کیا احتجاج سے حالات بدل سکتے ہیں؟

دور جدید افراتفریح ، جوڑتوڑ ،پکڑ دھکڑ اور خونی انقلاب کا دور ہے۔ کسی بھی نظام اور کسی بھی ناانصافی کے خلاف مظاہرے اور احتجاج معمول بن چکا ہے۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا خواباں میڈیا اس پر جلتی پر تیل کا کام کررہاہے۔ حالات روزبروز ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ زندگی غیر محفوظ ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کہ احتجاج سے حالات بدل سکتے ہیںیا مزید بگڑ سکتے ہیں۔

آئیے سب سے پہلے احتجاج کی اقسام کا جائزہ لیتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹائر جلا کر سڑکیں بند کردینا احتجاج کی سب سے مقبول قسم ہے۔ پتلے نظر آتش کرنا، لانگ مارچ کرنا، ٹرین مارچ کرنا، دھرنا دینا ، بھوک ہڑتال کرنا، کاروائی کا بائیکاٹ کرنا، بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھنااحتجاج کے موثر ذرائع ہیں۔

سڑ کوں پر آکر ناچنا اور خواجہ سراؤں کی مدد لینااحتجاج کی جدید ترین اقسام ہیں۔ احتجاج کی خطر ناک حالتوں میں خود سوزی کرنا سر فہرست ہے۔ احتجاج کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نظر آتش کرنا احتجاج کی ناجائز اورغیر مہذب قسم ہے۔

جائز احتجاج کسی بھی جمہوری طرز حکومت میں عوام کا بنیادی حق ہے۔ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے کیا جانیوالا احتجاج کسی طور بھی غیر مناسب نہیں۔ احتجاج کے بغیر حکومت وقت کو جوّ تک نہیں رینگتی۔ اور دیکھنے میں آیا ہے کہ احتجاج کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے ۔

اسلامی تعلیمات اور اسلامی قوانین کے نفاذ کیلئے کیا جانے والا احتجاج جہاد کے زمرے میں آتا ہے اور اسلام کے خلاف کسی بھی پروپیگنڈہ کا جواب بھی احتجاج کے ذریعے دیا جاتاہے حالیہ دنوں میں شان رسالت کے خلاف فرانس میں چھپنے والے خاکوں کے خلاف عالمگیر احتجاج نے مغرب کو یہ باور کرادیاہے کہ مسلمان اپنے نبی کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔

احتجاج سے یقیناًحالات بدل سکتے ہیں اگر یہ پر امن اور انصاف کیلئے ہو ۔پر تشدد اور نفرت پیدا کرنے والے احتجاج سے گریز کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے طویل دھرنے نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی ۔ بظاہر اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوا۔ لیکن دونوں جماعتوں کا دعوی ٰ ہے کہ انہوں نے عوام میں اپنے حق کے لیے لڑنے کیلئے شعور کو بیدار کردیا ہے۔اب قوم جاگ چکی ہے لیکن اس دوران پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی کی عمارت پر جس طرح دھاوا بولا گیا یہ کسی بھی مہذب ریاست کے افراد کو زیب نہیں دیتی تھی۔ اس قسم کے احتجاج سے معاشرے میں منفی قوتوں کو تقویت ملتی ہے اور دنیا میں مسلمانوں کا تشخص برباد ہوتاہے۔ ہڑتال کی صورت میں کیے جانے والے احتجاج میں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔سڑکوں کو بند کردینے سے مریض راستے میں دم توڑجاتے ہیں ۔ پرتشدد انداز میں حکام بالا تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے احتجاج کی راہ اختیار کرنے والوں کو ان ماؤں کا خیال رکھنا چاہیے جن کی پکار ہے کہ ۔
؂ میرے شہر میں میری اولاد کو قتل کرنے والو
تمہیں کیا معلوم بیٹا کیسے جوان ہوتاہے !

ایسے خونی انقلاب میں ناجانے کتنے سہاگ اجڑ جاتے ہیں اور ناجانے کتنی ماؤں کے لخت جگر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتے ہیں ۔ زیر بحث موضوع کو ان الفاظ کے ساتھ سمیٹتے ہیں کہ حق کی جنگ نالڑنے والے اور ظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے والے ظالم کے ساتھی ہوا کرتے ہیں ۔ بقول قتیل شفائی
؂ اس سا منافق دنیا میں نہیں قتیل
جو ظلم تو سہتاہے مگر بغاوت نہیں کرتا

اور دنیا میں اضطراب اور بے چینی کی وجہ ظالم لوگ نہیں بلکہ حق پر چلنے والے لوگوں کی خاموشی ہے۔ اپنے حقوق کیلئے احتجاج یقیناًہونا چاہیے لیکن اس کی قیمت کسی معصوم اور بے گناہ شخص کو نہیں ادا کرنی چاہیے۔ حالات میں تبدیلی کیلئے احتجاج ضروری ہے اور یقیناًحالات بدل سکتے ہیں اگر احتجاج پر امن ہو ۔ظالمانہ اور آمرانہ حکومتوں سے چھٹکارا صرف احتجاج سے ہی مل سکتا ہے اور خاموشی سے ظلم سہنے سے ظلم بڑھتاہے اوردست ظالم کو تقویت ملتی ہے۔

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114704 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More