اس سے پہلے کہ لسبیلہ وانا وزیرستان بن جائے

گذ شتہ کئی سالوں سے ہم اس بات کی نشاندہی کرتے آرہے ہیں کہ لسبیلہ جرائم پیشہ عناصر کے لیئے ہمیشہ ایک محفوظ پناہ گاہ رہا ہے کیونکہ لسبیلہ میں انھیں ایسا ماحول ملتا ہے جس سے انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں رہتا۔ اس لیئے لسبیلہ میں کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کی موجودگی سے انکار نہیں یا جاسکتا اور اس کی سول سوسائٹی کی مختلف میٹنگز میں بھی ہم کھل کر اظہار کرتے رہے کہ لسبیلہ اس وقت طالبان کے لیئے محفوظ پناہ گاہ ہے ہی وہ یہاں کا رُخ کرسکتے ہیں یا یہاں موجود ہوسکتے ہیں اور ایک پلاننگ کے تحت ایک لسانی تنظیم جو آبادکاری لسبیلہ میں کررہی ہے اس کا وہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ کچھ دوستوں کی طرف یہ بھی مشورے آئے کہ اس طرح لسبیلہ میں ان کالعدم تنظیموں کے خلاف کھل کرآپ بات نہ کریں یہ ایک چھوٹا علاقہ ہے یہاں ہر بندہ دوسرے کو جانتا ہے اس لیئے اس سے آپ کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے ۔ ان دوستوں کا شکریہ جنہوں نے میری جان کی قدرجانی لیکن ہم کیا کریں ہم اپنے دل اورسوچ کے آگے کچھ نہیں کرسکتے اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بطور ایک قلم کار کےس لکھتے ہوئے میرا جو اصول رہا وہ یہی تھا کہ ایک وہ واقع ہے جو آج ہوا ہے اور آپ کو دکھائی دے رہا ہے اور دوسرا وہ واقع ہے جو کل ہوسکتا ہے جس کے اشارے مختلف صورتوں میں تحقیق سے آپ کو نظر آتے ہیں تو اس لیئے آپ اس واقع کو زیادہ اہمعیت دو جو کل ہوسکتا ہے تاکہ وہ کل محفوظ بن سکے اس لیئے میری یہ کوشش رہی کہ میں ان باتوں کو اُجاگر کروں جس سے میرے وطن اور میرے لس کو خطرہ ہے چاہے وہ لسبیلہ کے امن کے لیئے خطرہ ہوں چاہے حقوق کی پامالی کی طرف اشارے ہوں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جو ہورہا ہے اس کی طرف زیادہ جاتے ہیں کہ اس میں یہ نہیں ہوا اس میں یہ نہیں تھا اس میں یہ نہیں وغیرہ وغیرہ جو نہیں ہورہا اور جو ہوسکتا ہےاسکی طرف ہم بالکل نہیں جاتے یہی وجہ ہے کہ آج تک لسبیلہ میں آبادکاروں کی رجسٹریشن کا عمل شروع نہیں ہوسکتا ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم نہیں بن سکتا ۔مختلف ادوار میں کئی خطرناک کریمینل لسبیلہ سے گرفتار ہوئے جو کئی سالوں سے یہاں پناہ لیئے ہوئے تھے اور حب میں تو مختلف ادوار میں مختلف کالعدم تنظیموں کی طرف سے مختلف واقعات کی ذمہ داریاں قبول کی جاتی رہی ہیں حال ہی میں بنوں جیل سے فرار ہونے والے اقدام قتل کے خطرناک دہشت گردحب سے گرفتار ہوئے۔ اس کے دو ہفتے کے اندر ہی اُوتھل میں ایک موبائیل ٹاور کو نشانہ بنایا گیاجو کہ اُوتھل میں بلکل آبادی کے وسط میں ہے ۔ اب بھی ہم ان مسائل پر بالکل خاموش ہیں اور ہم نے اپنے حقوق کو چھوٹی چھوٹی نوکریوں تک محدود رکھا ہوا ہے۔ اس وقت کراچی میں کالعدم تنظیموں کا گہرا تنگ کیا جارہا ہے جس سے ان کے لیئے محفوظ پناہ گاہ لسبیلہ ہی ہے اور یہ بھی اطلاع ہے کہ مختلف کالعدم تنظیموں کی طرف سے حب میں چاکنگ بھی ہوئی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کوئی بھی ابھی تک ایسی پالیسی انتظامیہ کی طرف سے نہیں آئی جس سے یہ جانا جائے کہ کالعدم تنظیمیں اور دہشت گرد لسبیلہ میں پناہ نہیں لے سکیں گے۔ ہم نے پہلے بھی ایک بار کہا کہ لسبیلہ میں آبادکاروں کی رجسٹریشن کرکے انھیں مخصوص کارڈ جاری کیئے جائیں اور جہاں سے وہ آئے ہیں ان تھانوں سے ان کی مکمل جان کاری حاصل کی جائے۔ اس سے پہلے کہ لسبیلہ وانا وزیرستان بن جائے یا کراچی اور بلوچستان کے ان علاقوں کی طرح بن جائےجہاں اہل علاقہ جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہم سب کو ملکر اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوگی اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا تو پھرہمارا کل تاریک ہوگا اور آنے والی نسلیں کبھی بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
 
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 17 Articles with 13866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.