فیض کے کتّے

قرآن کریم کے نزول سے قبل صرف دنیائے عرب ہی میں نہیں پورے عالم میں شعراء قادر الکلامی کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے ،شعر کو ہر طرف نثر پر فوقیت حاصل ہوتی تھی ، نزول قرآن سے کچھ پہلے بیت اﷲ تک پر بڑے بڑے عرب شعراء کے قصیدے معلّق کئے جاتے تھے ،گویا بیت اﷲ کی دیواروں سے’’ وال میگزین ‘‘کا کام بھی جاہلیت کے زمانے میں لیاجاتاتھا ،اسلام نے بھی اچھے شعرکی تحسین کی ہے ، عمدہ شاعری کی تعریف و تصویب قرآن وحدیث دونوں نے کی ہے ، لیکن شعر کا تعلق چونکہ زیادہ تر تخیل اور رومانویت سے ہے ، اس لئے عام طور پر شعر میں کذب بیانی اور مبالغہ آرائی سے کام لیاجاتاہے ۔
بہر حال قرآن کریم نے آکر شعر کا طلسم توڑ دیا اور چیلنج کیا گیا کہ اگر کسی کو اپنے شعر وکلام پے زیادہ غرور،گھمنڈ اور تفاخر ہے ، تو اس طرح کا کلام یا اس کا معمولی سا حصہ بناکر دکھا ئے ، جو 14صدیاں گذر جانے کے باوجود کوئی نہ کرسکا ، اور ایمانیات سے ہٹ کر اگرصرف بظاہر بھی دکھا جائے تو تا قیامت ممکن نہیں ہے ۔

ان سب کے باوجود شعر اء او رشعر وشاعری کااپنا مقام ومرتبہ اپنی جگہ پر مسلَّم ہے ،اگرچہ جدید زمانے میں کالم نویسی نے کچھ زیادہ ہی شعراء کے مفادات کو چیلنج کیاہے ، ماضی میں شعراء کے وظیفے سرکاری درباروں سے آتے تھے، اب وظیفہ خوری کا یہ’’ مقدس کام ‘‘ کا لم نویس انجام دیتے ہیں ،ماضی کے شعراء غریبوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، حال کے تجزیہ نگار بھی مفادات کے اسیر ہیں ،لیکن فیض احمد فیض نے ایسا نہیں کیا،وہ غریب نواز تھے،ان کافیضان انسانی مساوات کے لئے تھا، کمیونزم وسوشلزم کا نعرہ انہوں نے اسلام کے خلاف نہیں لگایا، بلکہ غریب آدمی کی حمایت ودادرسی میں انہوں نے جیلیں کاٹیں ،قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ، علامہ اقبال او رفیض کا استاذایک ہی مولاناشمس الحق تھے، دونوں کا خمیر بھی سیالکوٹ سے تھا، دونوں نے ہی اسلام اور وطن سے محبت کی ، علامہ اقبال بڑے آدمی تھے ،ان کا قرآن وحدیث کا بڑا گہرا مطالعہ تھا ،مگر فیض نے بھی گورنمنٹ کالج لاہور سے عربی ہی میں ایم اے کیاتھا، حمد ونعت پر ان کی شاعری کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگاکہ وہ نظریاتی طورپر اپنے ہم عصرو ں سے کسی طرح بھی کم نہ تھے، ان کی ولایتی بیگم ایلس کیتھرین نے اسلام قبول کیاتھا، اور اسلامی نام کلثوم پسند کیاتھا، البتہ جمائما کی طرح وہ اپنے اصلی نام سے ہی مشہور رہی ،سلیمہ اور منیزہ ان کی دونوں بیٹیاں بھی باپ کی طرح پختہ عقیدے پر کار بند تھیں ، پھر فیض کو مار کسزم سے کیوں جوڑا جاتاہے ، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عشق میں ناکامی پر قنوطیت ان کے رگ وپے میں اتر گئی تھی،جوتاحیات ان کے دل ودماغ پر سوار رہی ،مایوسی میں آدمی بعض مرتبہ دوسروں کو راستے سے ہٹا ہوا لگتاہے ، دوسری بات یہ تھی کہ نچلے طبقے اور پسے ہوئے غریبوں کی حالت زارپر ترس نے ان کو روایتوں کے خلاف بغاوتوں پر ابھاراتھا، معاشرے میں امیر اور فقیر کے درمیان بے انتہا تفاوت نے ان کو مارکسزم کو بطور حل اپنانے پر مجبوریا مائل کیاتھا،چنانچہ ان کی مشہور نظم ’’کتّے ‘‘ اسی تناظر میں لکھی گئی ہے ۔
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتّے
کہ بخشاگیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکا ر ان کی کمائی

نہ آرام شب کو ، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر ، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو ایک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

ہرایک کی ٹھوکر کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کر مرجانے والے

یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھا ئے
تو انساں سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبالیں

کوئی ان کو احساس ِذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہلادے
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816872 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More