پاکستان اس وقت مختلف النوع سنگین ترین بحرانوں سے دوچار
ہے، جن میں بدامنی، توانائی بحران اور دیگر درپیش چینلجز کے بعد سب سے اہم
مسئلہ پانی کا ہے، جو شروع دن ہی سے پاکستان کو لاحق ہے اور وقت کے ساتھ
ساتھ ملک میں پانی کے بحران میں شدت آنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
چند ماہ قبل ”ٹاولز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان“ (ٹی ایم اے) نے
اپنی مرتب کردہ تحقیقی رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ پاکستان میں
آئندہ 10 سال کے دوران پانی کے ذخائر کے نئے وسائل پیدا نہ کیے گئے تو
2025ءتک پاکستان عالمی فہرست میں ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوجائے گا، جہاں
پانی کا شدید بحران درپیش ہے۔ فی الوقت پاکستان میں 1100 کیوبک میٹر فی کس
پانی دستیاب ہے، جو آئندہ 10 سال میں گھٹ کر 800 کیوبک میٹر ہو جائے گا۔
پاکستان میں شعبہ زراعت میں 92 فیصد پانی کا استعمال ہوتا ہے، جبکہ
میونسپلٹی میں 5 فیصد اور صنعتی شعبے میں 3 فیصد پانی کا استعمال ہوتا ہے۔
بین الاقوامی میعار کے مطابق 1000 کیوبک میٹرفی کس سے کم پانی کے مقدار کے
حامل ممالک پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں شامل ہوتے ہیں۔
اگرمتعلقہ ذمے دار اداروں کی جانب سے ملک میں پانی کے ذخائر کی جاری قلت کو
دور کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے اور نئے ڈیموں کی تعمیر سے چشم
پوشی کی گئی تو سال 2025ءمیں پاکستان پانی کے بحران کے شکار ممالک کی فہرست
میں شامل ہوجائے گا۔ واضح رہے پاکستان کو درپیش پانی بحران کو مزید سنگین
کرنے میں بیرونی عوامل کا بھی کافی کردار ہے، جن میں بھارت سرفہرست ہے۔ ملک
میں پانی بحران کی سنگینی اور بھارتی آبی جارحیت سے آگاہ کرتے ہوئے وفاقی
وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ ملک میں پانی کا بحران
سنگین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بجلی، گیس کے بعد آئندہ بحران پانی کا
ہو گا۔ اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ۔ اس مسئلے پر عوام کی آگاہی وقت کی
اہم ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان میں
پانی کی قلت کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے پانی پر ہمارا حق ہے، بھارت کو یہ حق
نہیں لینے دیں گے۔ اب اپنے پانی کے حق پر عالمی سطح پر رجوع کریں گے، پانی
کے مسئلے پر پہلے کی طرح اب ہم جاگ رہے ہیں۔ حکومت بھاشا ڈیم کی تعمیر میں
سنجیدہ ہے اور اسے ہر حال میں بنائے گی۔ نیلم جہلم پروجیکٹ بھی ڈیڑھ سال
میں مکمل کر لیا جائے گا۔ ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی و پانی کے ذخیرے سے
آئندہ نسلیں مستفید ہو سکتی ہیں۔
پاکستان میں پانی کی کمی سے گھریلو اور زرعی سطح پر شدید مشکلات کا سامنا
ہے۔ چند سالوں سے ملک میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں پانی
مزید نیچے چلا گیا ہے، جس سے کنویں اور پانی نکالنے کے دیگر ذرائع سے پانی
حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے،
جبکہ شہری علاقوں میں چونکہ زمینی پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا اور گھریلو
استعمال کے لیے میٹھا پانی ہائیڈرنٹس سے پیسوں کے عوض حاصل کیا جاتا ہے،
لیکن غیرقانونی ہائڈرنٹس کی وجہ سے شہریوں کو میٹھے پانی کے حوالے سے کافی
مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ واٹر بورڈ میں بعض عناصر کی ملکی بھگت سے غیر
قانونی ہائڈرنٹس کو پانی مہیا کر دیتا ہے، جبکہ پیسہ بٹورنے کے لیے متعدد
قانونی ہائڈرنٹس کو ختم کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ غیرقانونی ہائڈرنٹس
مالکان شہریوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مہنگے داموں پانی فروخت کرتے
ہیں۔ ذرائع کے مطابق صرف کراچی میں غیرقانونی ہائڈرنٹس کی وجہ سے ادارے کو
سالانہ 24کروڑ روپے خسارا ہورہا ہے، ماضی میں ہائیڈرنٹس سے ادارے کو ماہانہ
تین کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی تھی، جو سالانہ 36 کروڑ روپے سے بھی زائد بنتی
تھی۔ اسے مزید بہتر کرکے ادارے کی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا تھا، مگر
مافیا ز کی ملی بھگت سے مختلف علاقوں میں بااثر واٹر مافیا کے ہاتھوں
غیرقانونی ہائیڈرنٹس کھلوائے گئے۔ کراچی میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ شہر
میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس بتائے جاتے ہیں۔ رینجرز 20 جنوری سے ان
ہائیڈرنٹس کے خلاف کارروائی کا اعلان کر چکی ہے۔ جبکہ ادارہ فراہمی و نکاسی
آب کراچی نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں 156 غیرقانونی ہائیڈرنٹس قائم تھے،
کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 104 غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار کردیے گئے
اور متعلقہ تھانوں میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔ ججز نے
کارروائی کے دوران بچ جانے والے 52 غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو 15 روز میں
مسمار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ صورتحال کو
موجودہ نہج تک پہنچانے میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا بڑا ہاتھ ہے۔ پانی کے
مسئلے کے حل کے لیے اب تک بھارتی قیادت کے ساتھ پاکستان میں حکومتی سطح پر
بارہا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے باوجودہ باہمی اختلافات بڑی حد تک
بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب بہتر ہونے کی بجائے مزید کشیدگی کی طرف بڑھتے رہے
ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں
پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کا زبردستی استعمال شروع کر دیا، وہیں
پاکستان کی ملکیت کے دریاﺅں پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر کے ایک
ایسے تنازع کو ہوا دی جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ کا پیش
خیمہ بنتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ماہرین پانی ہی کے مسئلے پر آئندہ
عالمی جنگ ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں جنوبی ایشیا میں بھارت
اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی
خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا امن داﺅ پر لگا
ہوا ہے، وہیں پاکستانی معیشت کی بنیاد ”زراعت“ تباہی کی طرف گامزن ہے اور
زرعی لحاظ سے دنیا کا ذرخیز ترین تصورکیا جانے والا خطہ، پانی کی کمی کے
سبب بنجر ہوتا جا رہا ہے۔ 1960ءمیں ورلڈ بینک، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا،
نیوزی لینڈ اور کینیڈا کی ضمانتی میں ہونے والے طاس معاہدے کے مطابق
پاکستان اور بھارت دونوں کو تین تین دریاﺅں کے پانیوں پر ملکیت کا حق دیا
گیا ہے، معاہدے کے مطابق ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت، جبکہ چناب، جہلم
اور سندھ پاکستان کے حصے میں ہیں، لیکن اس کے باوجود تنازع ختم نہ ہو سکا،
بھارت نے تمام تر شرائط اور وعدے نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں
آنے والے دریائے چناب پر 450 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ پایہ تکمیل
تک پہنچانے کے لیے ”بگلیہار“ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا، جس کے بعد دونوں
ملکوں کے مابین پہلے سے موجود تنازع مزید شدید ہوگیا۔ منصوبے کے تحت 470فٹ
بلندی پر پانی کے اس ذخیرے کی تعمیر پاکستانی زراعت کے لیے زہر قاتل سے کم
نہیں، جبکہ ساتھ ہی ساتھ ملک میں توانائی کے بحران میں بھی شدت کا باعث ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 9اکتوبر 2008 اور 11 اکتوبر
2008 کے دوران صرف تین دنوں میں بھارت نے پاکستان کو عام حالات میں ملنے
والا 55000کیوسک پانی کم کر کے 10739 کیوسک خراج تک محدود کیا۔ آئی ایس این
سیکورٹی واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دو ملین ایکڑ فٹ پانی صرف اکتوبر
2008 میں بھارت کے استعمال میں رہا۔ پنجاب ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے
مطابق بھارتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو تین لاکھ 21 ہزار ملین ایکڑ فٹ
پانی کا نقصان ہو رہا ہے، جس سے 405 نہریں اور 1125آبی گزرگاہیں ڈیڈ لیول
تک پہنچ گئی ہیں، جبکہ ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ زرعی زمین شدید متاثر ہوئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان جو کہ زیادہ تر بجلی پانی ہی سے پیدا کرتا ہے اس کمی کے
سبب توانائی سیکٹر میں بھی مشکلات کا شکار ہے۔ بھارت کی جانب سے صرف
بگلیہار ہی نہیں بلکہ مزید کئی ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے۔ پانی کی
تقسیم کے حوالے سے بھارتی ہٹ دھرمی کوئی نئی بات نہیں، یہ سلسلہ یکم اپریل
1948 سے اس وقت شروع ہوا جب آزادی کے ایک سال بعد ہی بھارت نے وہاں سے آنے
والا پانی روک لیا تھا، جس کے سبب پاکستان کی 5.5 فیصد زرعی اراضی شدید
متاثر ہوئی۔ 4مئی 1948ءکو بھارت اور پاکستان کے ساتھ معاہدے پر رضا مند
ہونا پڑا، لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد امریکی ماہر ڈیوڈ لینتھال نے تمام
صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے
دلائل رد کر دیے، جس کے بعد تنازع دوبارہ پیدا ہوگیا، جو کہ 1952ءسے
1960ءکے دوران ہونے والی کوششوں کے بعد سندھ طاس معاہدے پر منتج ہوا۔ سندھ
طاس معاہدے کے تحت دریائے جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کرنے کے باوجود
بھارت نے 1984ءمیں اس دریا پر وولر ندی کے شروع پر بیراج بنانے کا اعلان کر
دیا، لیکن پاکستان کے احتجاج پر یہ تعمیر روک دی گئی۔ 1992ءمیں دریائے چناب
پر بگلیہار ڈیم کا معاملہ شروع ہوگیا اور صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ
بھارتی اقدامات کے سبب پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل پاکستان میں
اندرونی اختلافات کی وجہ بن رہے ہیں اور اسی کمی کے نتیجے میں پاکستان کے
چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں وسائل کے لحاظ سے
پانی کی تقسیم کا تنازع موجود رہا ہے۔ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پانی کی
کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل اپنی جگہ، لیکن اس ساری صورتحال میں
ڈیمز کی تعمیر کی کمی سب سے زیادہ نقصان دہ بات ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے
بھارت کی جانب سے پانی کے معاہدوں کی تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود
پاکستان کے پاس اتنا پانی ہے کہ اگر اس کو مناسب طریقے سے ذخیرہ کرنے کے
انتظامات کر لیے جائیں تو وہ ملکی ضروریات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگا،
جس سے زراعت کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار اور دیگر منصوبوں کے لیے بھی
وافر ہوگا، لیکن بد قسمتی سے شروع دن سے ہی پاکستان میں ہر اہم معاملہ اور
منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھتا آیا ہے۔
بھارت کے پاس 1947ءمیں صرف 300 ڈیمز تھے، جن کی اس وقت تعداد 4 ہزار تک
پہنچ چکی ہے اور ان ڈیمز کو 20 لاکھ 8 ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل زرعی
زمین اور 37 ہزار 367 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے 36 پاور اسٹیشن کے لیے
بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ملکی زراعت، توانائی کے شعبے میں بحران اور پینے
کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے مسائل کے شکار پاکستان میں صرف 18 ڈیم ہیں،
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1974ءکے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا۔
جو دنیا بھر کے 10 لاکھ ڈیمز کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔
دنیا بھر میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد 10 لاکھ ہے، جن میں پانی ذخیرہ کرنے
کی صلاحیت 8300 ہزار کیوبک کلو میٹر ہے، جبکہ عالمی سطح پر دنیا کے کل
ڈیموں کا 59.7 فیصد ایشیا میں، 21.1 فیصد شمالی امریکا، 12.6 فیصد یورپ،
3.3 فیصد افریقہ، 2 فیصد جنوبی افریقہ اور 1.3 فیصد آسٹریلیا میں ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 50 ہزار ایسے بڑے ڈیم ہیں، جن کی
اونچائی 200 فٹ سے زاید ہے۔ بڑے ڈیم رکھنے کے حوالے سے 19 ہزار ڈیمز کے
ساتھ چین پہلے نمبر پر، 8100 ڈیمز کے ساتھ امریکا دوسرے اور پاکستان کے
ساتھ متعدد آبی تنازعات کا سبب پڑوسی ملک بھارت 4 ہزار ڈیمز کے ساتھ تیسرے
نمبر پر ہے۔ آبی ماہرین کی رپورٹس کے مطابق 1947ءمیں پاکستان کو حاصل پانی
کا اس وقت پانچواں حصہ باقی رہ گیا ہے، جبکہ پانی کی قلت کی وجہ سے ملک کی
2 کروڑ ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے، جس کے باعث ملکی زراعت کو کافی نقصان
پہنچا ہے۔ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات
درست نہ ہونے کی وجہ سے اوسطاً سالانہ 20 ملین ایکڑ فٹ پانی ضایع ہو جاتا
ہے اور پانی کی کمی سے پاکستان میں ہر سال سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل زمین پر
کاشت نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں دریاﺅں کا بہاﺅ 145 ملین ایکڑ فٹ ہے، جس
میں سے صرف 13 فیصد پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔آبادی میں اضافے کے باعث
پاکستان میں اس وقت ایک آدمی کے لیے اوسطاً 1040 کیوبک میٹر پانی رہ گیا ہے،
جبکہ 1950 میں ملک کی آبادی تین کروڑ 40 لاکھ تھی اور فی شخص کے لیے 5260
کیوبک میٹر پانی موجود تھا۔ |