سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور
حکومت میں پاکستان نے تحریک آزادی کشمیر،کشمیر کاز سے یوں پسپائی کی راہ
اختیار کی کہ مسئلہ کشمیر پر مسلسل پیچھے ہٹتے ہوئے بھارت کو کشمیر میں
کشمیریوں کی جدوجہدآزادی پر قابو پانے کی سہولت کاری مہیا کی گئی۔مسلح
جدوجہد کے ذریعے قائم اور تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ کہلانے والے آزاد
کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کے کیمپ بند کر کے بھارت کو اجازت دے دی کہ
وہ کشمیر کی سیز فائر لائین(کنٹرول لائین) پر خار دار تاروں کی مضبوط باڑ
قائم کرتے ہوئے کشمیر کی تقسیم کو مزید مضبوط بنانے کا اہم اقدام مکمل کر
لے۔عوام کو ایٹمی پروگرام اور کشمیر کاز بچا لینے کی ’’نوید‘‘ سنانے والے
آمرپرویزمشرف نے بھارت کی رضامندی کی ’’ چاہ‘‘ میں یوں مسلسل انداز میں
مسئلہ کشمیر پر پسپائی کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا لیا کہ ملک میں ہر کوئی
یہ سوال پوچھنے لگا کہ آخر بھارت کے سامنے اس پسپائی کی آخری حد کیا ہے؟اور
مشرف حکومت سے یہ مطالبہ بھی ہوا کہ اس آخری حد کا تعین کر دیا جائے جس سے
مزید پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔جنرل(ر) پرویز مشرف اور اس کی حکومت کے وزیر
خارجہ خورشید قصوری کے بقول بھارت کے ساتھ چار نکات پر مبنی مسئلہ کشمیر کا
حل طے پا چکا تھا ،بس اس کے’’ نٹ بولٹ‘‘ کسنے باقی تھے۔لیکن وقت نے یہ ثابت
کیا کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کا سبز باغ دکھاتے ہوئے سابق آمر مشرف
سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایسے اقدامات اٹھوائے کہ جس سے بھارت کی کشمیر
پر کمزور پڑتی گرفت کو مضبوط کیا جا سکے۔اور ہمارا کمانڈو آمر حکمران آسانی
سے بھارت کے ہاتھوں یوں دھوکہ کھا گیا کہ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ
بھارت نے کس خوبصورتی سے مشرف کو سبز باغ دکھاتے ہوئے بیوقوف بنایا اور
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو پسپائی کی راہ پہ ’’ گامزن ‘‘ کرتے
ہوئے اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ جب پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات تو کرتا
ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کے جرات مند کشمیریوں کی جدوجہد ،قربانیوں،مصائب اور
وہاں کے حالات وواقعات سے واضح لاتعلقی اختیارکرنے پالیسی اپنائے نظر آتا
ہے۔یہی کشمیر گریز پالیسی ملکی میڈیا میں بھی نمایاں ہے۔
مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد اب ’’جیسی تیسی‘‘ جمہوریت کا دوسرا دور جاری ہے
لیکن اب تک پاکستان کشمیر کے حوالے سے سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کی
پالیسی پر ہی ’قائم و دائم ‘نظر آتا ہے۔دوسرے معنوں میں یہ بات اس طرح بھی
کہی جا سکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور اس سے متعلق امور اب بھی سول حکومت کے
دائرہ کار سے باہر ہیں۔اور اب پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ اور
اس حوالے سے قومی ایکشن پلان کی تشکیل و عمل کے مراحل میں ملک میں تقسیم
اختیارات کی وہ حدیں قائم کر دی گئی ہیں جن کی تمنا سابق مشرف حکومت کیا
کرتی تھی۔یہ بات بہت عجیب محسوس ہوتی ہے کہ سرکاری بیانات ،اعلانات میں
مسئلہ کشمیر سے متعلق اچھی اچھی باتیں تو کی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقدامات،پالیسی تو کیااخلاص کا بھی فقدان نمایاں
طور پر ظاہر ہو رہا ہے۔محض غیر سنجیدگی کے انداز میں ’این جی اوز‘ و دیگر
تنظیموں کے پروگرام نہ تو کشمیریوں کی مظلوم جدوجہد کی کوئی مدد کر سکتے
ہیں اور نہ ہی مسئلہ کشمیر پر ’کھانا پینا،اپنی نمود ونمائش‘ سے کشمیر کاز
کی کوئی معاونت ہوتے دکھائی دیتی ہے۔
ملک کے مقتدر اداروں کی کشمیر پالیسی ہی نہیں ہماری سیاسی کشمیر پالیسی بھی
خرابیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ بے عملی کا واضح اظہار بھی رکھتی ہے۔ملک
کے ایوان بالا سینٹ اور قومی اسمبلی میں دو کشمیر کمیٹیاں قائم ہیں۔اب ان
سرکاری کشمیر کمیٹیوں کے ارکان نے ہی ان کشمیر کمیٹیوں کو نمائشی،بے عمل
اور فضول اخراجات کا موجب بتایا ہے۔کشمیر کمیٹیوں کے ارکان کا کہنا ہے کہ
قومی پارلیمانی کشمیر کمیٹیوں پر اربوں روپے کے اخراجات ہو رہے ہیں اور ان
کی کارکردگی مایوس کن ہے۔سینیٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باز محمد
خان نے میڈیا سے گفتگو میں اعتراف کیا ہے کہ سینیٹ کی کشمیر کمیٹی 13 ارکان
پر مشتمل ہے مگر وفاقی وزیر برائے کشمیر امور خود اس کے اجلاس میں شرکت
نہیں کرتے انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا حکومت کشمیر کمیٹیوں کو
اہمیت ہی نہیں دیتی اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کمیٹیاں دکھاوے کی
ہیں۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دو کشمیر کمیٹیوں کے ارکان کی تعداد 48 ہے
اور ان پر گزشتہ دس برسوں سے قومی خزانے سے اربوں روپے صرف ہوئے ہیں جبکہ
مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ ان کی کارکردگی مایوس کن ہے ، جبکہ دونوں کمیٹیوں
کے ارکان نے خود اسے برائے نام کمیٹیاں قرار دیا ہے ۔بدقسمتی سے ملک میں
قائم پارلیمانی کشمیر کمیٹیاں شروع سے اب تک نمائشی انداز میں ہی قائم کی
گئی ہیں اور ان میں نامزدگیاں سیاسی ’ایڈجسمنٹ‘ کے طور پر ہی ہوتی چلی آئی
ہیں کہ چیئرمین کشمیر کمیٹی کی مراعات وغیرہ وفاقی وزیر کے برابر ہیں۔ملک
کی ان اہم ترین کشمیر کمیٹیوں کے اس انداز سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ
پاکستان کے سفارت خانے کشمیر کے حوالے سے کتنے سرگرم ہیں یا ان کی ذمہ
داریوں کے فہرست میں کشمیر کا مسئلہ شامل بھی ہے یا نہیں۔یہ بات بے محل نہ
ہو گی کہ حکومت نے گزشتہ دنوں ہی کشمیر کاز کے حوالے سے عالمی سطح پر بھر
پور سفارتی مہم چلانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں
آئی۔ان پارلیمانی کشمیر کمیٹیوں کے ارکان کے اس اعتراف سے یہ حقیقت کھل کر
سامنے آ گئی ہے کہ حکومت اور ارباب اختیار پاکستان کی ترجیحات میں مسئلہ
کشمیر اور کشمیر کاز کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔یہ انداز اور صورتحال کسی طور
بھی مملکت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ اس اہم ترین قومی معاملے کو
بھی غیر سنجیدگی سے ’چل چلاؤ‘کے انداز میں چلایا جا رہا ہے۔قومی پارلیمانی
کشمیر کمیٹیوں کی اس حالت زار سے اس بات کا ایک اور ثبوت ملتا ہے کہ مسئلہ
کشمیر سے متعلق حکومت کے بیانات اور ان کی عملی صورتحال میں فرق مشرق و
مغرب کی مانند معلوم ہوتا ہے۔پاکستان میں مسئلہ کشمیر کے ساتھ سرکاری سطح
پہ غیر سنجیدگی اور مسئلہ کشمیر کے اہم ترین قومی معاملے کو مفادات کی
بھینٹ چڑہانے کے اس’کھلواڑ‘ کا خاتمہ ہونا اور معاملات کو سنجیدہ اور موثر
انداز میں چلانے کے اقدامات ناگزیر ہیں کیونکہ یہ کشمیریوں کے ساتھ ایک
بھیا نک مذاق ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تقدیر سے بھی کھیلنے کے مترادف ہے۔ |