مودی کا اصولی بیان٬ مانجھی کی غیر اصولی بغاوت

وزیراعظم نریندرمودی نے کل بروز منگل (17فروری) نئی دہلی میں عیسائیوں کے ایک بڑے جلسہ میں بڑی من بھاون باتیں کہہ ڈالیں۔ مثلاً یہ کہ ہندستان میں مذہبی رواداری ایک طویل تاریخ ہے۔ ہرشخص کو اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کا حق ہے، اور یہ کہ ان کی سرکار دین دھرم کے نام پر کسی بھی طرح کا تشدد برداشت نہیں کریگی۔وغیرہ۔ان کی یہ تقریر اس تبصرہ کے ساتھ اخباروں کی شہ سرخی بنی کہ مودی نے9 ماہ بعد اپنی خاموشی توڑی۔

اسی کے ساتھ یہ خبربھی آئی کہ ان کی سرکار نے مظفرنگر تشدد کے ایک ملزم سریش رانا (تھانہ بھون) کو زیڈ سیکیورٹی دیدی ہے ۔ اس سے قبل ایک دوسرے ملزم سنگیت سوم کوبھی زیڈ سیکیورٹی دی جاچکی ہے۔ گورکھپور کے دریدہ دہن لیڈر اویدیہ ناتھ کو بھی جس نے یوپی میں ضمنی انتخابات کے دوران مسلم اقلیت کے خلاف مسلسل زہراگلا تھا،زیڈ سیکورٹی دی جا چکی ہے۔ ان کی پارٹی مظفرنگرفساد کے کھلے ملزموں کو عوامی جلسوں میں اعزاز سے نوازچکی ہے۔ ان کو لوک سبھا اور اسمبلی کے ٹکٹ دئے گئے ۔ ان کووزیربنایا گیا ۔ ان میں سے ایک کو مسلم یونیورسٹی کورٹ کے لئے نامزد کیا۔ مودی کے اس عندیہ میں جو انہوں مذکورہ تقریرمیں ظاہر کیا ہے اوران کی سرکار کے اس طرح کے اقدامات میں دن کی روشنی اور رات کی تاریکی کا تضاد ہے۔ ان کی پریوار کے لوگ ان کے برسراقتدارآتے ہی مذہبی جارحیت کا مظاہرہ کبھی ’لوو جہاد‘ کے اور کبھی ’گھرواپسی ‘ کے نام پر کرتے رہے ہیں، لیکن نہ تو مودی بولے اور نہ ان کی سرکار نے اس کے خلاف کوئی اقدام کیا نہ کوی سخت موقف اختیارکیا۔ اس کے باوجود ہم مودی جی کی اس بیان کا تقریر کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کو بس یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے ، اس پر اسی اسپرٹ کے ساتھ عمل بھی ہوگا تب کچھ بات بنے گی۔ ورنہ ان میں اوران کے پیش رو حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائیگا۔ مودی صاحب نے بجا فرمایا کہ ہمارا آئین کی بنیادیں ہماری تاریخ اورثقافت پر قائم ہیں، جس کا سنہرااصول مذہبی اور ثقافتی رواداری ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ جس پریوار کے پروردہ ہیں اور جس کے کاندھوں پرسوار ہوکر رائے سینا ہل پہنچے ہیں، اس کے قول و عمل اور خود ان کا ماضی اس نظریہ کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ لیکن اگرانہوں نے جوکچھ کہا ہے اس پر ان کا دل بھی جم گیا ہے، تو پھر اس پر سختی سے عمل میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے۔

اس موقع پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ان کے ذہن میں یہ نئی روشنی دہلی کے اسمبلی انتخابات کی بدولت ہے یا ان کے پیش نظر کیرالہ اسمبلی کا انتخاب ہے جو سنہ 2016 میں ہونے والا ہے، جہاں آج تک ان کی پارٹی صفر سے آگے نہیں بڑھی ۔ ہم بس یہ دعا کرتے ہیں کہ واقعی ان کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا ہو کہ ملک کی بہبود مذہبی جنون میں نہیں رواداری اور’ سرودھرم سنبھاؤ ‘میں ہے، ’’ہندستان ہندو راشٹرا‘‘ کے نعرے میں نہیں۔

مانجھی کی غیراصولی بغاوت
بہار کی رواں اسمبلی کی مدت کار اسی سال 29 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔ چنانچہ اگلی اسمبلی کا چناؤاکتوبر، نومبر میں ہونا چاہئے۔لیکن پارٹی قیادت سے وزیراعلا جیتن رام مانجھی کی غیراصولی اورغیراخلاقی بغاوت نے ایک نئی صورت حال پیدا کردی ہے۔اشارے یہ تھے کہ وہ یہ کھیل بھاجپا کی شہ پر کھیل رہے ہیں، لیکن دہلی میں بھاجپا کی تاریخی شکست کے بعدسیاسی ماحول اچانک بدل گیا ہے۔ اب نہ مانجھی کے لئے یہ ممکن رہا کہ پارٹی میں اپنے حامیوں کی موجودہ تعداد(تقریباً 12)میں اضافہ کرلیں اورنہ بھاجپا اس ماحول میں کوئی سیاسی خود کشی کرنے کے لئے آمادہ نظرآتی ہے۔ صورتحال کے تجزیہ سے قبل حالیہ سیاسی واقعات پرایک نظر ڈال لی جائے۔

جے ڈی یو مرکز میں این ڈی اے میں اس زمانے میں شریک ہوئی جب بھاجپا کا مطلب اٹل بہاری باجپی اور لال کرشن آڈوانی ہوا کرتا تھا۔ اس نے سنہ 2010 کا اسمبلی چناؤ بھی بھاجپا کے ساتھ مل کر این ڈی اے کے پلیٹ فارم سے لڑا اورحکومت بنائی۔ اس چناؤمیں 115 ممبران کے ساتھ جے ڈی یو، سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ بھاجپا کو 91سیٹیں ملیں ۔ (جے ڈی یو کو 27کافائدہ اور بھاجپا کو 36 سیٹوں کا فائدہ ہوا) جبکہ لالویادو کی آرجے ڈی کو 22،اس کی حلیف پاسوان کی ایل جے پی کو 3اورمرکز میں حکمراں کانگریس کوصرف4 سیٹیں ملی تھیں۔ (نقصان بالترتیب: 32، 7 اور 5 سیٹیں)

چناؤ کے بعد نتیش کمار وزیراعلا بنے اور بھاجپا کے نرم گفتار لیڈرسشیل کمارمودی نائب وزیراعلا بنے۔ ابتدا میں یہ سرکاراچھی طرح چلتی رہی ۔ریاست میں اغوا کا وہ دھندہ جو آرجے ڈی کی دورمیں شباب پر تھا ختم ہوا، کرپشن میں کمی آئی، عوام کو خوف کے ماحول سے نجات ملی، بچیاں بے خوف سرکار سے ملی سائکلوں پر اسکول جانے لگیں، ترقیاتی کام خوب ہوئے۔ روزگار اتنا نکلا کہ دہلی اور پنجاب تک میں کام کرنے والے بہار کے مزدور پیشہ خاندان وطن لوٹ گئے۔ پنجاب میں توزرعی مزدوروں کی سخت قلت ہوگئی۔ اگرچہ بھاجپا اس سرکار میں شامل تھی مگراس نے اپنا فرقہ ورانہ ایجنڈا پس پشت ڈال دیا تھا۔ اس اتحاد پر زوال اس وقت آیا جب 2014 کے پارلیمانی چناؤ سے قبل آڈوانی کی مخالفت کے باوجود آر ایس ایس کی پس پردہ ہدایت پر بھاجپا نے نریندرمودی کاچہرہ آگے کردیا۔ چنانچہ جے ڈی یو نے اپنا سیکولر چہرہ بچائے رکھنے کے لئے 16جون 2013 کو این ڈی اے سے علیحدگی اختیارکرلی۔لیکن بہار کے رائے دہندگان نے جے ڈی یو کی اس ’قربانی ‘ کو شرف قبولیت نہیں بخشا اور لوک سبھا انتخابات میں مودی کا جادو چل گیا۔ ریاست میں پارلی منٹ کی40میں 22 سیٹیں بھاجپا نے اور9اس کے اتحادیوں نے جیت لیں۔ حکمراں جے ڈی یو کو صرف دوسیٹیں ملیں۔ کانگریس کو بھی دو پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ لالو کی آر جے ڈی کو 4سیٹ ملیں مگر ان کی بیوی رابڑی دیوی چناؤ ہار گئیں۔

ان نتائج کی بظاہر اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نتیش کمار نے وزیر اعلا کا منصب چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔انہوں نے یہ تدبیر اس لئے بھی اختیار کی اسمبلی میں اکثریت کے لئے دیگر پارٹیوں کی حمایت درکار تھی جس کی ان کے وزیراعلا رہتے ہوئے امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک معتمد خاص جیتن رام مانجھی کو اپنی کرسی پر بٹھادیا۔اس کی ایک مصلحت یہ تھی کہ مانجھی ایک انتہائی پسماندہ طبقہ کے فرد ہیں۔ خیال یہ تھا ان کی سرکار گراکر گر بھاجپا اور دیگر پارٹیاں ان طبقات کی ناراضگی مول نہیں لیں گی۔ چنانچہ جب بھاجپا نے مطالبہ کیا کہ نئے وزیراعلا اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کریں تولالو یادو نے وہ چال چلی جس کا اندازہ شائد نتیش کماراورشرد یادو کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ انہوں نے جے ڈی یوسرکار کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا۔ کانگریس نے ان کی تقلید کی۔ اس طرح جے ڈی یو کی سرکار بچ گئی۔اس وقت اگر یہ سرکار گرجاتی اورفوراً نئے چناؤ ہو جاتے ، قیاس یہی ہے کہ پٹنہ میں سرکار بھاجپا کی بن جاتی۔

لوک سبھا چناؤ میں دیکھا یہ گیا کہ دیگر پسماندہ طبقات نے بھی بھاجپا کو ووٹ دیا۔ تاہم مانجھی برادری جے ڈی یو کے ساتھ رہی۔ نتیش کمار شاید چاہتے یہ تھے کہ پارٹی سے اس برادری کی وابستگی کا انعام ایک مانجھی کو وزیراعلا بناکر دیا جائے، حالانکہ جیتن رام مانجھی ہرگز ایسے قد آور لیڈر نہیں تھے کہ وزیراعلا بنائے جاتے۔

ابتدائی دنوں میں تو مانجھی اپنے سیاسی سرپرست نتیش کمار کے مشوروں پر توجہ دیتے رہے۔ لیکن جلد ہی انہوں نے ایسی راہ اختیارکرلی جس سے پارٹی قیادت کو یہ محسوس ہوا کہ نتیش کمار کی سرکار نے سبھی طبقات کو ساتھ لیکر پارٹی کو جو وسیع بنیاد فراہم کی تھی ،اس کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ساتھ ہی مانجھی کی قربتیں بھاجپا کے ساتھ بڑھتی ہوئی نظرآئیں۔ وہ پارٹی کو نظرانداز کرنے لگے اور کئی مرتبہ بلا ضرورت بھرے جلسوں میں مودی کی تعریف کی جس سے یہ صاف نظرآنے لگا کہ مانجھی اپنے سیاسی حقیقت کو نظرانداز کرکے خودستائی اورطالع آزمائی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ ان کے کئی بیانات اوراقدامات پر سخت تنقید ہوئی۔ ان کے بعض اقدامات سے ایسا محسوس ہوا کہ وہ پوری ریاست کے وزیراعلا نہیں ، ان کو سبھی طبقات کی بہبود کی فکر نہیں، صرف اپنے مخصوص طبقہ کی ہی ان کوفکرہے۔ چنانچہ اندیشہ یہ ہوا کہ اگر ان کی قیادت میں ہی چناؤ لڑا گیا تو پارٹی کو نقصان پہنچے گا اوراس کا فائدہ بھاجپا کو پہنچ جائیگا۔ اس لئے مناسب یہ سمجھا گیا کہ ان کی جگہ دوبارہ نتیش کمار کوسرکار کی کمان سونپ دی جائے۔ لیکن بھاجپا کی قربتوں نے ان کے اندرایسی ہوا بھردی کہ انہوں نے پارٹی صدر کی بلائی ہوئی میٹنگ میں شرکت نہیں کی اورجب پارٹی کے 115میں سے 97ممبران نے ان کی جگہ نتیش کمارکو اسمبلی پارٹی کا لیڈرچن لیا تو اس فیصلے کو قبول کرنے کے بجائے دہلی دوڑ لگائی تاکہ بھاجپا کی حمایت حاصل کی جاسکے۔

آثار یہ کہتے ہیں کہ جے ڈی یو کی اس داخلی لڑائی میں بھاجپا نے بی جمالو کا کردارادا کیا اور جلتی میں تیل چھڑک کر دور سے تماشادیکھنا چاہا۔ دشمن کے گھرمیں لڑائی ہو اورایک فریق صاحب سلامت کرنے آپہنچے تو اس کو دھتکارتا کون ہے؟ پہلے تو مانجھی کو سہارا دینے کا اشارہ ملا۔ آنافاناً راجناتھ سنگھ نے ملاقات کا شرف بخشا اور نریندرمودی کے پاس بھی وقت نکل آیا۔ اندازہ شائد یہ تھا بھاجپا کی تائید کا اشارہ پاکر جے ڈی یو کے 40-30ممبران مانجھی کے ساتھ آجائیں گے، مگر ان امیدوں پر کیجریوال کی جھاڑوپھرگئی۔ دہلی کے نتائج آتے ہی یہ صاف ہوگیا کہ مودی نے ’اچھے دنوں‘ کا جو مایا جال بچھایا تھا، عوام کا اس سے موہ بھنگ ہوگیا۔ اس لئے ادھر تو جے ڈی یو کے وہ ممبران ٹھٹکے جوپالا بدلنے کو نیم آمادہ تھے اوردوسری طرف بھاجپا پر ان کے حلیفوں کی طرف سے لعن طعن ہوئی تو کچھ وہ بھی ٹھٹکی۔ شیوسینا نے، جو مرکز اور مہاراشٹرا میں اس کی اتحادی ہے کہہ دیا کہ مانجھی کی تائید سخت پاپ ہے۔ مانجھی برسرعام اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے سرکاری کاموں میں کمیشن کھایا ہے۔ اس لئے وہ کرپٹ اور ناعاقبت اندیش لیڈر ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھا کی مانجھی کی پشت پناہی بھاجپا کیسے کررہی ہے جب کہ اس نے کرپشن کے خلاف عوام میں غم و غصہ بھرکر چناؤ جیتا ہے؟

مغربی بنگال کی وزیراعلا ممتا بنرجی اور یوپی کی سابق وزیراعلامایاوتی نے بھی مانجھی کی تائید پر بھاجپا کو آڑے ہاتھوں لیا۔مایاوتی کا یہ موقف اس لئے اہم ہے کہ وہ واحد ایسی دلت لیڈرہیں جس نے اپنے بل بوتے پر یو پی جیسی بڑی ریاست میں سرکاربنائی اورچلائی۔

جیتن رام مانجھی اتوار کو پھردہلی آئے تھے اور یہاں انہوں نے بھاجپا لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ادھر بہار کے بھاجپا لیڈروں نے بھی امت شاہ سمیت مرکزی لیڈروں سے صلاح و مشورہ کیا ہے۔ ان میں کوئی ایسا جوش وجذبہ نظرنہیں آیا جس سے سمجھا جاسکے کہ 20 فروری کو اگراسمبلی میں طاقت آزمائی ہوئی توبھاجپا کمزور مانجھی کو بچانے آئیگی اور اگرآئی تو منھ کی کھائے گی۔ وہ اس خجالت میں پڑنا نہیں چاہے گی۔ دراصل دہلی کے انتخابی نتائج نے بھاجپا کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ وہ نہیں چاہے گی کہ اس سارے کھیل میں کھل نائک کے رول میں بے نقاب ہو، جس کا چناؤ میں نقصان پہنچے۔چنانچہ وہ ایک کمزورسرکار کی حمایت کرکے گناہ بے لذت میں ملوث نہیں ہوگی۔

کوئی اعتراف کرے یا نہ کرے،ایسے مواقع پر ممبران اسمبلی کی خرید فروخت ہوتی ہے۔ اب بات لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں جاتی ہے ۔ اوریہ کھیل کالی دوت سے کھیلا جاتا ہے۔ جیتن رام مانجھی کی نئی سہیلی بھاجپا اس پوزیشن میں نہیں کہ چند ماہ کی حکومت کے لئے کوئی بڑاکھیل کھیلے۔آخر چند ماہ بعد چناؤ بھی تولڑنا ہے جو بغیردولت بہائے ممکن نہیں۔ البتہ کیونکہ مانجھی کو جے ڈی یو نے برطرف کردیا ہے، اس لئے بھاجپا آئندہ چناؤ سے پہلے ان کو اپنی پہلو میں جگہ دیگی تاکہ مانجھی برادری کا ووٹ ملنے کی امید بندھ جائے۔ ہم گورنر کے رول پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ کیسری ناتھ ترپاٹھی بھاجپا کے منجھے ہوئے لیڈر رہ چکے ہیں۔ ان کو اسپیکر کے منصب کا بڑا تجربہ ہے۔وہ نہ تو قانون کی ان دیکھی کریں گے اورنہ کوئی ایسی اخلاقی جرأت کریں گے جس کا مطالبہ نتیش کمارکررہے ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام بھی نہیں کریں گے جس سے بھاجپاپر سیاسی زدپڑے۔ ہمارا قیاس یہ ہے کہ 20فروری کو مانجھی طاقت آزمائی سے پہلے ہی مستعفی ہوجائیں گے اورنتیش کمارکے لئے راستہ کھل جائیگا ۔ مگراس بار یہ راستہ بڑا کٹھن ہوگا۔ وقت کم ہے۔ وہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکیں گے۔ علاوہ ازیں ابھی سابق جنتا پارٹی کے دلوں کے انضمام کی تجویز بھی ادھر میں ہے۔ ان کو لالویادو کے دباؤ سے بھی نمنٹنا ہوگا جو یہ چاہیں گے کہ آئندہ اسمبلی چناؤ میں ٹکٹوں کے بٹوارے میں ان کا پلڑا بھاری رہے۔ رہی بیچاری کانگریس تو اس کے لئے امید کی کوئی کرن نظرنہیں آتی ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے پارٹی ریاست اورمرکز دونوں جگہ موثرقیادت سے محروم ہوچکی ہے اورعوامی مسائل سے اس کی دلچسپی بھی معدوم ہوچکی ہے۔(ختم)
Cell: 9818678677
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180621 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.