کہاں ہیں پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے ثمرات؟
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
گزشتہ اتوار وزیرِاعظم نوازشریف
صاحب نے اشیائے خورونوش کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آبادکی آب پارہ مارکیٹ
اورجی ٹین مرکزکے بازاروں کا اچانک دورہ کیااور صارفین کے درمیان گھوم
پھرکر سبزیوں اورپھلوں کے ریٹ معلوم کرتے رہے ۔اُنہوں نے دوکانداروں سے بھی
پوچھاکہ وہ آلو ،ٹماٹر ،گاجر ،ادرک ،پیاز،پالک اوردالیں وغیرہ کس نرخ پر
خریدتے اورکِس قیمت پربیچتے ہیں۔دوکانداروں نے جو بتایا سوبتایا ،سوال
مگریہ ہے کہ کیا وزیرِاعظم صاحب نے کبھی یہ اشیاء خریدی ہیں جو وہ موازنہ
کرسکیں کہ قیمتوں میں کیا کمی بیشی ہوئی۔اُن کے توملازموں کے ملازم ہی یہ
چیزیں خریدتے ہوں گے اِس لیے وہ کبھی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ قوم مہنگائی
کی کِس چَکی میں پِس رہی ہے۔دوسری بات یہ کہ وزیرِاعظم صاحب کویہ اچانک
کیاسوجھی کہ اُنہوں نے ’’خادمِ اعلیٰ‘‘کا سا اندازاختیار کرلیا؟۔یہ توہمارے
خادمِ اعلیٰ ہی ہیں جو کبھی موٹرسائیکل ،کبھی میٹرو ،کبھی پیلی ٹیکسی
اورکبھی ’’لانگ شوز‘‘پہنے کشتی میں سوارنظرآتے ہیں۔وہ توپیپلزپارٹی کے
دَورمیں لوڈشیڈنگ کے دَوران شدیدگرمی میں ہاتھ میں پنکھا لے
کرمینارِپاکستان جا پہنچتے تھے لیکن ہمارے نازک مزاج میاں نوازشریف صاحب نے
توایسا کبھی نہیں کیاتھا ۔ہوسکتا ہے کہ خادمِ اعلیٰ کی مقبولیت کو دیکھ
کراُنہیں بھی یہ شوق چرایاہو ۔دوسری طرف خادمِ اعلیٰ اب آہستہ آہستہ اپنے
بڑے بھائی کی پیروی کرنے لگے ہیں۔محترم بھائی رؤف طاہرنے اپنے کالم میں
لکھا ہے کہ ایک خبرکے مطابق حکومتِ پنجاب نے ساڑھے 33 لاکھ روپے کی لاگت سے
ایک لگژری کنٹینر خریدنے کافیصلہ کیاہے جس میں گرم کھانے کوگرم اورٹھنڈے
کوٹھنڈا رکھا جاسکے ۔خبرکے مطابق میٹنگزکے بعد وزیرِاعلیٰ صاحب کوکھانے کی
اشیاء اکثرٹھنڈی ہی پیش کی جاتی تھیں جس کی بناپر انتظامیہ نے ریفرکنٹینر
خریدنے کافیصلہ کیااور وزیرِاعلیٰ صاحب نے اِس کی منظوری بھی دے دی ۔بھائی
رؤف طاہرکہتے ہیں کہ پہلے تو اُنہیں اِس خبرپر یقین نہیں آیا لیکن
پھراُنہوں نے سوچاکہ ہوسکتاہے کہ فائلوں کے انباراوربے پناہ دباؤ میں
وزیرِاعلیٰ اِس فائل پرضروری توجہ نہ دے پائے ہوں۔ہمیں تو اب بھی اِس خبرکی
صحت سے انکارہے اوراگر واقعی ایساہے توپھر ہم بھی خادمِ اعلیٰ کی طرح لہک
لہک کرگانے لگیں گے کہ
ایسے دستور کو ، صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا
ویسے آجکل ’’بھول چوک‘‘کا موسم ہے اورصرف خادمِ اعلیٰ ہی نہیں اور بھی بہت
سے سیاستدانوں سے ’’چُوک‘‘ ہورہی ہے ۔سب سے بڑی چُوک توہمارے کپتان صاحب
کرنے جارہے ہیں۔اُنہوں نے سابق گورنرپنجاب چوہدری سرورصاحب سے ملاقات بھی
کرلی اوراُنہیں تحریکِ انصاف میں شرکت کی دعوت بھی دے ڈالی جبکہ چودھری
سرورصاحب نے تحریکِ انصاف کی وائس چیئرمینی کاعہدہ طلب کرلیا جس پرتحریکِ
انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی بہت چیں بچیں ہوئے ۔اُنہوں نے صاف
صاف کہہ دیاکہ جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں آسکتیں اُسی طرح ایک
جماعت میں دو وائس چیئرمین بھی نہیں ہوسکتے ۔خاں صاحب نے چودھری صاحب سے
وقت مانگ لیااورشنید ہے کہ اب چودھری صاحب کو’’باغی‘‘کی جگہ تحریکِ انصاف
کاصدر بنایا جارہاہے ۔ہم توکپتان صاحب سے یہی کہیں گے کہ اب بھی وقت ہے کہ
وہ دوسرے ’’باغی‘‘کی پارٹی میں شمولیت سے بازرہیں لیکن ایساہوتا نظرنہیں
آرہا ۔ہمارے اعتراض کی وجہ یہ ہے کہ سیاست میں خاں صاحب کی پہچان ضدی
اورمَن مانی کرنے والے لیڈرکے طورپرکی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف چودھری
سرورصاحب کو تو ’’لیڈری‘‘کا شوق ہی بہت ہے ۔اگراُن کے ذہن میں’’لیڈری‘‘کے
جرثومے کلبلا نہ رہے ہوتے توآج بھی پنجاب کے گورنرہوتے اور میاں برادران کے
قریبی دوست۔اِس لیے ہرمعاملے میں ٹانگ اڑانے والے چودھری سرورصاحب سے حذرہی
بہترہے ۔اگرایسا نہ ہواتو پھروثوق سے کہا جاسکتاہے کہ عنقریب خاں صاحب یہی
گنگناتے نظرآئیں گے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
ایک چوک ہمارے لندن والے الطاف بھائی سے بھی ہوگئی جنہوں نے ’’ایویں
خوامخواہ‘‘بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈال دیا۔اُنہوں نے جوشِ خطابت میں
تحریکِ انصاف کے دھرنوں کے بارے میں انتہائی غیرپارلیمانی اورناشائستہ زبان
استعمال کی اورجوابِ آں غزل کے طورپر عمران خاں صاحب نے ایسے ’’غیر
پارلیمانی‘‘ چھَکے مارے کہ ایم کیوایم کے ہاتھوں کے طوطے اُڑے ہی نہیں بلکہ
’’پھُر‘‘ ہوگئے۔حیدرعباس رضوی صاحب کچھ سنبھالا دینے کی کوشش کرتے ہوئے
غیرملکی اخبارات کے ایسے پلندے اُٹھالائے جن میں کپتان صاحب کی ذاتی زندگی
کے بارے میں(جھوٹے سچّے) انکشافات کیے گئے تھے۔گویابات اب سیاست سے نکل
کرذاتیات پرآگئی جوانتہائی افسوسناک البتہ نوازلیگ اورمیڈیاکے لیے خوش خبری
کہ ایم کیوایم اورتحریکِ انصاف باہم گتھم گتھاہونے کی بناپر نوازلیگ کوسکون
کہ کچھ لمحے میسرآجائیں گے اورمیڈیاخوش کہ اُن کے ہاتھ ایک ایسا ’’چَٹ
پٹا‘‘موضوع آگیا جسے اب وہ کئی دنوں تک ’’رَگڑا‘‘دیں گے۔
بات پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے شروع ہوئی لیکن پتہ نہیں کہاں سے
کہاں جاپہنچی ۔آمدم بَرسرِمطلب ہم تواپنے وزیرِاعظم صاحب سے یہی عرض کریں
گے کہ وہ اِس قسم کے ’’چھاپے‘‘خادمِ اعلیٰ پرچھوڑ دیں کیونکہ ’’جس کاکام
،اُسی کوساجھے‘‘اور خودمفلسی کے ہاتھوں تنگ قوم کی فلاح کے لیے کوئی
ایسالائحہ عمل بنائیں جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی
کابراہِ راست فائدہ عوام تک پہنچے ۔باوجودیکہ یہ کمی عالمی منڈی میں تیل کی
قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہوئی لیکن اُتنی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے تھی
۔جب عالمی منڈی میں خام تیل 115 ڈالرفی بیرل تھاتب ملک میں پٹرول 108 روپے
لیٹرتھا ۔اب عالمی منڈی میں پٹرول 47 ڈالرفی بیرل ہے اوراِس لحاظ سے
توپاکستان میں50 روپے فی لیٹرسے بھی کم ہوناچاہیے لیکن یہ 70.30 روپے فی
لیٹرہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ گزشتہ چارماہ میں پٹرول کی قیمت میں 34 روپے کی
کمی بھی غنیمت ہے لیکن اِس کمی کے اثرات عوام تک نہیں پہنچے ۔سبزیوں کی
قیمت میں نمایاں کمی نئی فصل کی منڈیوں میں آمدکی وجہ سے ہے اورباقی اشیائے
خورونوش میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی
کاٹرانسپورٹر مافیانے سِرے سے کوئی اثرہی نہیں لیا ۔اگرکسی نے کمی کی بھی
تومحض آٹے میں نمک کے برابر ۔کراچی کے ٹرانسپورٹر تونہ صرف کرائے کم نہیں
کرتے بلکہ حکومت کو ’’تَڑیاں‘‘بھی لگاتے ہیں۔کیاحکومت بے خبرہے کہ
ٹرانسپورٹر اپنی گاڑیوں کے کرائے ڈیزل کے ریٹ کے مطابق طے کرواتے ہیں
اورگاڑیاں سی این جی پرچلاتے ہیں جو اب بھی ڈیزل سے کہیں کم قیمت پر دستیاب
ہے ۔پاکستان میں چلنے والی 90 فیصدسے زائد پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پرہی
چلتی ہے جس کی وجہ سے اِس نعمت سے استفادہ ناممکن ہوچلاہے ۔آخراِس میں
قباحت ہی کیاہے کہ ملک میں چلنے والی تمام پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے حکماََسی
این جی بندکر دی جائے اوراگر حکومت اپنے تئیں اتنی ہمت نہیں پاتی توکرائے
سی این جی ریٹس کے مطابق طے کیے جائیں تاکہ عوام کوکچھ توفائدہ پہنچے ۔ |
|