مسلمانوں کو ایس سی ایکٹ کے دائرے میں لانے کی ضرورت

ڈاکٹر ایم اعجاز علی

مظفر پور میں ہوئے حالیہ حادثہ کو دنگے سے زیادہ لوٹ کہا جائے تو معقول ہوگا ۔حالانکہ 4-5جانیں بھی گئیں ہیں ‘ لیکن حادثہ کے تجزیہ سے یہی ثابت ہوتا ہے ایک خاص مذہبی فرقہ کی آبادی کو غیر سماجی عناصر نے گھیر کر پہلے ٹوٹا پھر گھروں کو آگ کے حوالے کر دیا تھا۔وہاں کی حالت دیکھ کر مجھے وہ بات یاد آتی ہے جب ڈاکٹر امبیڈکرنے1930کے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں اچھوت سماج کی حالات کا تذکرہ کرتے وقت کچھ اسی طرح کے واقعات کو مثال کے طور پر پیش کیا تھا۔ مطلب یہ کہ اچھوت سماج کے ساتھ جس طرح کا سلوک پہلے ہوا کرتا تھا ویسا ہی سلوک اب مسلمانوں کے ساتھ ہونے لگا ہے۔ اُترپردیش کے مظفرنگر میں بھی اسی طرح کا سین دیکھنے کو ملے ملا تھا‘ البتہ مظفرپور سے کئی گنابڑے پیمانے پر ہوا تھا جبکہ تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کو لمبے عرصے تک کیمپوں میں پناہ گزین ہونا پڑا تھا۔ وہاں بعض گاؤں کے مسلم محلوں کی ایسی حالت کر دی گئی گویا وہاں آگے دوبارہ بسنے کی اجازت نہ ملنے والی ہو۔ آخر یہ کب تک چلے گا۔ ملک و ملت کو کب تک نقصان اُٹھانا ہوگا۔ 42000دنگے ملک کے اندر ہو چکے ہیں ۔ووٹ کی خاطر ابھی بھی جب چاہیں سیاسی حضرات آسانی سے دنگا کروا سکتے ہیں جبکہ دلتوں کے خلاف دنگے فساد دن بدن کم ہوتے چلے گئے ہیں۔ وجہ بالکل صاف ہے دستوری نظام میں قانون ہی تو سب کچھ ہوتا ہے ۔ دلتوں کو ظلم و نا انصافی و فساد سے نجات دلانے کے لئے انسداد تشدت ایکٹ نامی قانون کے دائرے میں اُنہیں رکھاگیا ہے۔ انگریزی حکومت کے ذریعہ شروع کردہ اس ایکٹ کے دائرے میں مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کے کمزور طبقات کو بھی رکھا گیا تھا۔ یہ سلسلہ اگر جاری رہتا تو اتنی بات طے ہے کہ بعد آزادی مسلمانوں کو اتنے زیادہ فسادات کو نہیں جھیلنا پڑتابلکہ دن بدن اس کی تعداد میں کمی آتی ۔ 90کی دہائی میں تو فسادات میں کمی ضرور آئی تھی لیکن اس کی وجہ سماجی انصاف کے نام پر سیاست کی سمت میں تبدیلی کی گئی تھی جو پھر سے دھیرے دھیرے دم توڑنے لگی اور اب جب سے سنگھ پریوار اقتدار میں آئی ہے ایسا لگتا ہے کہ پھر سے وہی دورلوٹ کر آنے والی ہے جسے سماجی انصاف کی لہرنے 90کی دہائی میں مات دیا تھا۔ بہر حال سماجی انصاف کا دور رہے نہ رہے‘ دنگائیوں کا دور آئے اور جائے لیکن جب تک انسداد تشدد ایکٹ کے دائرے میں دلت سماج رہے گا کوئی بھی عہد میں اُس پر ظلم نہیں ہو سکتا ہے۔ فی الوقت تو یہ حالت ہے کہ دلت کے خلاف بد کلامی کرنے والاغیر ضمانتی وارنٹ کا حق دار ہو جاتا ہے اور اسے ضمانت ہائی کورٹ سے ہی ملتا ہے ورنہ جیل جانا تو طے ہے لیکن دفعہ 341پر 1950میں مذہبی قید لگا کر جب سے مسلمانوں کو انسداد تشدد ایکٹ سے باہر کیا گیا‘ تب سے دنگائیوں کو مسلمانوں کے خلاف رائٹ کرانے میں آسانی ہوگئی۔حالانکہ ہندوستانی عوام ہندو مسلمان کے نام پر فساد پسند نہیں کرتا ہے لیکن ملک کے اندر ہی ایک ایسی جماعت ہے جس کا کام فساد کراناہی ہے۔ موقع دیکھ کر پہلے چھیڑخوانی کرواتا ہے اور اس کے بعد افواہوں کا بازار اتنا تیز کرواتا ہے کہ ڈرو خوف سے لوگ اپنے ساتھ روزانہ اُٹھنے بیٹھنے والوں اور پڑوسیوں پر بھی شک کرنے لگتے ہیں اور اسی ماحول میں تیل چھڑک کر دنگا بھڑکا دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ناکامی جھیل رہی سرکار بعد میں ریلیف کے کام کے ساتھ چانچ پڑتال کیس وغیرہ سب کا انتظام ہوتا ہے لیکن تب تک سیاسی فائدہ اُٹھانے والا اپنا فائدہ اُٹھاکر نکل جاتا ہے۔ چاہے مذہب کے نام پر سماج میں پڑا دڑار ختم ہونے میں دہائی کیوں نہ گذر جائے۔ لوگ سمجھیں یا نہیں لیکن اسی سیاست میں لمبے عرصے سے پھنسے رہنے کی وجہ کر ملک کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا ہے کیونکہ یہ بنیادی مسائل مثلاً غریبی‘مہنگائی’بے روزگاری ‘ بھرشٹاچار‘ کے چنگل میں بُری طرح سے پھنس گیا ہے اور دھیرے دھیرے لگتا ہے کہ سول وار( Civil War) کی طرف جا رہا ہے۔ آزادی کے 68سال بعد بھی اگر سیاسی حضرات ملک پر ان دنگوں کے بُرے اثرات کو نہیں سمجھ رہے ہیں تو افسوسناک ہے۔ سوال وار کی طرف ملک کے بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے پہلے دنگا ، فساد پر روک لگانا ہوگا۔ دنگا فساد پر روک ایک ہی شرط پر لگ سکتا ہے کہ جب مسلمانوں کو بھی انسداد تشدد ایکٹ کے دائرے میں لایا جائے۔ یہ طے شدہ فلسفہ ہے کہ عوامی مفاد میں اچھا قانون بنانا اور اس پر سختی سے عمل کرنا ہی وہ وا حد راستہ ہے جو انسانو ں کے مزاج میں بھی سدھار لاتا ہے اور مستقل طور پر لاتا ہے۔
Azam nayyar
About the Author: Azam nayyar Read More Articles by Azam nayyar: 12 Articles with 8433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.