مختصر تاریخِ دلی‘جغرافیہ‘شرح ِ مذاہب

مختصر تاریخِ دلی‘جغرافیہ‘شرح ِ مذاہب ‘ایجوکیشن ‘شرح ِجرائم‘وزرائے اعلی ‘عامی آدمی پارٹی‘بی جے پی اور مستقبل

دریائے جمناکے کنارے یہ شہر چھ صدیاں قبل مسیح میں آبادہوا۔دہلی جسے مقامی طورپر دلی کہاجاتاہے اسکارقبہ 1,484.0km2 ہے۔گورمکھی رسم الحظ والی پنجابی اورہندی یہاں سب سے زیادہ بولی جاتی ہیں۔۔ہندوستان کے شمال میں 28.61 n 77.23Eطول البلد وعرض البلدپرواقع ہے۔مشرق میں دلی کی سرحد ریاست اترپردیش اورشمال ‘مغرب اورجنوب میں ریاست ہریانہ سے ملتی ہے۔مغلیہ عہدمیں جلال الدین اکبر کا پایہ تخت رہا۔ پھر 1857سے1649 تک مغلیہ سلطنت کا دارلحکومت بنا۔1911میں جارج پنجم نے اسے برصغیر کادارالحکومت قراردیا‘تقسیم ہند کے بعد سے اب تک یہ بھارت کادارلحکومت ہے۔2011کی مردم شماری کے مطابق اسکی آبادی 16,753,235ہے اورشرح خواندگی 86.34فیصد ہے۔اسکے اضلاع کی تعداد گیارہ ہے۔دہلی کی تاریخ میں آبادی کا سب سے زیادہ اضافہ تقسیمِ برصغیر کے وقت ہواجب 285,000افرادنے دہلی کارُخ کیا۔یہ دنیاکاآٹھواں اوربھارت کا دوسرابڑاشہر ہے۔اس کی تاریخی عمارات میں قطب مینار‘لال قلعہ اورمسجد قوت اسلام مسلمانوں کے فن تعمیر کا منہ بولتاثبوت ہیں۔ہندؤوں کا سب سے بڑا مندربھی اسی شہر میں واقع ہے۔اسکے علاوہ ہمایوں کامزار‘کناٹ پیلس‘انڈیاگیٹ اورجامع مسجد دلکش وحسین عمارات ہیں۔دلی سے گزرنے والی واحد بڑی یمنا ندی‘ ہندؤوں کی مقدس ندی ہے۔یمنا کے سیلابی میدان اور دلی کی ناہموار چوٹیاں اسکے دونمایاں جغرافیائی پہلو ہیں۔archaelogical survey of indiaنے دہلی میں موجود بارہ سوعمارات کو تاریخی ورثہ اورایک سوپچھترکو قومی یادگارقراردیا۔بہائیوں کا 1986میں مکمل ہونے والاlotus templeشہرکاایک خوبصورت مقام ہے ۔اس دیدہ زیب عمارت کی شکل پھول کی طرح ہے۔

دہلی میں ہندومت 81فیصد‘اسلام9.9فیصد‘سکھ پانچ فیصد‘ جین ازم 1.1فیصد اورباقی مذاہب1.2فیصد ہیں۔
انڈیاکے پرائیویٹ سکول اردو یا انگلش کو بطور نصاب استعمال کرتے ہیں۔ان کو تین انتظامی ادارے کنٹرول کرتے ہیں‘council for the indian school certificate examination‘central board for the secondary education اورنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگnios(‘۔2004اور2005کی رپورٹ کے مطابق پرائمری سکول کے طلباء کی تعداد 15.29لاکھ‘مڈل سکول کے طلباء کی تعداد8.2لاکھ اورمیٹرک کے طلباء کی تعداد6.69لاکھ تھی۔2006تک دہلی میں ایک سوپینسٹھ کالج اور آٹھ یونیورسٹیزتھیں‘جن میں پانچ میڈیکل کالج اور آٹھ انجینئرنگ کالج شامل تھے۔1999میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی کوسائنس اورٹیکنالوجی میں ایشیاکاچوتھابہترین کالج قراردیاگیا۔سال دوہزار آٹھ میں دہلی کی 16فیصد آبادی گریجویٹ تھی۔دہلی کے بڑے ہسپتالوں میں aiims‘بی ایل کے ‘اپولو‘ سماء ‘ میکس‘ فورٹس‘ آرایم ایل اورسرگنگارام ہسپتال شامل ہیں۔

یکم نومبر 1956سے لے کر 2دسمبر 1993تک یعنی 37سال دہلی کاکوئی چیف منسٹر نہیں تھا۔نومبر 1993سے نومبر1998تک بی جے پی کے مدن لال وزیراعلی رہے( (bjp 49۔دوسریlegaslative اسمبلی کی وزیراعلی انڈین نیشنل کانگریس کی شیلاڈکشٹ تھی (inc52)جبکہ 17نشستیں حاصل کرنے والی bjpکے مدن لال لیڈر آف اپوزیشن بنے۔تیسری مرتبہ legaslativeاسمبلی کی شیلاڈکشٹ وزیراعلی بنی تو کانگریس کے پاس 47نشستیں تھیں اور bjpمحض 20نشستیں حاصل کرپائی۔اکتوبر 2008سے نومبر 2013میں ایک بار پھر قدرت کانگریس پر مہربان ہوئی اور اس بار اس کی نشستیں کم ہو کر 43رہ گئیں اوربی جے پی کو 23نشستیں ملیں۔دسمبر 2013سے فروری 2014تک اروند کجریوال وزیراعلی رہے۔انہوں نے 49دن حکومت کی ان سے پہلے دلی میں کم عرصہ حکومت کرنے کا ریکارڈ سشما سوراج کے پاس تھا‘جو 52دن وزیر اعلی رہی تھیں۔

اروند کجریوال کا چہرہ اسوقت سامنے آیا جب اناہزارے نے india against corruptionتحریک کا آغاز کیا۔نومبر 2011میں aapکی بنیاد رکھی گئی اور دسمبر 2013میں اس جماعت نے اپنی 28اور کانگریس کی آٹھ نشستوں کے ساتھ حکومت بنائی‘اسطرح دلی کی تاریخ میں یہ ایک ایسی جماعت بن گئی جس نے اپنے وجود میں آنے کے بعد نہایت ہی مختصر عرصئے میں حکومت قائم کی۔ اپوزیشن میں bjpکے پاس 31سیٹیں تھیں ۔اروند کجریوال نے یہ کہتے ہوئے فروری2013میں استعفی دے دیا تھا کہ عام آدمی پارٹی کے پاس jan lok pal بل کو منظور کرنے کیلئے اکثریت نہیں ہے اسلیئے حکومت میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔انکے استعفی کے بعد دلی میں17فروری کو صدارتی راج نافذ ہو گیاجوکہ کم وبیش ایک سا ل قائم رہا۔4 نومبر 2014کو دلی کے گورنر نجیب جنگ نے اسمبلی تحلیل کر دی اور انڈین الیکشن کمیشن کے سربراہ وی ایس سمپت نے7فروری کودلی کی 70نشستوں پر الیکشن کروانے کا اعلان کیا ‘12نشستیں مخصوص ہیں۔

عام آدمی پارٹی کا خمیر india against corruptionتحریک سے اُٹھا‘جسے 2011میں اناہزارے نے شروع کیا تھا۔جس میں اروند کجریوال‘منیش سسوڈیااورپولیس آفیسرمس کرن بیدی اسکے رفیق تھے۔کجریوال کاخیال تھا کہ سیاسی قوت کے بغیر جان لوک پال بل کو منظورکرانااورکرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے ‘جبکہ اناہزارے اپنی تحریک کو سیاست سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔26نومبر 2012کو عام آدمی منظرِعام پر آئی اور نہایت ہی مختصرعرصہء میں حکومت تک پہنچنے والی پہلی جماعت بن گئی۔
اس مربتہ دلت ووٹ کم وبیش عام آدمی پارٹی کو ملا۔ ایک اندازے کے مطابق اس الیکشن میں بیس لاکھ ووٹ کا اضافہ ہواجو تقریباعام آدمی پارٹی لے اُڑی۔عام آدمی پارٹی دلفریب نعرے لے کر میدان میں اُتری تھی‘جس میں سستی بجلی‘دہلی کا اپنا پاوراسٹیشن ‘بیس ہزارلیٹرشفاف پانی کی فراہمی ہر گھرپر‘کچے مکانات کو پکا کروانا‘نئے کالجز اوریونیورسٹیوں کا قیام‘آلائشوں سے پاک سیاست‘جان لوک پال بل کی منظوری اور دہلی کو بدعنوانی سے پاک ریاست بنا کر سستا اورفوری انصاف مہیاکرناشامل ہے۔اگر اے اے پی کی گزشتہ انچاس دن کی حکومتی کارکردگی دیکھی جائے تو اسکے وزیر صحت نے انچاس دن میں ہسپتالوں کے دس وزٹ کیئے ‘پانی کی فراہمی شروع کی‘ایسے اقدامات اُٹھائے جس سے سی این جی کی مد میں تیس فیصدکمی ہوئی۔عام آدمی پارٹی نے برسراقتدار آتے ہی چارسوسے زائدیونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دینے کا اعلان کیا‘ایسے گھروں کو بیس ہزارلیٹرشفاف پانی مفت دینے کا کام شروع کیا جن پر میٹر انسٹال تھے ‘اضافی پانی استعمال کرنے والوں کو دس فیصد بل جمع کرواناہوگا۔انہوں نے پاورڈسٹری بیوشن کمپنیوں کاآڈٹ کروانے کے آڈر جاری کیئے۔

گزشتہ حکومت میں بیس جنوری کو اروند کجریوال اور انکے وزراء نے ریلی بھاون پر ہوم منسٹری کیخلاف احتجاج کیا۔اروند کجریوال نے اپنی تقریر میں کہا تھاکہ انڈیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی وزیراعلی اپنی سرکاری مطالبات کیلئے شفاف انکوائری کامطالبہ کر رہاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ احتجاج سے انکے کام پر کوئی فرق نہیں پڑے گاکیونکہ وہ اپنی فائلز اپنے ساتھ لائے ہیں اوردوران احتجاج اپناکام بھی جاری رکھیں گے۔انکا موء قف تھا کہ دہلی پولیس کو دہلی کی گورنمنٹ کے ماتحت کیاجائے تاکہ وہ آفیسرز کی لاپرواہی کافوری نوٹس لے سکیں۔گورنرنجیب جنگ کی مداخلت پر احتجاج ختم ہوا۔انہوں نے مطلوبہ دوپولیس افسران کیلئے جوڈیشل انکوائری شروع کرائی۔

جنوری 2014میں پارٹی کے غازی آباد دفترمیں prashant bhushanکیخلاف دائیں بازو کے لوگوں نے احتجاج کیا۔prashant bhushanنے جموں وکشمیرمیں آرمڈفوورسز(سپیشل پاورز)ایکٹ کے بارے میں بیان دیاتھاکہ وہاں آرمی کی موجودگی وغیرموجودگی کے متعلق ریفرینڈم ہوناچاہیئے۔

فروری 2014میں عام آدمی پارٹی نے جان لوک پال بل کے ایشوپر استعفی دے دیاکیونکہ کانگریس اوربی جے پی اسے منظورنہیں کرناچاہتی تھیں ۔ظاہر ہے مکیش امبانی جیسے صنعت کارکونوازنے والی جماعت جان لوک پال بل کی کیسے حمایت کرتی۔

2014کے جنرل الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے اپنے 434اُمیدوار متعارف کروائے۔جس کا مطلب یہی لیاجاسکتاہے کہ پارٹی رہنماء چاہتے تھے کہ انڈین الیکشن کمیشن اسے قومی پارٹی قراردے۔الیکشن نتائج جب جاری ہوئے تو پارٹی کو کل ووٹوں کادوفیصدووٹ ملا۔ اسکے چارامیدوارپنجاب سے کامیاب ہوئے اوراسکے 414اُمیدواران کی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔جنرل الیکشن میں بھی پارٹی کو دہلی کے ووٹوں میں سے 32.2فیصد ووٹ ملے تاہم دہلی سے اسکاکوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔انڈیاایک کثیرثقافتی ‘کثیرلسانی اورکثیرقومی ملک ہے جس کے مختلف علاقوں میں ووٹ حاصل کرنے کے مختلف طریقہ ء کارہیں۔جیسے اترپردیش میں برادری کا ووٹ ہے۔عام آدمی پارٹی کو زیادہ تر ووٹ اربن ایریاسے ملا۔

1,33,09,078ووٹرز کیلئے11,763 پولنگ اسٹیشن قائم ہوئے ۔ووٹ کا تناسب اسطرح سے ہے میل 73,89,089‘فی میل 59,19,127‘تھرڈ جینڈر862‘اورسروس5,110‘نان ریذیڈینٹس آف انڈیا:27۔2015کے الیکشن میں کل 673اُمیدواران نے حصہ لیا۔جس میں دس فیصد کی شرح سے کل 66خواتین نے شمولیت کی۔اُمیدواران کی اخلاقی حالت کچھ اسطرح سے ہے‘17فیصد یعنی 114پر کرمنل کیسز ہیں‘34فیصدیعنی230امیدوار کروڑپتی ہیں جبکہ گیارہ فیصد کی شرح سے 74پر سنگین نوعیت کے مجرمانہ کیس ہیں۔

csdsکی رپورٹ کے مطابق دلی کے چالیس فیصدووٹرز اونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔جس میں بارہ فیصد برہمن ‘سات فیصد پنجابی کھتری‘سات فیصد راجپوت‘چھ فیصد ویش اورجین اور آٹھ فیصددوسری بڑی ذاتیں شامل ہیں۔جٹ برادری پانچ فیصدہے جوکہ تقریبا رولرایریامیں رہائش پذیرہے۔سترہ فیصد دلت اوراٹھارہ فیصد گجراوردوسری ذاتوں پرمشتمل لوگ ہیں۔

الیکشن نتائج نہایت حیران کن رہے ۔ مرکز اور دس سے زائد صوبوں پر حکومت کرنیوالی bjpکو شرمناک شکست کا سامنا کرناپڑا۔الیکشن ٹرن آؤٹ 67.08فیصدرہا۔جبکہ 2013کے الیکشن میں ٹرن آؤٹ 65.86فیصد تھا‘اس حساب سے شرح ووٹ میں 1.22فیصد اضافہ ہوا۔54.3فیصد کی شرح سے عام آدمی پارٹی کو 48,79,127ووٹ ملے اور اسکی جھولی میں 67نشستیں عوام نے ڈال دیں۔33.2فیصد کی شرح سے bjpکو 28,91,510ووٹ ملے اور وہ محض تین نشستوں پر کامیاب ہوسکی۔9.7فیصد کی شرح سی ہندوستان کی بانی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس کو 8,67,027ووٹ ملے اوروہ اپناکھاتاہی نہ کھول پائی۔عام آدمی پارٹی کے ووٹ میں مثبت تبدیلی کیساتھ 24.81فیصد اضافہ ہوا‘bjpکے ووٹ میں 14.85جبکہ کانگریس کے ووٹ میں 0.8فیصد کمی ہوئی۔

سال 2015کے دلی الیکشن میں مودی سرکار نے چال چلتے ہوئے اناہزارے کی ایک ساتھی اورسابق پولیس آفیسر کرن بیدی کو19جنوری کو رات گئے وزیراعلی کاامیدوارنامزد کردیا۔یہ ایک سابقہ پولیس آفیسر ہیں جوکہ بی جے پی کے کارکنوں پر اپنی سروس کے دوران لاٹھی چارج بھی کرچکی ہیں۔بی جے پی کو چال الٹی پڑگئی اور اس کے دلی دفتر میں کرن بیدی کے کیخلاف اورپرانے کارکنان کے حق میں زبردست مظاہرہ ہوا۔آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے سینئر رہنماء ہرشن وردھن ‘جگدیش مکھی‘ستیش اپادھیائے اوروجے گوئل اپنے ووٹرز میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ہرشن وردھن گزشتہ الیکشن مہم کے سربراہ تھے جس میں بی جے پی کو اکتیس نشستیں ملی تھیں۔کرن بیدی کی سلیکشن سے یہ بات بھی ووٹرز کے سامنے کھل گئی کہ اروند کجریوال کی طرح کی اخلاقی برتری رکھنے والا کوئی بھی شخص بی جے پی کے پاس نہیں تھا‘جس وجہ سے اسے درآمد کی پالیسی اختیارکرناپڑی۔مودی سرکار نے گزشتہ سال مئی میں ہونے والے لوک سبھاکے انتخابات میں بڑے بڑے وعدے کرکے کامیابی حاصل کی تھی ۔الیکشن مہم کے دوران بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ بلیک منی واپس لاکر ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ لاکھ ڈال دیئے جائیں گے ‘سو اسمارٹ شہروں کی تعمیر‘روزگارکی فراہمی‘تیزترین ریلورے نیٹ ورک ‘ہمہ قسم کی بدعنوانی سے ہند کو پاک کرنے کا عزم‘ٹیکس نظام میں اصلاحات کرکے بیرونی سرمایہ کار کو متوجہ کرنے ‘بے گھر کو گھر کی فراہمی ‘ہر گھر کو شفاف پانی کی فراہمی ‘نئی صحت پالیسی کے ذریعے ہر فرد کیلئے علاج کی سہولیات قابلِ حصول بنانے سمیت کئی وعدے کیئے۔جسے الیکشن جیتنے کے بعد پسِ پشت ڈال دیاگیا۔مودی سرکار تکبرکاشکارہوگئی۔وہ بھول گئی کہ دنیا میں سب سے زیادہ قتل بھارت میں ہوتے ہیں۔ مودی سرکارکویہ بھی نہ یاد رہاکہ بھارت کی تیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی کے پاس دووقت کاکھانا‘رہنے کیلئے چھت اورسترپوشی جتناکپڑابھی نہیں ہے۔ مودی سرکار شاید اس بات سے بھی ناواقف تھی کہ پاپونی اگنی(169۔(کے بعد سب سے زیادہ 845زبانیں ہندوستان میں بولی جاتی ہیں‘یہ ایک کثیرلسانی ‘کثیرقومی وکثیر ثقافتی ملک ہے ‘اس میں انتہاپسندی کورواج دینا مہلک ترین ہے۔مودی سرکار کو اقوام متحدہ کے ادارے undpکی وہ رپورٹ بھی نظر نہ آئی جس میں بھارت کو غریب افرادرکھنے والے ممالک کی فہرست میں 134واں درجہ ملا۔ اسے بس ایک جنون لاحق تھاکہ جمہوریہ بھارت کو ہندوراشٹریہ میں بدلناہے(اپنے مذہب کو ملک میں نافذکیجئے مگراقلیتوں کے حقوق توانھیں دیجئے)۔آر۔ایس۔ایس اوروی ایچ پی جیسی سخت گیر تنظیموں نے گھرواپسی تحریک کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں اورعیسائیوں کو ہندوبنانے کا عمل شروع کیا توان پر کوئی پابندی نہ لگائی گئی۔ ساکشی مہاراج‘یوگی آدتیہ ناتھ نے اقلیتوں کے زخموں پر نمک چھڑکا تو ان کی مذمت نہیں کی گئی۔دہلی الیکشن کے دوران چرچ پر حملہ ہوا‘مسیحی سکول کو نقصان پہنچایاگیالیکن مودی سرکار کے لب خاموش رہے جس کا واضح مطلب خاموش حمایت یاکھلی چھٹی ہی لیاجاسکتاہے۔حال ہی میں امریکی صدرباراک اوبامانے کہا کہ ہندوستان میں مذہبی رواداری کی حالت ایسی ہے کہ اگرمہاتماگاندھی زندہ ہوتے تودہل جاتے ۔شاید سرسید احمد خان کی بات سچ ثابت ہوئی کہ اگر ہندوستان کی ہندوآبادی کو موقع ملا تو وہ اقلیتوں کو پامال ضرورکرے گی۔نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریہ میں لکھا کہ عیسائیوں اورمسلمانوں پر بڑھتے مظالم اورپیسے دے کریادھمکاکران کا مذہب تبدیل کرنے پر مودی کی سرکار خاموش ہے ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یاتوان عناصر کو قابو نہیں کر رہی یا ان پر قابو ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اخبارنے واضح طورپرلکھا کہ مودی کو اپنی یہ خاموشی توڑناہوگی۔دوسری جانب کچھ حلقوں کا یہ بھی کہناہے کہ لوجہاد‘تبدیلی ء مذہب ‘دفعہ 370‘اوریکساں سول کوڈ پر حکومتی خاموشی سے جہاں سیکولرطبقہ اوراقلیتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ انتہاپسندوں کو کھلی چھٹی دی جارہی ہے ‘وہیں انتہاپسند تنظیمیں بھی تذبذب کا شکارتھیں اورمودی حکومت سے کھلی اورڈنکے کی چوٹ پر حمایت کی آس لگائے بیٹھی تھیں جب ان کی یہ آس پوری نہ ہوئی تو انہوں نے مودی سرکارکوسائیڈ لائن پر لگادیا۔

غربیت کی چکی میں پستی عوام کو حقیقی معاشرتی اصلاحات سے غرض تھی ‘جسے بی جے پی نہ نبھاسکی۔حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے سینئر ترین رہنماء امیت شاہ نے یہاں تک کہہ دیاکہ بلیک منی کے ذریعے ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ لاکھ ایک سیاسی نعرہ تھا۔عوام کے زخموں پر ایسی نمک پاشی کے بعد ردعمل سامنے آیا توبی جے پی دلی کی کمزورترین جماعت بن گئی۔bjpکو معلوم ہو گیاہوگاکہ جمہوریہ ہند میں بسنے والی اقلیتیں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ سوائے مصطفی آباد کے مسلمان ووٹرز نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔بی جے پی کو شاید اب یقین آگیاہوگاکہ بھارت میں بیس کروڑ سے زائد مسلمان بھی بستے ہیں اوروہ بھارت کے ہندوشہری جتنے حقوق رکھتے ہیں۔

دہلی میں ایک مربع کلومیٹر پر 11,000ہزارافرادبستے ہیں۔osacکے مطابق100,000افرادکیلئے دہلی میں صرف 129پولیس آفیسرہیں۔جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیامیں نسبتا 100,000افراد کیلئے 350افسرہیں۔دہلی پولیس کی رپورٹ کے مطابق 2011میں 543افراد قتل ہوئے جبکہ 2012میں 521افراد کے قتل کے کیسز ریکارڈ ہوئے۔اسطرح ان دوسالوں میں قتل کی واردات میں چارفیصد کمی ہوئی۔رپورٹ کے مطابق 1953سے 2011تک دیکھاجائے تو قتل ہونے کے واقعات میں 250فیصد اضافہ ہوا۔
2011میں572ریپ کیسز ہوئے جبکہ 2012میں 706ریپ کیسز ریکارڈ کیئے گئے۔ زیادہ ترکیسزریکارڈ ہی نہیں ہوتے۔دہلی کو ’’ریپ دارالحکومت‘‘بھی کہاجاتاہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے مطابق انڈیاکے ریپ کیسزمیں 873.3فیصد اضافہ ہواہے‘1971میں اسکی تعداد2,487تھی جبکہ 2011میں یہ تعداد24,206تک جاپہنچی۔2012میں دہلی پولیس نے 829ڈرگ ٹریفکنگ کیسزریکارڈ کیئے‘جن میں61,272کلوگرام ہیروئن‘افیون 49,500کلوگرام‘2,783کلوگرام کوکین اور1,895,068کلوگرام marijuanaبرآمدکی گئی۔رپورٹ کے مطابق حال ہی میں دہلی پولیس نے ایک سوکروڑ مالیت کی ایفی ڈرین اورپانچ کلوگرام ہیروئن دومختلف گروہوں سے برآمدکی۔نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق دنیامیں اغوابرائے تاوان کی وارداتوں میں انڈیا کا پانچواں نمبر ہے۔جبکہ دہلی میں سال 2011میں اغوابرائے تاوان کے 35,29اور2012میں 3,675کیسز ریکارڈ ہوئے۔سال 2012میں گھریلوچوری کے1746‘دیگرچوری کے 5895‘اغواکے274‘مہلک ایکسڈینٹ کے 1822‘غیرمہلک حادثات کے5115اورڈکیتی کے 28واقعات ہوئے۔انڈیامیں عورت کیخلاف ہونے والے جرموں میں دہلی کاحصہ 15.4فیصدہے۔

دلی کے ایک کروڑ ایک لاکھ ‘انچاس ہزار افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔دہلی کے 52%لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات پینے کاصاف پانی‘بجلی‘سیورج سسٹم سے محروم کچے مکانات میں رہائش پذیرہیں۔یہ تمام مسائل اروند کجریوال کے سامنے اژدھاکی طرح پھن پھیلائے کھڑے انکی انتظامی صلاحیت‘خلوص‘جذبے‘اورضمیرکاامتحان ہیں۔

حالیہ انتخابات میں دھماکہ چوکڑی مچانے والی عام آدمی پارٹی نے ہفتہ چودہ فروری کو رام لیلی میدان میں اپنی تاجپوشی کی رسم اداکی۔اروندکجریوال کی چھ وزراء کی کابینہ میں منیش سسوڈیانائب وزیراعلی‘خزانہ‘تعلیم‘اورشہری ترقیات کی وزارت کے حقدارقرارپائے۔عاصم احمد کمال خوراک ورسد اورماحولیات کے وزیربنے۔گوپال رائے کو نقل وحمل ترقی اورلیبر کی وزارت ملی۔ستیندرجن بجلی ‘صنعت‘صحت پی ڈبلیوڈی اور سندیپ کمارخواتین واطفال بہبود‘ایس سی‘ایس ٹی پر وزیر مقررہوئے۔
دہلی کے آٹھویں وزیراعلی چھیالیس سالہ اروند کجریوال نے اپنی تقریر کے دوران اپنا روڈ میپ دیتے ہوئے کہاکہ فرقہ وارانہ انتہاپسندی کو فروغ دینے اوراس پر سیاست کرنے والے عناصر کو اب ہتھیارڈالناہوں گے ‘ہم دہلی کو ایسا خطہ بنائیں گے جس میں جین‘ہندو‘مسلمان ‘سکھ اورہرمذہب وہرکمیونٹی سے تعلق رکھنے والا شخص تحفظ کیساتھ رہ سکے گا۔اپنے ارکان ‘وزراء کو تکبر سے بچنے کا مشورہ دیا۔میڈیاکو کہا کہ کسی کام کیلئے 48گھنٹے یا چوبیس گھنٹے مت پوچھیئے گاسب کام ہوجائیں گے اوربہتری کیساتھ ہوں گے۔
وی آئی پی کلچرکی مذمت کی اور تاجروں کو ٹیکس اداکرنے کی تلقین کی۔مودی سرکارکودہلی کومکمل ریاست کا درجہ دلانے کا وعدہ یاد دلایا۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص اے اے پی سے وابستگی ظاہر کرکے غلط کام نکالنے کی کوشش کرے تو اس کی سرکوبی کی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں انکا بھی وزیر اعلی ہوں جنہوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا ۔ ہر بوتھ پر ورک کریں گے۔انکی تقریر کا مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے مخالف امیدوار بی جے پی کی کرن بیدی کے متعلق کہا کہ ان کے پاس پولیس انتظامیہ کا تجربہ ہے ‘میں ان سے اس معاملے میں فائدہ اٹھاؤں گا۔ کانگریس کی الیکشن مہم کے سربراہ اجے ماکن کے بارے میں کہاکہ وہ انتظامی امور اورپالیسیاں بناناجانتے ہیں اُن سے بھی استفادہ کروں گا۔یہ ایک ایسابیان ہے جس سے اروند کی دوراندیشی ‘مصلحت اورکام پر توجہ مرکوز کرنے کی بو آتی ہے۔

۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے دعوں کو کہاں تک نبھاتے ہیں۔مرکزی حکومت سے ٹاکرالیئے بغیر کیسے عوام کی فلاح کے کام کرتے ہیں۔آئندہ بہار‘اترپردیش اوربنگال میں الیکشن ہوناہیں ‘فی الحال تواروند نے یہی کہا ہے کہ وہ اپنی توجہ دلی پر ہی مرکوز کریں گے ‘لیکن اگر دلی میں یہ اچھی پرفارمنس دکھا پائے اور بی جے پی نے اپنااندازِ فکر نہ بدلا تواسے بہار ‘اترپردیش اوربنگال میں نقصان ہوسکتاہے۔جمہوری پارٹی ہونے کے ناطے بی جے پی کا فرض بنتاہے کہ وہ اپنی خامیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان پر قابو پائے اورایک مضبوط ہندوستان کی بنیادرکھے۔دوسری جانب عام آدمی پارٹی کو بھی یہ دیکھناہوگاکہ عوام نے کن مسائل سے تنگ آکر اسے بھاری ووٹ دیاہے ‘اگر وہ اس پر پورا نہ اُتری توعوام اسکابھی کانگریس والا حشرکریں گے۔رہے مسلمان ‘عیسائی اوراقلیتیں تو انکے سامنے جلد اروند کجریوال کی پوزیشن آجائے گی اورپھر انھیں جلد اپنے ووٹ کے مستقبل کے بارے فیصلہ کرناہوگا۔

اروندکجریوال کہتے ہیں کے بی جے پی کے اچھے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے ۔اس بیان کے تناظر میں پاکستانی سیاستدانوں کو بھی ایک دوسرے کیساتھ مل کر چلناچاہیئے۔پاکستانی چینلز ویلنٹائن ڈے کو کوریج دیناچاہتے ہیں توانہیں ہم روک تو نہیں سکتے البتہ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اروند کجریوال کے اس بیان کو سیاسی پارٹیوں کی اصلاح کیلئے کوریج دیں ‘اس پر مباحثہ کریں۔پاکستانی عوام کو بھی چاہیئے کہ دہلی کی عوام کی طرح اگلے الیکشن تک صبر کا مظاہرہ کرکے اپنے ووٹ کی طاقت سے غلط اورصحیح کو الگ کردیں۔ذاتی مفادات سے بالاترہوکرقومی مفادکی خاطرووٹ کاسٹ کریں۔اس باردہلی کی عوام نے توایسی ہوشیاری دکھائی کہ بڑے بڑے میڈیاپنڈت بھی اسکی پہچان نہ کرسکے۔یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کوئی نظام اپنے تسلسل کے ساتھ چلتارہے ۔پھر آہستہ آہستہ اس میں سے کھرا‘ کھوٹا مال خود بخود الگ ہوجاتاہے۔حضرت علی کا فرمان عالیشان ہے۔مفہوم: ’’کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں ۔‘‘
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.