یادش بخیر!سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری
نے21ستمبر2013ء کو کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران کہا تھاکہ’ کتنی
تشویشناک بات ہے کہ شہر کی دکانوں سے لانچر اور اینٹی ایئر کرافٹ گن مل رہی
ہیں ، سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں،حکومتی اقدامات قابل ستائش ہیں۔
اسرائیل، نیٹو ، امریکا اور بھارت کا اسلحہ آرہا ہے ، غیر قانونی اسلحہ کی
برآمدگی کے لئے کرفیو بھی لگایا جاسکتاہے‘۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس
دیے تھے کہ ’یہاں اسلحہ کرائے پر مل رہا ہے، ہمارے زمانے میں تو سائیکل
کرائے پر ملتی تھی‘۔ 2011ء میں بھی سابق چیف جسٹس نے انتباہ کیاتھا کہ
’کراچی ’مِنی پاکستان‘ ہے اور اس شہر کو اگر آج کنٹرول نہیں کریں گے تو
کبھی کنٹرول نہیں ہو گا‘‘۔ اسی تناظر میں فروری 2013 ء کوسپریم کورٹ نے
حکومت سندھ سے کہا تھا کہ وہ اس عنوان کا اشتہار دے کہ’’شہری اپنی ذمہ داری
پر گھروں سے نکلیں، 22 ہزار ملزم آزاد گھوم رہے ہیں، بد امنی کے باعث کراچی
میں شفاف انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، سیاسی مصلحتوں کے باعث حکومت قانون
سازی نہیں کر رہی ، اس نے طے کر لیا کہ قاتلوں اور لٹیروں کو نہیں پکڑنا،
عوام کا اداروں پر اعتماد ختم ہو گیا‘‘۔ یہ کس قدر شرمناک اور افسوسناک بات
ہے کہ عدالت عظمیٰ شہریوں کو یہ ہدایت کرنے پر مجبور ہوئی کہ وہ اپنے بچوں
کو امام ضامن باندھ کر باہر بھیجا کریں۔
زرداری حکومت کے پانچ برسوں میں صرف کراچی شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے
دوران جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق
کسی بھی طور پانچ ہزار سے کم نہیں۔ ان شہریوں میں سے کسی کا ایک قاتل بھی
آج تک گرفتار نہیں ہو سکا۔ سندھ میں دہشت گردوں کی دہشت کا عالم یہ ہے کہ
اگر جراء ت و ہمت سے کام لیتے ہوئے اْن کے خلاف کسی تھانے میں کوئی نامزد
پرچہ کرا بھی دیا جائے تو چند ہی ماہ میں پولیس کے تفتیشی افسران، گواہوں
اور مدعیوں کے لرزہ خیز قتل کی خبریں بتدریج سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے عام شہریوں کے ورثاء کی اکثریت ایف آئی آر
درج کرانے اور گواہی دینے سے ڈرتی ہے۔جب یہ صورت ہو تو حکومت از خود حق
حکمرانی کھو دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن کہ’ کراچی میں آپریشن کلین
اَپ کے سوا چارہ نہیں‘ محض ایک آبزرویشن نہیں بلکہ 18 کروڑ پاکستانیوں کے
محسوسات، جذبات اور خیالات کی عکاسی ہے۔ کسی وجود میں اگر چھوٹا موٹا کوئی
زخم ہو تو مرہم اور پھا ہا اس کا سامانِ اندمال ہو سکتے ہیں لیکن جب یہ زخم
ناسور بن جائے تو پھر اس کے لیے یقیناًکیمیوتھراپی کی ضرورت سے انکار نہیں
کیا جا سکتا۔کراچی کے تیزی سے بگڑتے حالات پر ہر محب وطن شہری مضطرب ہے۔ وہ
اصلاح احوال چاہتا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کراچی کے شہری1980ء
کے بیروت کے شہریوں سے بھی بدتر صورت حال سے دو چار ہیں۔
کراچی میں روزآنہ کی بنیاد پر 125 کروڑ سے 150 کروڑ تک کی رقم بھتہ خور
مافیا کو شہری اور کاروباری حضرات ’’دان‘‘ کرنے پر مجبور ہیں۔ شہری اس حد
تک خوفزدہ ہیں کہ وہ بھتہ خوروں کے نام بھی ہونٹوں پر لانے سے گھبراتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ بھتہ خور مافیا کی دہشت گردی کے سامنے طالبان کی دہشت گردی
بھی ماند پڑ گئی ہے۔ اس پر بعض حلقوں کا یہ تجزیہ لائق توجہ ہے کہ ٹارگٹ
کلر اور بھتہ خور مافیا کی دہشت گردی کو اس لیے برداشت کیا جا رہا ہے کہ اس
کے مرتکبین علانیہ سیکولر ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ تو کیا سیکولر دہشت گردی
ایک قابل قبول عمل ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہ معمول ہے کہ کراچی میں ہر سال تقریباً60دن ہنگاموں،
مظاہروں، جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں ، دہشت گردانہ و تخریب کارانہ کارروائیوں
کی وجہ سے تجارتی مراکز اور صنعتی ادارے بند رہتے ہیں۔ اگر یہ مراکز اور
ادارے ایک دن بند رہیں تو تقریباًصنعت کاروں ، دکانداروں اور تاجروں کو
10ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ 30لاکھ کے قریب مزدور اور
دیہاڑی دار محنت کش بیکاراور بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ ایک دن کی ہڑتال سے
FBRکو دو ارب روپے کے محصولات سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یوں گویا ہر سال
کاروباری طبقہ کو 6 سو ارب روپے اور FBR کو ایک کھرب 20ارب روپے کا نقصان
اٹھانا پڑتا ہے۔متحدہ کے قائد کراچی کے شہریوں کے بوجوہ پاپولر لیڈر ہیں
اور صوبائی اور قومی اسمبلی کی اکثر نشستوں پر عام انتخابات میں ان کی
جماعت کے نامزد امیدوار ہی ٹھپہ شاہی کی بدولت کامیاب ہوتے ہیں۔ ایم کیو
ایم ہر دور میں وفاق اور صوبے میں حکمران جماعت کے اتحادی کی حیثیت سے جملہ
مراعات و سہولیات کے حصول کے ساتھ ساتھ مختلف وزارتوں کے قلمدان بھی
ہتھیالیتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تقریباً12برس سے سندھ کی گورنری بھی
متحدہ ہی کے پاس ہے۔ گویا وفاق اور سندھ میں متحدہ ہی حکومت میں رہی ہے۔ یہ
بات زبان زد عام ہے کہ ’’تین الف‘‘ ایسے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو کراچی میں
امن کے قیام کی راہیں بآسانی ہموارکی جا سکتی ہیں۔ یہ تین الف استعارہ ہیں،
آصف علی زرداری، الطاف حسین اور اسفند یار ایسی مقتدر، معتبر اور بارسوخ
شخصیات سے۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی میں متحدہ ، پیپلزپارٹی اور اے این پی
کا اثر و رسوخ ہے اور یہ تینوں جماعتیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ایک
دوسرے کی اتحادی بھی ر ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر بڑے خونریز واقعات
کے بعد ایک عرصہ تک یہ تینوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتی رہیں۔
کراچی ایک دفعہ پھر اخباری سرخیوں کی زینت بن گیا ہے لیکن اس بار صورتحال
ذرا مختلف ہے ۔سیاسی پارٹیاں اور سکیورٹی ادارے جرائم پیشہ افراد (یعنی خود
اپنے) خلاف شفاف اور غیر جانبدارانہ آپریشن کا ناٹک کر رہے ہیں۔ ان میں سے
کچھ سنجیدہ بھی ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کے دل میں اچانک معصوم شہریوں کے
لیے ہمدردی پیدا ہو گئی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ کچھ بے لگام اور ناپسندیدہ
قاتلوں کی جگہ اطاعت شعاراور ہونہا درندوں کو لا کر طاقتوں کے بے ہنگم
توازن کو اپنی جانب کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ’’غیر جانبدارانہ‘‘ کے
مطالبے کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ’مجرم ‘ بھی تو آپ کے ہی ہیں،
لہذٰا ان کو مارنے یا گرفتار کرنے کی بجائے مزید استعمال کیا جائے۔ بھتہ
خوروں کے خلاف کاروائی کے مطالبے کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ جو بھتہ ہم تک
نہیں پہنچ رہا وہ سراسر غیر قانونی ہے، اسے فوراًاً بند کرا کے ذمہ داران
کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ مالیاتی سرمائے کے مختلف دھڑوں کے
وظیفہ خواروں اورکالے دھن کی اجارہ داریوں کے باہمی تصادم کی نورا کشتی ہے
جس کا نام کسی ’منچلے‘ نے ’’آپریشن کلین اپ‘‘ رکھ دیا ہے۔
گزشتہ دنوں سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائزز (گارنمنٹ فیکٹری ) جسے 30
ماہ قبل آگ لگی تھی یا جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق آگ لگادی گئی تھی اس کی
تفصیلات پبلک کی گئیں جس میں کراچی کی 85فیصد مینڈیٹ کی دعویدار جماعت کو
ملوث قرار دیا گیا ہے ۔ اس رپورٹ نے جہاں کئی اہم انکشافات کئے ہیں وہیں پر
نامزد جماعت کے لوگ اسے ایک پروپیگنڈہ کہتے ہیں اور بات کو گھمانے کیلئے
مختلف بیانات پریس کانفرنسز کے ذریعہ دئے جارہے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ
ہے کہ جو جماعت میڈیا کو یرغمالب بنانے میں یکتا رکھتی ہے اس کا کہنا ہے کہ
اس کیخلاف میڈیا ٹرائل کیا جارہاہے ساتھ ساتھ ہی ساتھ وہ اس جے آئی ٹی
رپورٹ کو جھوٹا بھی قرار دے رہی ہے حالانکہ ستمبر 2013 ء کی بات ہے اس
جماعت نے کراچی میں شروع ہونے والے ایکشن پلان کی حمایت کی بجائے قومی و
سندھ اسمبلی میں اسے اپنے خلاف 1992ء والا فوجی اقدام قرار دیا تھا اور
وفاقی وزیر داخلہ سے رحم کی اپیل بھی کی تھی جو سیاسی مصلحت کے تحت قبول
کرلی گئی تھی ۔ البتہ اس کا موقف کبھی ایک جیسا نہیں رہا جبکہ اے این پی کے
رہنما شاہی سید نے بغیر کسی حجت کے اس ایکشن پلان کی نہ صرف حمایت کی تھی
بلکہ سب سے پہلے اپنی پارٹی کو پیش کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا
تھا۔متحدہ کی ایک خوبی کہئے یا اس کی خامی یہ مستقل مزاجی کے فیصلے نہیں
کرتی بلکہ جزو وقتی مفادات کے پیش نظر اقدامات پر اپنی سیاست کو ترجیح دیتی
ہے ۔ سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی کیخلاف قومی ایکشن پلان کو اس نے ابتداء
میں مسترد کرتے ہوئے اسے مارشل لا کا پیش خیمہ قرار دیا لیکن پھر چاروں
جانب کوئی ہم خیال نہ پاتے ہوئے اس کی جس طرح متحدہ نے حمایت کی وہ گویاکسی
اور کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔الطاف حسین سانحہ بلدیہ کی تحقیقات کا غیر
ملکی ماہرین سے کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں یہ ایک ڈھونگ سے زیادہ اور کچھ
نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ برطانیہ میں اسکارٹ لینڈ یارڈ کی انوسٹییگیشن کا
طریقہ جانتے ہیں اگر ایسا ہوگیا تو ۔۔۔۔۔۔۔ بہرکیف ان کی جماعت پر سات قبل
ہونے والے سانحہ 12مئی کا الزام بھی ہے اور خبر یہ ہے کہ سندھ رینجرز نے
اسٹیٹ بینک کے 18 گریڈ کے ایک ملازم کو گرفتار کرلیا ہے اور عدالت نے اسے
90دن کے ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے بھی کردیا ہے اور سب سے اہم بات وہ
متحدہ کا سیکٹر انچارج ہے اور ایک ہی رات میں اس نے درجنوں قتل کا اعتراف
بھی کرلیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کراچی جوبالعموم پاکستان بھر کے عوام اور باخصوص ان لوگوں
کیلئے جو قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے یہاں ہجرت کرکے آئے تھے ان کیلئے
انصار کی حیثیت رکھتاہے ۔ اس نے یہاں انہیں مستقل پناہ دی ، امان دی
،روزگار دیا ،عزت و وقار دیا اور ایک پہچان دی ۔ اب یہی لوگ اپنی سیاسی
ضرور ت بلکہ یوں کہئے کہ غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر اس کو آگ لگانا
چاہتے ہیں اور کوئی اس کا پرسان بھی نہیں ۔ حکومت نے سانحہ پشاور کو بدترین
دہشت گردی سے تعبیر کیا لیکن سانحہ بلدیہ کے 259جانوں کے ضیاں ابھی تک کسی
کھاتے میں نہیں ۔ یہ تو ایک واقعہ ہے ، 12مئی دوسرا، ا2009ء میں یوم عاشورہ
کا بم دھماکا اورآناً فاناً کاسمیٹک مارکیٹ کھارادر کی آتش زدگی تیسرا ،
اگر گنتی شروع کی جائے تو کئی ایسے واقعات سامنے آئی گے ایک کارکن کے قتل
پر کم از کم ایک دن میں کراچی کے سو معصوم شہریوں کو موت کی کو موت کی گھاٹ
اتارا گیا، گاڑیاں جلادی گئیں ۔ یہ سب کچھ ابھی انویسٹیگیٹ ہونا باقی ہے ۔
متحدہ سمیت کئی سیاسی جماعتوں کا ضرب عضب کا دائرہ ملک بھر میں پھیلانے کا
مطالبہ ہے ، حکومت اور فوج نے یہ مطالبہ مان لیا تو یہ یقینا کراچی کو پرسہ
دینے کے متراد ف ہوگا ۔ ہم اس مطالبہ پر عمل درآمد کے نہ صرف منتظر ہیں
بلکہ کراچی کو پرسہ دینے کو بھی تیار ہیں جو اچھا خاصہ انصاروں کا شہر تھا
مہاجر بن کر بن کر بے امان اور بے آسرا ہوگیا ہے ۔ |