تحریر: شمائلہ جاوید بھٹی
بھارتی آبی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت
پاکستان کا کردار و کارکردگی لائق تحسین تو دور کی بات بدترین کا لفظ
استعمال کیا جائے تو بھی کم ہے۔ اس لئے خوراک کی خودمختاری اور سلامتی قومی
اور دفاعی سلامتی کی طرح انتہائی اہمیت کی حامل اور پاکستان کی بقاء کا
معاملہ ہے لیکن قومی سلامتی کے ادارے اس حوالے سے کسی بھی قابل ذکر
کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے کہ بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کی حکمت عملی
کی تیاری اور عملدرآمد دنوں نہیں سالوں کی بات ہے۔ ایک ڈیم بننے میں دس سال
تک لگ جاتے ہیں مگر پاکستان کی حکومت اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں نے
صرف اس وقت معاملے کی سنگینی کو سمجھا یا اچھالا جب پانی سروں سے گزر چکا
تھا۔ بھارت کئی ڈیموں کی بنیاد سے لیکر تکمیل تک کے مراحل طے کرگیا مگر
قومی اخبارات نے بھارتی آبی جارحیت کو کئی سال تک کسی اہم خبر یا اخباری
زبان میں نیوز سینس ویلیو کے قابل نہ سمجھا۔ حتیٰ کہ جارحیت کے لفظ کے
استعمال سے بھی ایسے اجتناب کیا گیا جیسے خدا نخواستہ پاکستان کوئی بھارت
کی طفیلی ریاست ہے اور ایسا کرنے سے بھارت سرکار ناراض ہو جائیگی۔ پاکستان
اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بحالی میں تنازع کشمیر کے علاوہ
دریائی پانی کی تقسیم کا معاملہ بھی سرفہرست ہے۔ سندھ طاس کے معاہدے کے تحت
بھارت پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنے کا مجاز نہیں لیکن پچھلے کئی برسوں
سے اس نے پاکستانی دریاؤں پر بھی ڈیم بنانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ڈیموں
کے ڈیزائن پر بھارت پاکستان کے اعتراضات کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں
ہوتا۔ اب بھارت کشن گنگا ڈیم سے دریائے جہلم کا 6100ایکٹر فٹ پانی روکنا
چاہتا ہے جبکہ رتلی کی جھیل میں دریائے چناب کا 19ہزار ایکڑ فٹ پانی روکنے
کا منصوبہ بھی بنایا جارہا ہے۔ آبی تنازع پر گزشتہ ہفتے پاک بھارت مذاکرات
کی ناکامی کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر عالمی عدالت سے رجوع کرنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے دریائے چناب اور جہلم پر بھارت کی جانب سے
بنائے جانے والے پانی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کا معاملہ عالمی عدالت میں
اٹھانے کی ہدایت جاری کردی ہے اور ذرائع کے مطابق یہ مقدمہ ماہ رواں کے
اواخر تک دائر کردیا جائے گا۔ بلاشبہ بھارت کی جانب سے مسلسل ہٹ دھرمی کے
مظاہرے کے بعد پاکستان کے پاس عالمی عدالت سے رجوع کرنے کے سو کوئی راستہ
باقی نہیں رہا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کا کیس مضبوط ہے اور اسے درست طور
پر ٹھوس ثبوت و شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے تو کامیابی کے امکانات بہت روشن
ہیں۔ دو سال پہلے کشن گنگا ہائیڈرو پراجیکٹ پر عالمی عدالت کی جانب سے
بھارت کے حق میں فیصلہ دیئے جانے کا بنیادی سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ
پاکستان کے وکلاء نے مقدمے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی اور پاکستان کے
موقف کو عدالت کے سامنے درست طور پر پیش نہیں کیا۔ پاکستان اب اس مجرمانہ
کوتاہی کا قطعی متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا مقدمے کے لئے قابل اعتماد، دیانت
دار اور مخلص ماہرین اور وکلاء کا انتخاب کیا جانا چاہئے اور انہیں مکمل
تیاری کے ساتھ پاکستان کا مقدمہ لڑنا چاہئے۔ ایسا نہ کیا گیا تو عین ممکن
ہے کہ چند برس بعد ہم پانی کی ایک ایک بوند کے لئے بھارت کے محتاج ہو جائیں۔ |