو یقینی بنانے پر غور کیا گیااور اس عزم کابھی اعادہ کیا گیا کہ دہشت
گری کے خاتمے کے لئے قوم ایکشن پلان پر انتہائی موثرانداز سے عمل ہوگا۔
جہاں پر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قومی ایکشن پلان پر تمام سیاسی جماعتیں
متفق ہے وہاں پر عوام اور سانحہ پشاور کے لواحقین کی جانب سے یہ سوالات بھی
اٹھا ئے جارہے ہیں کہ پچاس دن ہو گئے ہیں آرمی پبلک سکول پر حملے کو لیکن
آج تک ملو ث افراد کے بارے میں رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے ۔ آرمی پبلک سکول
حملے کے لواحقین نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ جلداز جلد ملوث عناصر کو
بے نقاب کیا جائے ۔
عوام کی جانب سے جہاں پر دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات اور قومی ایکشن
پلان پر مکمل عمل کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہا ں پر دہشت گردی کے واقعات میں
ملوث عناصر کو بے نقاب کر نے اور تحقیقی رپورٹس عوام کے سامنے لانے کی بات
بھی ہو رہی ہے۔ عسکر ی اور سیاسی تجز یہ کار وں کے مطابق ملک میں دہشت
گردوں کا خاتمہ اس وقت ممکن ہو جائے گا جب قومی ایکشن پلان کے بیس نکات پر
عمل ہو جائے۔ حکومت صرف فوجی عدالتوں کے قیام پر خوش نہ ہو ۔ حکومت کو ان
لو گوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ہو گا جہاں سے دہشت گردوں کو سپورٹ مل رہی
ہے ۔ حکومت کو یہ بھی واضح کر نا ہو گا کہ جو ممالک پاکستان میں دہشتگردوں
کو سپورٹ کر تے ہیں وہ بھی قوم کو بتائے جا ئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی
کے خلاف جنگ ہم اس وقت تک نہیں جیت سکتے جب تک قوم کو اعتماد میں نہیں لیا
جاتا اور قوم کے ساتھ سچ نہیں بولا جاتا اور دہشت گردوں کے خلاف مستقل طور
پر لحہ عمل نہیں بنا یا جا تا۔ |
|