پاکستان اور چین میں سول نیوکلیئر تعاون

گذشتہ دنوں اخبار میں ایک خبر دیکھی جو شائع تو صفحہ اول پر کی گئی لیکن پوزیشن دیتے وقت نیوز ایدیٹر سے خبر کے ساتھ ناانصافی و زیادتی ہوگئی۔خبر کو سنگل کالم شائع کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ اس پر بعد میں بات کریں گے پہلے وہ خبر پڑھ لیں’’ چین پاکستان میں چھ ایٹمی بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے ۔جس سے پاکستان کو 3۔4ملین میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، اس خبر کو بھارتی نیوز پیپرنے چین کے ایک اعلی اہلکار کی پریس کانفرنس کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے جسے ہمارے انگریزی میڈیا کے چند اخبارات نے بھرپور کوریج کے ساتھ شائع کیا ہے۔لیکن یہ اہم ترین خبر اردو میڈیا میں بیٹھے ہوئے’’ تیس مار خان‘‘ فیم نیوز ایڈیٹرز کے سر کے اوپر سے گزر گئی ماسوائے ایک آدھ کے۔

’’ انڈیا ٹو ڈے‘‘ کے مطابق چین کے سرکاری افسر’’ وانگ چین‘‘ انکشاف کیا کہ چین پاکستان میں دو ہزار نو سے دو ایٹمی بجلی گھر تعمیر کر رہا تھا جبکہ اب چھ ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔‘‘ چین کی قومی ترقی ایند ریفارم کمیشن کے اعلی عہدیدار ’’ وانگ چین‘‘ کی جانب سے اس انکشاف سے قبل چین اس قسم کے تعاون کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینے سے اجتناب کرتا رہا ہے۔ یہ انکشاف اس وقت کیا گیا ہے جب چین کے وزیر خارجہ پاکستان کے دو روزہ دورے پر پہنچے ہیں۔اور چین کے صدر اگلے ماہ پاکستان کے پانچ روزہ دورے پر آ رہے ہیں۔

’’وانگ چین‘‘ نے بتایا کہ چین پہلے دو ایتمی بجلی گھروں چشمہ 1 اور چشمہ 2کی تعمیر کررہا تھا جبکہ اب چشمہ3 اور چشمہ 4 بھی چین کے منصوبے میں شامل ہے۔ چین کی جانب سے سرکاری سطح پر اس انکشاف نے یقینی طور پر ’’واشنگٹن اور نیو دہلی‘‘ کے اعصاب شیل کر دیئے ہوں گے ،کیونکہ پاکستان کئی سالوں سے امریکہ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لیے’’ ترلے منتاں‘‘ کرتا رہا ہے۔لیکن امریکہ بہادر دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے نشے میں پاکستان کی آواز پر کان دھرنے پر آمادہ نہ ہوا جبکہ وہ بھارت کو ہر قسم کا تعاون دینے پر تیار ہے۔ اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ معاہدے بھی کر چکا ہے۔ خطے میں اس قسم کے غیر متوازن فیصلوں پر پاکستان کا دوست چین بھلا کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔سو اس نے چپکے سے پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کے کاتمے اور اسکی تعمیر وترقی میں اپنا تعاون پیش کیا اور دوستی کا حق بھی ادا کیا۔میرے دل اور دماگ مین چینی قیادت کے وہ الفاظ آج بھی زندہ ہیں کہ’’ ہم اپنے دوست پاکستان کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں‘‘ ایک بیان میں بھارت اور امریکہ پر واضع کیا گیاکہ’’ چین پاکستان پر حملہ خود پر تصور کریگا‘‘

سابق صدر زرداری،وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بار بار چین کے دورے پر جانے کی وجہ اب سمجھ میں آئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایک حکومت کی پالیسیاں اور شروع کیے گے منصوبے اس کے جانے کے بعد ظاہرہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے بھی اقتدار پر بیٹھتے ہی چین کا سفر اختیار کیا تھا ۔جس کی دھوم ساری دنیا میں مچی تھی۔ چین ایک ایسا ملک ہے ۔جس کے ساتھ کیے گئے معاہدے ،وعدے پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتے بس نئی حکومتیں ان کی تجدید کرتی ہیں۔

پاکستان نے امریکی صدر اوبامہ کو پاکستان کو نظرانداز کرکے بھارت کے دورے پر جانے کا سبق سیکھانے کے لیے اپنے دوست چین کے صدر کو دورے کی دعوت دی ہے اور وہ23 مارچ کو پاکستان کے یوم جمہوریہ پر ہونے والی پریڈ کے مہمان خصوصی ہونگے۔ اطلاعات کے مطابق اس دورے میں تاریخی معاہدے ہونے جا رہے ہیں۔ جن کے تفصیلات منظر عام پر آنے سے بہت سارے ممالک کے سربراہان کی نیندیں بھی اڑا سکتی ہیں۔ پاکستان اب ساٹھ اور ستر کی دہائی والا پاکستان نہیں رہا اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چکا ہے۔خصوصا افغان وار اور موجودہ صورت ھال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اپنے اتحادی پاکستان کی نسبت بھارت کی جانب جھکاؤ نے پاکستان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔اب پاکستان لکیر کا فقیر نہیں رہا ،اب اسے اپنے دوست اور دشمن کی پہنچان ہو چکی ہے۔لہذا اس نے بہت سارے فیسلے نتائج کی پرواہ کیے بغیر کر لیے ہیں۔

ایک فیصلہ تو یہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کو خطے میں تھانیدار بنانے اور اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے پاکستان اور چین کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے چندحواریوں نے بھارت کو چین اور پاکستان پر مسلط کرنے کی ہٹ دھرمی ترک نہ کی تو خطے سمیت دنیا کا امن خطرے سے دوچار ہو نے کا امکان موجود ہے۔ چین بھارت کو مستقل ممبر بنانے کی قرارداد کو ’’ویٹو‘‘ کرنے کی حد تک بھی جانے کو تیار ہو چکا ہے۔کیونکہ چینی قیادت اچھی طرح جان چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی صدق دل سے یہ ٹھان بیٹھے ہیں کہ بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنا ہے لہذ یہ کیسے ممکن ہے کہ چین ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھا دیکھتا رہے۔

قیام پاکستان سے اب تک برسراقتدار آنے والی سب حکومتیں یہ کہتی آئی ہیں کہ اﷲ تعالی نے پاکستان کو معدنی وسائل سے نواز رکھا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے ریگستانوں ،میدانوں پہاڑوں کے نیچے سونے ،تانبے ،لوہے، سونے، ہیرے جواہرات کے انمول خزانے رکھے ہیں ۔قدرت نے پاکستان میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ،کنی اگر کوئی ہے تو وہ ہمارے حکمرانوں کی نیتوں میں ہے۔ ریکوڈک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تھر میں کوئلے کے زخائر سیکڑوں سال کے لیے سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن ہم ذاتی تشہیری مہم میں سود مند منصوبوں کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ شائد ہماری حکومتوں کی یہ سائیکی بن چکی ہے کہ ہم نے ایسے منصوبے ’’کھڈے لائین ‘‘ لگانے ہیں جوقومی مفاد میں ہوتے ہیں اور جو منصوبے ہمارے اپنے مفادات کے لیے بہتر ثابت ہوں انہیں ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا مقصد اولین قرار پاتا ہے۔ اس سوچ سے کب چھٹکارا ملے گا۔ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چین کی تقلید کریں اور ان سے کچھ سیکھیں ۔یہی ہمارے مفاد مین ہے اور یہی پاکستان کے حق میں بہتر ہے۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161090 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.