بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(11فروری ،یوم شہادت کے موقع پر خصوصی تحریر)
آزادی اورہجرت لازم و ملزوم ہیں۔انبیاء علیھم السلام کی مقدس زندگیاں ہجرت
سے عبارت ہیں اور ہجرت کا عمل آزادی کی کتاب کا درس اولین ہوا کرتاہے۔جوقوم
بھی آزادی حاصل کرتی ہے اسے سب سے پہلے ہجرت کی کٹھن وادی سے
گزرناہوتاہے،ریاست مدینہ منورہ کی تاسیس سے تخلیق پاکستان تک تاریخ نے اس
سبق کو بار بار دہرایاہے۔آزادی کاحصول اگرچہ ہجرت کے عنوان سے ہرنبی کی
سیرت کاایک لازمی حصہ رہاہے لیکن حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی کا تو
مقصد ہی اپنی قوم کے لیے آزادی کاحصول تھا۔حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون
سے یہی مطالبہ کیاتھاکہ میری قوم کو آزاد کردو۔فرعون موسی سے فرعون الوقت
تک کسی طاغوت نے ٹھنڈے پیٹوں آزادی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔فرعون اورآل
فرعون پر سات قسم کے عذاب یکے بعد دیگرے نازل کیے گئے ،ہربار فرعون نے وعدہ
کیا کہ اے موسی علیہ السلام اپنے رب سے کہو یہ عذاب ٹال دے میں تمہاری قوم
کو آزاد کردوں گا ہر بار عذاب ٹال دیاگیالیکن فرعون نے اپنا وعدہ پورانہیں
کیا۔آں فرعون موسی سے ایں فرعون تک ہر طاغوت وعدہ خلاف اور عہد شکن ہی ثابت
ہواہے۔یہ تاریخی حقائق ہیں جن سے مورخ کاقلم بارہا پردے ہٹا چکاہے،پس
جوچاہے ان سے عبرت حاصل کرے۔
تحریک حریت کشمیر وقت کے صفحات میں اسی طرح کی داستان عزم و ہمت رقم کرنے
کاایک عمل ہے جسے کشمیری قوم نے اپنے ایمان سے سینچاہے اور شہداکے خون سے
اس کی آبیاری کی ہے۔یہ تحریک دراصل 14اگست1947کاایک نامکمل باب ہے اور بادی
النظر میں تحریک تکمیل پاکستان ہے۔لاالہ الااﷲ کے کلمے نے پوری دنیاکے
مسلمانوں کو باالعموم اور کشمیر کے مسلمانوں کوباالخصوص پاکستانیوں کے ساتھ
مکمل طور پر جوڑ رکھاہے اور یہ تعلق کبھی بھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔حقیقت یہی
ہے کہ ایمان کے اس تعلق کی وجہ سے پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ اور
کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت
جو بھی کرداراداکرے پاکستانی قوم اپنے قائداعظم کے بقول کشمیر کو پاکستان
کی شہ رگ ہی سمجھتی ہے ۔پاکستانی قوم کل بھی اور آج بھی کشمیریوں کے شانہ
بشانہ کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی تآنکہ کشمیرمیں الحاق پاکستان کا سورج طلوع
ہواور ظلم و ستم کی طویل رات کا خاتمہ ہو سکے۔مقبول بھٹ شہید اس تحریک
تکمیل پاکستان کا ایک سنہراباب ہے۔
شہیدمقبول بھٹ 18فروری1938کوضلع کپواڑہ کے ایک کسان گھرانے میں پیداہوئے،ان
کے والدکانا م غلام قادر بھٹ تھا،گیارہ سال کی عمر میں والدہ کی شفقت سے
محروم ہوگئے،والد نے دوسری شادی کر لی اور یوں آغاز عمری سے ہی محرومیوں کی
بھٹی میں یہ نوجوان کندن بننے لگا۔شہیدمقبول بھٹ نے اپنی زندگی کی جملہ
تفصیلات اس خط میں تفصیل سے ذکر کی ہیں جو انہوں نے 12اپریل1972کوجیل سے
لکھا۔اس خط کے مندرجات سے اندزاہ ہوتاہے کہ قدرت نے آغاز سے ہی اس شہید کی
پرورش میں خصوصی توجہ مرکوز کررکھی تھی چنانچہ وہ ایک واقعہ بڑی تفصیل سے
تحریر کرتے ہیں کہ ایک بار جب بوجوہ فصل بہت اچھی نہ ہوئی توجاگیردارکے
ہرکارے جنہیں ’’کاردار‘‘کہاجاتاتھاکسانوں سے کسی رعایت کے روادار نہیں تھے
اور بضد تھے خواہ اپنے بچوں کی ہی قیمت پر مقررہ مقدارکاخراج بہرصورت ادا
کیاجائے۔اس مقصدکے لیے انہوں نے بعض کاشتکاروں کے گھروں پر دھاوا بھی
بولا،معاملہ جب جاگیردارتک پہنچاتو شہیدمقبول بھٹ لکھتے ہیں کہ وہ اپنی
کارپر گاؤں آیااورشہیدمقبول بھٹ سمیت گاؤں کی اکثریت نے چارپہیوں والی گاڑی
پہلی دفعہ دیکھی۔اسکے سامنے گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے بتایا متعددوجوہات کے
باعث چونکہ اس بارفصل کوئی بہت اچھی نہیں ہوئی اس لیے مقداررمقررہ کے مطابق
خراج کی ادائگی ممکن نہیں ہے لیکن اس جاگیردار نے بھی ان حالات کو
درخوراعتنا نہیں سمجھااور خراج کی وصولی پر مصررہااور جب اپنی کار میں بیٹھ
کرواپس جانے لگاتو گاؤں کے سب بچے اس کی گاڑی کے سامنے لیٹ
گئے۔جاگیردارحیران رہ گیا کہ اب ادھوراخراج وصول کرے یاان بھوکے ننگے بچوں
کی معصوم جانوں کوکچلتاہواآگے کو نکل جائے۔شہیدمقبول بھٹ لکھتے ہیں کہ
کارکے سامنے لیٹنے والے کسانوں کے ان بھوکے ،ننگے اور چینختے چلاتے بچوں
میں میں بھی شامل تھا۔
1949میں شیخ عبداﷲکے برسراقتدارآنے کے بعد معاشرے کی اقدار میں نمایاں
تبدیلی آنے لگی اور اسکول میں سالانہ یوم والدین کے موقع پر امیربچے اور ان
کے والدین کوایک طرف جبکہ غریب طلبہ اور انکے والدین کودسری طرف بٹھایاجانے
لگا۔شہیدمقبول بھٹ لکھتے ہیں کہ ایک تقریب کے موقع پر جب وہ خود بھی اعلی
انعام لینے کے حق دار ٹہرائے گئے تو عین اس موقع پر انہوں نے انعام کی
وصولی سے انکار کردیااور مطالبہ کیاکہ کہ جب تک سب طلبہ کے درمیان مساوات
قائم نہیں کی جائے گی وہ اپنا انعام وصول نہیں کریں گے۔اس سے اندازہ ہوتاہے
کہ معاشرتی تفریق کے خلاف شہیدمقبول بھٹ کے دل میں نہ صرف یہ کہ کتنی زیادہ
نفرت تھی بلکہ یہ نفرت انہیں بڑے سے بڑے اقدام پر بھی آمادہ کر سکتی تھی جس
کے باعث وہ بلآخرشہادت کا اعلی تر مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔بعد کے
دنوں میں یہی اسکول شہیدمقبول بھٹ کی مساعی سے پرائمری سے سیکنڈری سطح تک
بڑھادیاگیا۔
ابتدائی تعلیم کے بعدشہیدمقبول بھٹ نے بارہ مولامیں سینٹ جوزف کالج میں
داخلہ لیاجہاں سے انہوں نے سیاسیات اور تاریخ کے مضامین میں بی اے کی ڈگری
حاصل کی۔اسی کالج کے دوران ہی وہ پہلی بار پاکستان بھی آئے۔بعد میں انہوں
نے پشاور یونیورسٹی سے اردوادب میں ایم اے کاامتحان بھی پاس کیااور اس
دوران اپنے روزوشب کے لیے ایک ہفت روزہ ’’انجام‘‘کے ساتھ بھی صحافتی طور پر
وابسطہ رہے۔عملی سیاست کے آغاز تک وہ اسی جریدے سے متعلق رہے ۔1961میں راجہ
بیگم،ایک کشمیری خاتون،سے ان کی شادی کردی گئی۔جاویدمقبول اورشوکت مقبول اس
خاتون کے بطن سے جنم لینے والے ان کے دو بیٹے ہیں جبکہ کچھ ہی عرصہ بعد
انہوں نے ’’ذکری بیگم‘‘نامی ایک معلمہ سے بھی شادی کی جس سے ان کی ایک بیٹی
نے جنم لیا۔
14ستمبر1966کوشہیدمقبول بھٹ کایہ فطری جذبہ انہیں برہمن استعمارکے خلاف
عملی جدوجہد پر لے آیااور انہوں نے وقت کے طاغوت کے خلاف ہتھیار اٹھا کر
اپنی قوم کے عملی تحفظ کی طرف ایک اورقدم بڑھادیا۔ہندوکی ذہنیت کی سفاکی و
عیاری دیکھیے کہ اس مرد مجاہد کے خلاف لوکل سی آئی ڈی کے بدنام زمانہ ظالم
و فاسق و فاجرانسپکٹرامرچند،جس نے کشمیریوں کاجینادوبھرکیاہواتھا،اس کے قتل
کے الزام میں دھرلیااور پھانسی کی سزا سنادی گئی۔دریاجب پوری قوت سے بڑھے
تو بڑی سے بڑی چٹانیں بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتیں،چنانچہ سری نگر جیل
کی بلندوبالاآہنی فصیلیں اس مرد آزادی کے سامنے ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں
اوربہت جلد یہ نوجوان سری نگر جیل سے نکل کرآزادفضاؤں سے ہوتاہوا سرزمین
پاکستان پہنچ گیا۔1971میں بھارتی حکمرانوں نے ایک طیارے کے اغوامیں
شہیدمقبول بھٹ کو بھی ملوث کردیااور پھر جب یہ نوجوان اپنے وطن پہنچاتوایک
بار پھر 1974میں اسے گرفتارکرلیاگیا۔پھانسی کی گزشتہ سزاکی تلوار ابھی بھی
لٹک رہی تھی کہ اسی دوران 6فروری1984کو برمنگھم،برطانیہ میں ایک بھارتی
سفارتکارکاقتل رونما ہوگیا۔بھارتی انتظامیہ نے جیل میں پڑے ہوئے اس نوجوان
کو حسب سابق اس کا ماسٹر مائنڈقراردے دیا اورتہارجیل نئی دہلی میں
11فروری1984کواس مرد مجاہد کو پھانسی کے پھندے پرلٹکادیاگیا۔
ایک شہیدمقبول بھٹ لٹک گیاتوکیاہواکہ خون صد ہزارانجم سے ہوتی ہے
سحرپیدا۔شہیدکی ایک ایک بوند سے شہیدوں کی نسلیں جوان ہوئی ہیں اور آج
استعمار کے خلاف تیسری نسل کا تسلسل ہے جو شہیدمقبول بھٹ کی تاریخ
دہرارہاہے ،لیکن آخر کب تک؟؟؟ظلم کی رات نے آخر کو ختم ہونا ہے ۔آزادی
کشمیرشہیدمقبول بھٹ کاایک خواب تھااور اب وہ خواب بہت جلدشرمندہ
تعبیرہواچاہتاہے۔جن قوموں کے نوجوان ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے ہاتھ میں
تلوارتھامے ہوئے ہوں اس قوم کو کسی فرعون کی میخوں والی افواج اس زمین سے
مٹا نہیں سکتیں ،کشمیری آج بہت تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے چلے جارہے
ہیں اور وہ وقت قریب آن لگاہے جب کنٹرول لائین کاآسیب مشرق و مغرب کے
بلندوبالا فریب زدہ سحرسمیت زمیں بوس ہو جائے گااور ’’آملیں گے سینہ چاکان
چمن سے سینہ چاک‘‘کے مصداق تکمیل پاکستان کی روشن صبح طلوع ہوگی ۔کوئی
اقوام متحدہ اور اس کی قراردادیں اور کوئی عالمی طاقتیں اور انکے جھوٹے
وعدے کشمیرکو آزاد نہیں کرائیں گے ،جس طرح امت مسلمہ کی قوت ایمانی سے
ٹکراکر روس جیسی عظیم ترین سپر پاور پاش پاش ہوئی اورامریکہ بحراوقیانوس
میں ڈوبنے کو ہے اسی طرح کشمیریوں کے جذبہ ایمانی سے لرزہ براندام نئی دہلی
کے ایوان اقتدار بھی کشمیریوں کے مقدس لہو میں خس و خاشاک کی طرح بہ جائیں
گے اور برہمن راج ماضی کے صحیفوں میں دفن ہوگااور شہیدمقبول بھٹ کی حیات
جاوداں مشرق سے طلوع ہوکر ہمیشہ کے لیے امر ہوجائے گی،انشاء اﷲ تعالی۔ |