یہ جو طالبان ہیں یہ بڑے ظالمان ہیں
(Asim Kazim Roonjho, Lasbela)
رجمعت پسند اور انتہا پسند
ملاہوں نے جتنا نقصان ہمارے وطن عزیز کا کیا ہے شاید ہی اتنا نقصان سرمایہ
داروں، جاگیر داروں نے کیا ہو۔یہ سب ایک ہی چھتری کے سائے میں رہے اور ان
طبقات نے اس ملک کو کبھی بھی اس ڈھال میں ڈھلنے نہیں دیا جس مقصد کے حصول
کے لیئے یہ ملک بنا تھا اس ملک میں آج بھی ایک کسان مزدور خواتین اقلیتیں
اور دیگر پسے ہوئے طبقات محرومی اور پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔اب تو
مذہبی انتہا پسندوں کےرحم وکرم پر ہے پشاورمیں معصوم بچوں کے خُون سے ہولی
کھیلنے والوں کے دیئے ہوئے زخم ابھی تازہ تھے کہ شکار پور دھماکوں اور
معصوم انسانوں کی چیخوں سے گونج اُٹھا ابھی شکارپورسانحہ پہ کف افسوس ہورہا
تھا کہ پشاور میں ایک اور امام بارگا ہ لپیٹ میں آگئی اورفرقے کے نام
جنونیوں کا نشانہ بنی اب اس زخم پر مرہم بھی نا لگا تھا کہ لاہورکے قریب
صبح صبح ایک تعلیمی ادارے میں بم کی برآمد ہوا جسے خالی کرانے کے بعد
ناکارہ بنایا ہی گیا تھا کہ لاہور ہی میں پولیس لائین کے پاس دھماکا ہوا جس
سے 8 افراد ابتدائی طورشہید ہوئے اورکئی شدید زخمی ہوئے۔ اسی روز ژوب میں
پولیو ورکراور ایمبولینس ڈرائیور سمیت 4افراد کو لقمہ اجل بنا کر شہید
کردیا گیا۔ملک میں مذہبی انتہا پسندانہ سوچ کے حامل عناصر کے خلاف جوں جوں
کاروائی تیز ہورہی ہے یوں یوں انکی کاروائیوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ۔
اب تو قوتیں جو ان کی حمایت کرتی تھی امریکہ کے خلاف جنگ میں مارے جانے
والے کُتے کو بھی جو شہید کہتے تھے یا ریاست کی کاروائیوں میں مارے جانے
والوں کو شہید کہتے تھے آج ان رجعت پسند سیاستدانوں کی سوچوں میں بھی فرق
آگیا ہے اور وہ بھی انکی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ ناسورایسے سرایت کرگیا ہے
کہ اب اس کا علاج بہت مشکل ہوگیا ہے اور اسے کنٹرول کرنا مشکل سے مشکل
ترہوگیا ہے۔ایک غیر ملکی غیر جانبدار ادارے کی رسرچ رپورٹ 2014میں سامنے جس
میں مذہبی انتہاپسندوں کے بارے میں رائے لی گئی جس میں یہ رائےسامنے کہ
66فیصد آبادی اس سوچ کو پسند نہیں کرتی اور ملک کے لیئے سنگن خطرہ قراردیتی
ہے۔ سروے میں صرف 8 فیصد افراد نے انتہا پسندوں کے حق میں رائے دی جبکہ
33فیصد نے رائے دینے سے انکار کیا۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب نواز
حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا
گیا تھا اور پاک فوج نے جنگہوں کے خلاف کاروئیوں کا آغاز کیا تھا ۔ ایک
رائے یہ بھی ہیکہ اکثر لوگ انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کی طرف سے انتقامی
کاروائیوں کےخوف کے سبب ان کے خلاف رائے دینے سے کتراتے ہیں ۔ رپورٹ میں یہ
بھی کہا گیا کہ پاکستان میں خودکش حملوں سے متعلق آراء میں بڑی تبدیلی آئی
ہے اور صرف 3فیصد لوگ اسے جائیز قرار دیتے کہ کسی مقصد کے حصول کے لیئے
خودکش حملے کیئے جائیں یا ایسی دوسری کاروائیاں کی جائیں۔ رپورٹ میں یہ کہا
گیا کہ یہ شرح پہلے 44فیصد تھی۔ ریاست کی طرف سے انتہا پسندوں کے خلاف موثر
اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے انتہا پسندوں کو تقویت ملی اور سیکورٹی اہلکاروں
سمیت 40ہزار سے زاہد لوگوں کی جان گئی۔انتہا پسندی کے عفریت سے نبردآزما
ہونے کے لیئے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیئے سب کو ملکر اپنی اپنی ذمہ
داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔اس کے لیئے ریاست کو ان عناصر کے خلاف کاروائیوں
کو مذید وسعت دینی ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دینی
ہوگی اور تعلیمی نصاب پہ بھی کام کرنا ہوگا ایسا نصاب بنانا ہوگا جو اس کا
مقابلہ کرسکےاور انتہا پسندانہ سوچ کو انسان دوستی میں بدل سکے اور ہمیں
بھی خُوف سے نکل کر انکی مذمت کرنی ہوگی اور کہنا ہوگا کہ یہ جو طالبان ہیں
یہ بڑے ظالمان ہیں انکے وجود کو مٹادو اس وطن کو امن کی نظیر بنا دو۔ |
|