عہد حاضر میں وطن عزیز بہت گھمبیر اور کھٹن حالات سے گزر
رہا ہے آخر یہ حالات کب تک رہیں گے؟اس کے پس پردہ کیا ہے؟اگر تھوڑی دیر کے
لیے کسی نیوز کو لگا کر بیٹھ جائیں تو ذہن کے پردے صاف ہوجائیں گے۔یہ سب
کچھ آخر کیوں ہو رہا ہے؟ سوچنے کی بات ہے، اور سوچنے کی بات کیوں نہیں ہوگی
کہ آئے روز نئی خبر آتی ہے کہ فلاں جگہ پر دھماکہ ہوا ، اور بہت سے بے گناہ
مسلمانوں کو روز روز سپردخاک کیا جارہا ہیں، بہت سے لوگ یتیم ہو رہے ہیں تو
دوسری طرف نوجوان عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، افسوس ہے کہ مسلمانوں پر ایک
ایسا وقت آخر کیوں آکھڑا ہے کہ مسلمانوں کہ عبادت خانے بھی محفوظ نہیں ۔
اسی درد و کڑن کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ پچھلے جمعہ کو امامیہ مسجد حیات
آباد میں بہت سے انسانوں کی خون بہا کر حیات آباد جیسے پر امن مقام کو بھی
خون سے رنگ کر دیا گیا،حیات آباد ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں پر بہت سے لوگ
دنیا ومافیھا سے بے خبر امن وامان میں رہتے ہیں مگریہ پرامن جگہ بھی ان سے
نہیں رہی ۔صرف یہی نہیں بلکہ بہت سے علماء کرام کو بھی گولیوں کا نشان
بنایا گیا اور علماء کرام کے قتل عام سے ملک خداداد سے دین کا جنازہ اٹھایا
جارہاہے ،کیونکہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ علم کو ویسے نہیں
اٹھائے گے بلکہ علماء کو قبض کردیں گے تو ایسی ہی علم کو اٹھایا اور قبض
کیا جائے گا آج کل محب وطن ، نڈر، بے باک اور وطن کے شیدائی لوگوں کو صفحہ
ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آخر یہ حالات اور واقعات کب تک رہے گے
، ؟ اسی محب وطن اور نڈر و بے باک لوگوں اور وطن عزیز کو بچانے کے لیے حل
چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں بلسان نبی ﷺ نازل ہوا ہے اور اس میں اسی
حالات کو بچانے کا ایک قاعدہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب کوئی انسان کسی دوسرے
انسان کو قتل کر لیں تو اس کے قصاص میں اسکو قتل کیا جائے تو پھر کوئی
انسان ایسا نہیں ہوگا کہ بے جا کسی نفس ِ عمارہ کا خون بہائے کیونکہ اسکو
اپنے نفس کی پڑے رہے گی یہاں تک کہ قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ
جان کے بدلے جان کو مار دیا جائے، آنکھ کے بدلے آنکھ کو ، ناک کے بدلے ناک
کو ، کان کے بدلے کان کو ، دانت کے بدلے دانت کو مار دی جائے یہاں تک زخم
میں بھی قصاص ہو گا اس کے علاوہ اور یہ ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو بے جا
قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان
کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا ، پوری انسانیت کو بچا
لینے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان ایسے حالت زار میں ہے کہ دنیا و مافیہا
سے بے خبر ہے اور اسی حالت میں کوئی دوسرا مسلمان بھائی اس کے کام آجائے
اور اسی کے ذریعے وہ انسان موت کی گھاٹ سے نکل جائے تو گویا کہ اس نے اس
انسان کو نئی زندگی عطاء کردی ۔
اصل انسانیت بھی یہی ہے کہ انسان دوسرے انسان کی جان ، مال اور آبرو کا
محافظ ہو اگر انسان کسی دوسرے انسان کو کوئی ٹیس پہنچائے اور اسے تکلیف زدہ
کردے تو اس سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ آج ہی دیکھا جائے تو پوری
انسانیت کے ساتھ آگ و خون کی ہو لی کھیلی جا رہی ہے اور بے گناہ مسلمانوں
کا قتل عام ہو رہا ہے ، ایسے ناسازگار حالات بنے ہوئے ہیں کہ انسان جب کسی
جم غفیر میں گھیر ہو جاتا ہے تو دل دھڑکتا ہے کہ کہی بم بلاسٹ نہ ہوجائے
اور میرے زندگی کا چراغ گل نہ ہو۔ پرانا زمانہ کتنا پرسکون تھا ہر طرف امن
ہی امن تھا نہ اتنے بم دھماکے اور نہ اتنے مسائل ۔پتہ نہیں آج کیا ہو گیا
کہ قدم قدم پر بم بلاسٹ ہو جارہے ہیں اور بے گنا ہ مسلمان مارے جارہے ہیں
یا ہمارے وطن عزیز کو نظر بد لگ چکی ہے یا اغیارکی سازشیں ہیں۔ یہ بات تو
مسلم ہے کہ پاکستان کے بننے کے بعد شروع دن سے وطن عزیز کو دشمنوں کی طرف
سے ہر طرف سازشیں ہو رہی ہے اور دشمن ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیتا جو وطن عزیز کے منہدم ہو نے کا ہو ۔آج ملک خداداد میں جتنے بھی حالات
خراب ہیں اور ہر طرف بدامنی اور بد نظمی کی فضاء ہے تو اس میں دشمن کی
برابر کا ہاتھ ہیں۔ اگر ہم کراچی ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے حالات
پر طائرانہ نظر دوڑائے تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ ان شہروں میں جو قتل
عام ہو رہا ہے اگر ایک طرف اس میں ہمارے لوگوں کی نادانی ہے تو دوسری طرف
ان شہروں میں حالات خراب کرنے میں دشمن کی سازشیں بھی شامل ہے۔ وطن عزیز کے
موجودہ حالات بہت پر آشوب ہیں ، آئے روز بم دھماکوں نے زندگی بے چین کر
رکھی ہیں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں انسانوں کے جانوں کے ڈھیر لگ جاتے
ہیں ، ہر طرف لہو کا ماحول بن چکا ہے ایسے نامساعد حالات میں ہر محب وطن کی
ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وطن عزیز کی تعمیری ترقی میں اپنا کردار ادا کریں
اور وطن عزیز کو دن دگنی رات چگنی ترقی پر گامزن کرنے کے لیے اپنی
توانائیاں بروئے کار لائیں، یہی موجودہ حالات کا منطقی نسخہ ہے اور اسی
نسخہ سے ہم ان کھٹن حالات سے نکل سکتے ہیں ورنہ دوسرا راستہ اختیا ر کرنا
ہمارا کھلم کھلا غلطی ہوگی۔ جب تک ہم سے ہر کوئی وطن عزیز کی تعمیر و ترقی
کے لیے ذاتی طور پر عقیدت مند نہ ہو اس وقت تک حالات سدھر اور ٹھیک نہیں
ہوگے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔ |