دلّی ہے دل والوں کی نہ کہ نفرت والوں کی ․․․․

میں نے بچپن میں ایک مقولہ سنا تھا ․․․․’’دلّی ہے دل والوں کی،نہ کہ نفرت والوں کی‘‘اور آج جس وقت میں یہ تحریر سپرد قرطاس کر رہا ہوں ،یہ حقیقت میرے سامنے ہے کہ واقعی دلّی دل والوں کی ہے اور اس کے دل میں ان ہی لوگوں کے لیے جگہ ہے جو انسانیت،آدمیت،انصاف ،حق ،اچھائی اور نیکی و شرافت کی بات کر تے ہیں،نیز ان لوگوں سے اسے سخت نفرت ہے جوانسانیت کے دشمن اور حق و انصاف کے قاتل ہوں ۔ دلّی کا مزاج ہمیشہ سے ہی ایسا ہے۔اس نے عہد قدیم میں بھی اپنی دلنوازی کے مظاہرے کیے ہیں اور اپنے دیار میں آنے والوں نوواردوں کا دل کھول کراستقبال کیا حالانکہ انھوں نے اسے تاراج کیا مگر دلّی جانتی تھی کہ وہ اس کی عظمت بھی بلند کر یں گے اور اسے لال قلعہ،جامع مسجد اور قطب مینار جیسی یاد گار یں بھی دیں گے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت اور واشگاف ہو ئی اور وہ یہ کہ دلّی کبھی کسی سے نفرت نہیں کر تی نیز نفرت کرنے والوں کے لیے بھی اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔

آج جب کہ اس نے عام آدمی پارٹی کو عظیم الشان اکثریت دی ، دلّی کی اس دل نوازی کے چرچے بھی چار سو پھیلے ہوئے ہیں ۔دلّی نے ایک نوارد سیاسی متبادل ’’عام آدمی پارٹی‘‘کو جو دل کھول نواز ش دی اور فرقہ پرستوں و نفرت کے سوداگروں کو جس طرح محروم کیا اس سے نہ صرف دلّی کی عظمت اور زیادہ دلوں میں بیٹھ گئی بلکہ ایک ایسی تاریخ رقم ہوئی جسے بعد والے بڑی توجہ اور دھیان سے پڑھیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس جنھوں نے مل کر اس ملک کی مٹی پلید کر کے رکھ دی انھیں دلّی نے تاریخی اور ذلت آمیز شکست دے دی۔بھلا دیکھیے تو سہی ایک نے گجرات ،مدھیہ پردیش ،جے پور،اتر پردیش بالخصوص مظفر نگر اور ملک بھر میں نفرت انگیز ی اور قتل و غارت گر ی کی فیکٹریاں کھول دیں اور دوسری نے بد عنوانی ،اقربا پروری ، ملک املاک میں خرد بر د جیسی گھناؤنی حر کتیں کر کے ملک کیمعیشت او ر اکنامی کا گر اف بالکل زمین سے ملا دیا ․․․․اسے بھی دلّی کیوں کر چھوڑتی ،وہ تو پہلے ہی ملک کی دیگر ریاستوں میں شکست سے دوچار تھی․․․․دلّی میں اس کا ’’سوپڑا ‘‘ہی صاف ہو گیا اور ایسے ایسے ’’دگّج نیتاؤں‘‘ کومعمولی قسم کے لوگوں نے روئی کی طرح اڑا کر رکھ دیا جو ۱۵؍۱۵؍۔ ۲۰؍۲۰؍ سال سے ناقابل شکست ثابت ہورہے تھے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ان دونوں بڑی پارٹیوں کا بے جا غرور ،عوام سے دھوکا بازی اور فریب کاری ،عوام کے حقوق کو غصب کر نے کی مذموم عادت اسی طرح ان کی حق تلفی دلّی کو بالکل پسند نہیں آئی اس لیے اس نے انھیں اپنے تخت سے محروم کر دیااور اپنی منصف مزاجی سارے زمانے کو دکھادی۔

حالیہ اسمبلی الیکشن میں دلّی میں بالخصوص فرقہ پرستوں کی جانب سے جس طر ح کی بیان بازیاں ہوئیں،جس طرح کی نفرتوں کی اشاعت کی گئی اور جس طرح عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال پر ذاتی حملے کیے گئے ،ان سے دلّی کا دل بہت دکھا اور اس کے بھرم و اعتماد کا بے تحاشا خون ہوا ۔اس کے کلچر اور تہذیب کا جنازہ نکلا ۔موقع پر ستوں نے دلّی کے کوچے کوچے اورخاص طور دلّی کے دل کناٹ پیلیس اور نئی دلّی میں جس طرح کی نفرت انگیزیاں کیں،وہ دلّی کو ایک نہ بھائی، چنانچہ اس کا بد لہ دلّی نے غریبوں اور عوام کی ہمدرد جماعت ،نوجوانوں اور نئے جیالوں کی تنظیم عام آدمی پارٹی کو تاریخی اکثریت اور شاندار فتح عطا کر کے اور بی جے پی و کانگریس کوشرمناک شکست دے کر لیا اور اس طرح لیا کہ دشمنوں کے خیموں میں اب تک سناٹا چھایا ہوا ہے۔لوگ پوچھ رہے ہیں ’’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ؟‘‘ اور جواب میں انھیں سناٹا ہی مل رہا ہے۔نہ ختم ہونے والے چنتن منتھن ہورہے ہیں اور شکست کے اسباب تلاش کیے جارہے ہیں ․․․․دلّی ناراض ہے ․․․سب سے بڑا سبب یہ ہے اگر کوئی سمجھے تو․․․

دلّی نے دیکھا ایک شخص گجرات کی گلیاں سونی کر کے دہلی چلا آیا ۔الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی گڑبڑنے اسے ملک کے سب سے اونچے عہدے پر پہنچا دیا ۔مگر اس سے بھی اس کا پیٹ نہیں بھرا اور وہ اپنے فرائض چھوڑ کر پہلے تو ملکوں ملکوں گھومتا رہا یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اس کی کر سی ہمیشہ خالی دکھائی دیتی رہی۔پھر ملک کی کچھ ریاستوں میں الیکشن ہوئے تو وہ انتخابی ریلیوں میں بھاشن دینے چلا آیا ․․․․․جیسے یہ ہی اس کا کام ہو،مگر تانا شاہی کے لیے کیا کیا جائے․․․․․․پھر دلّی میں انتخابات کا بگل بجا تو وہ جیسے دوڑا ہوا آیا اور یہاں سے وہاں دلّی میں بھاشن بازی شروع کر دی ․․․․․اس کا ایک ہی طرز تخاطب تھا ’’متروں!․․․․بھائیوں بہنوں!ہم دلّی کو ایسی سرکار دینا چاہتے ہیں ویسی سرکار دینا چاہتے ہیں ․․․․‘‘ہر جگہ اسی کے فوٹو․․․․گاسی کی تصویروں کے پوسٹر و بینر ․․․․لوگوں کو پتا نہ چل سکا کہ وزیر اعلاا مید وار کو ن ہے ؟کوئی ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو وہ کہاں ہے ․․؟؟ یہاں تک کہ لوگ اس کے ایک ہی طرح کے بھاشن سے اوب گئے اور انھیں بوریت سی ہونے لگی ․․․․․پھر ایک موقع پر ست آئی ․․․․جس کی موقع پر ستی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج سے ڈیڑھ سال قبل وہ انا اور کجریوال کے ساتھ مل کر اسی پارٹی کو ملک دشمن کہہ رہی تھی ․․․پھراسی پارٹی نے اسے ۷۹کروڑ روپے دے کر اپنی جماعت میں شامل کیا اور دلّی کی وزارت اعلا کا امید وار بھی بنا دیا․․․․․اس موقع پرست نے پھر ہمیشہ اسی پارٹی کی بولی بولی اور اسی کے گیت گائے ․․․․․ہاں !بھائی مانا کہ جو جس کا کھاتا ہے اسی کا گاتا ہے مگر اس طرح ․․سرسے سرملایا ۔لب سے لب ملائے۔وہی ٹون،وہی طرز نغمگی ،کچھ بھی فرق باقی نہیں رہا ۔ایسا بھی کہیں ہوتا ہے ؟یہ دلّی میں ہوا اور دلّی نے اسے ایسی پٹخ دی کہ اگر غیرت مند ہے تو زندگی میں کبھی موقع پر ستی نہیں کر ے گی اور اگر بے غیرت ہے تو ․․․․مگر جناب وہ بے غیر ت ہے ،اس نے پھر موقع پر ستی کا مظاہرہ کیا اوراپنے سابقہ بیان سے پلٹتے ہوئے کہا’ ’دلّی میں شکست فاش کی ذمے داری اس کی نہیں ،پارٹی کی ہے ۔‘‘اس طرح اس موقع پر ست نے پارٹی سمیت اپنی ہار کا ٹھیکرا بھی پارٹی کے سر پھوڑ دیا ۔

اسی طرح اس ملک کو ثریا سے خاک نشین کر نے والی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس (کانگریس)کے لوگوں نے بھی دلّی کو خوب ہر ے ہر ے باغ دکھائے اور یہ’’ دیں گے ․․․․وہ دیں گے ․․․‘‘’’․․․ایسا کر یں گے ․․․․․ویساکر یں گے․․․‘‘ کے خوب نعرے لگائے ․․․مگر دلّی ان کے اندر کا حال جان رہی تھی اور خوب سمجھ رہی تھی کہ یہ سفید کپڑوں میں ملبوس انسانیت کے دشمن ہیں اور مسیحا کے بھیس میں قاتل ہیں۔یہ کسی کا بھلا نہیں کر یں گے بلکہ اپنی ہی بگڑی بنائیں گے ۔ان کو تو دلّی نے ایسا نچایا کہ وہ رہتی زندگی تک یاد کریں گے۔اس پارٹی میں بھی ایک موقع پر ست اوردَل بد لنے میں ماہر شخص نے اپنی ’’۲۱؍برسوں ‘‘کی دہائی دی․․․․ارادے مضبوط ہیں ․․․۲۱؍سال ثبوت ہیں‘‘اردو اخباروں کی پیشانی پر اس کا یہ نعرہ چھپتا تھا مگر دلّی نے اسے ۲۱؍ سال میں پہلی بار ہر اکر دکھا دیا․․․․․جھوٹے اور مکاروں کا یہی انجام ہوتا ہے ․․․․حالانکہ یہ بے غیرت اسے سیاست کہتے ہیں اوران کے بقول سیاست میں ہار جیت کوئی معنی نہیں رکھتی،وہ پھر واپسی کر یں گے اور پھر دنیا ان کا جلوہ دیکھے گی ․․․․․ممکن ہے ایسا ہو لیکن مستقبل قریب میں توایسا ہونا ناممکن ہی نظر آرہا ہے۔

خیر دلّی کے دلسے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ․․․․اس کے سینے سے ایسے لوگ اتر گئے جو اس کی بد نامی اور تباہی کا سبب بنتے تھے ․․․․ آج اس نے حق و انصاف ،بد عنوانی اور بھرشٹاچار سے نجات دلانے اور عام آدمی کی بھلائی کی بات کر نے والی جماعت کو اپنے دل میں بٹھا لیا اور اس قدر اعزاز کے ساتھ بٹھایاہے کہ پوری دنیا میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔آج تک دنیا بھر میں کہیں کوئی پارٹی اتنی ووٹیں نہیں حاصل کر سکی جتنی عام آدمی پارٹی نے مجموعی طور پر دلّی میں حاصل کی ہیں۔اس تاریخ سازی سے ایک بات تو اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ دلّی کامزاج سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ․․․․اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دلّی جو سوچتی ہے اس سے پورا ملک چلتا ہے اور دلّی کا فیصلہ پورے ملک کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتا ہے۔دلّی کی فکر اور دلّی کا طرز اپنا علاحدہ طرز ہے ۔

دلّی اب پانچ سال عام آدمی پارٹی کی حکومت دیکھے گی ․․․․ایک نئے طرز سیاست کا آغاز دلّی سے ہونے جارہا ہے ․․․․اسی حکومت میں دلّی اپنے دہائیوں پرانے مسائل کو حل کر ے گی۔نیز اپنی ترقی کی منزلیں طے کرے گی۔ آئیے اس نئے سیاسی طرز اور نئی سیاسی متبادل عام آدمی پارٹی کا دل کھول کر استقبال کر یں ․․․
انقلاب زندہ باد ․․․․․انقلاب زندہ باد ․․․․انقلاب زندہ باد
 
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62227 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More