سمز کی تصدیق:پہلے مرحلے میں ہدف مکمل....عوام کی مشکلات میں اضافہ!

ملک بھر میں 10 کروڑ سے زاید موبائل فون سمز کی از سرنو بائیومیٹرک تصدیق کی 12 جنوری سے شروع ہونے والی مہم کے دوران ٹیلی کام آپریٹرز نے 10 کروڑ 30 لاکھ موبائل فون سمز کی بائیو میٹرک تصدیق کا 46 فیصد ہدف 36 روز میں حاصل کرتے ہوئے 4 کروڑ 80 لاکھ موبائل فون سمز کی تصدیق کا عمل پورا کرلیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی منصوبے کے تحت موبائل فون کمپنیوں کو 90 روز میں 10 کروڑ 30لاکھ سمزکی تصدیق کرنے کا ہدف دیا گیا تھا۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں موبائل سمز کے استعمال کو روکنے کے لیے گزشتہ سال نادرا کے چیئرمین اور یوفون، موبی لنک، زونگ، وارد اور ٹیلی نار کے چیف ایگزیکٹیو نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ نادرا کے چیئرمین نے وزیر داخلہ کو مطلع کیا تھا کہ اس معاہدے کو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد حتمی صورت دی گئی۔ اس کے تحت جعلی شناختی کارڈز کے ذریعے سم حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا، جس کے بعد وزیرداخلہ نے کہا تھا کہ نئے نظام کے تحت بائیو میٹرک تصدیق کے طریقہ کار سے گزرے بغیر کوئی شخص نئی سم نہیں خرید سکے گا۔ لہٰذا اس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے سمز کی بائیو میٹرک تصدیق کا آغاز سال رواں 12جنوری کو کیا گیا تھا۔ پہلے مرحلے میں ملک کے حساس علاقوں میں ایک شناختی کارڈ پر دویا اس سے زاید سمز کے حامل صارفین کے زیر استعمال سمز کو بائیو میٹرک تصدیق کے عمل سے گزارنا تھا، جس میں صرف پری پیڈ سمز کی تصدیق ہونالازم قرار پائی تھی، جبکہ بلنگ والی پوسٹ پیڈ سمز کو استثنیٰ دیا گیا۔ پاکستان میں سیلولر سبسکرائبرز کی مجموعی تعداد 13 کروڑ 90 لاکھ ہے، تاہم وفاقی حکومت کی ہدایت پر اس سے قبل کی جانے والی تصدیقی مہم میں 3 کروڑ 60 لاکھ سمز کی تصدیق کرتے ہوئے غیرتصدیق شدہ سمیں بلاک کی جا چکیں۔ موبائل فون سمز کی بائیومیٹرک ری ویریفکیشن کے لیے ملک بھر میں 10 کروڑ 30 لاکھ سمز کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک فہرست کو سفید، جبکہ دوسری فہرست کو گرے کلر کی شناخت دی گئی۔ سفید فہرست میں ان صارفین کو شامل کیا گیا، جو حساس علاقے سے باہر اور جن کے استعمال میں ایک شناختی کارڈ پر ایک یا دو موبائل فون سمیں ہیں۔ سفید فہرست میں شامل موبائل فون کنکشنز کی تعداد 5 کروڑ 90 لاکھ ہے۔ گرے فہرست میں پاکستان کے حساس شہروں بلوچستان اور فاٹا میں زیر استعمال 4 کروڑ 40 لاکھ سمز شامل تھیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی( پی ٹی اے ) کے اعدادوشمار کے مطابق موبائل فون سمز کی بائیومیٹرک تصدیق کے پہلے مرحلے میں 3 کروڑ 56 لاکھ شناختی کارڈز کی جانچ کرتے ہوئے 4 کروڑ 74 لاکھ سمز کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ پہلے مرحلے کی جانچ میں 56 لاکھ سمز کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں ہو سکی، جنہیں 26 فروری کو بلاک کر دیا جائے گا۔ ٹیلی کام ماہرین کے مطابق اگرچہ پہلے مرحلے میں تصدیق کے اعداد و شمار خوش کن ہیں، لیکن پہلے مرحلے کے خاتمے تک بلاک ہونے والی سمز کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ تصدیق کا دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے سے زیادہ سخت ہو گا، جو 27فروری سے شروع ہوکر 14اپریل تک جاری رہے گا۔

ٹیلی کام ایکسپرٹ صہیب شیخ کے مطابق حکومت کو بائیومیٹرک تصدیق کے لیے مقررہ مدت میں کم از کم 2 ماہ کی توسیع کرنا ہوگی، اگر مدت میں اضافہ نہ کیا گیا تو 14اپریل کو مہم کے اختتام پر ڈھائی سے 3 کروڑ سمز کی بندش کا سامنا ہو گا، جو ٹیلی کام سیکٹر کے ریونیو میں کمی کے ساتھ خود حکومت کے ریونیو میں بھی کمی کا سبب ہو گا۔ واضح رہے کہ پی ٹی اے کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ملک بھر میں سمز کی بائیو میٹرک تصدیق کی آخری تاریخ 26 فروری مقرر تھی۔ پی ٹی اے نے عوام کی سہولت کے لیے مقررہ تاریخ میں توسیع کی، جن لوگوں کے پاس 3 سے زاید سمیں ہیں، ان کے لیے تاریخ میں توسیع نہیں کی گئی، ایسے افراد 26 فروری تک ہی سمز کی تصدیق کراسکیں گے، جبکہ 3 سے کم سمیں رکھنے والے افراد کو مہلت دیتے ہوئے تصدیق کی مدت 14 اپریل تک کردی ہے۔ حالانکہ جن کے پاس زیادہ سمز ہیں، ان کو مہلت بھی زیادہ ملنی چاہیے تھی، لیکن ان کو مہلت نہیں دی گئی اور کم سمز والوں کو زیادہ مہلت دی گئی ہے، جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ ٹیلی کام ایکسپرٹ نے زور دیا کہ دنیا بھر میں موبائل فون کنکشنز کا دہشت گردی یا جرائم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، جی ایس ایم اے کی گلوبل ریسرچ رپورٹ بھی اس موقف کو تقویت فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں تمام زیر استعمال سمزکی تصدیق اور رجسٹریشن کے بعد بھی دہشت گردی کے واقعات کا امکان ختم نہیں ہوسکتا، سانحہ پشاور میں بھی بائیومیٹرک تصدیق شدہ سمز ہی استعمال کی گئی تھیں، فی الوقت پاکستان میں کام کرنے والے آپریٹرز دباﺅ کا شکار ہیں، سمزکی تصدیق کی مہم کے خاتمے کے بعد یہ دباﺅ انڈسٹری کے دوسرے شعبوں میں منتقل ہو سکتا ہے، جن میں ڈیوائسز یا ڈیٹا سروسز شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 2014 کے اختتام تک موبائل فون کنکشنز کی تعداد 13 کروڑ 57 لاکھ 60ہزار کی سطح پر آگئی، جس میں حالیہ مہم کے دوران 56 لاکھ سمز کی بندش کے بعد ملک بھر میں زیر استعمال کنکشنز کی تعداد 13 کروڑ کی سطح تک آگئی ہے۔ مہم کی تکمیل کے بعد 25 سے 30 ملین سمز کی بندش کی صورت میں ملک بھر میں زیر استعمال سمز کی تعداد بھی 10 کروڑ 50 لاکھ کی سطح پر آنے کا اندیشہ ہے۔ ٹیلی کام انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تصدیق کی مہم کے پہلے مرحلے کے اختتام میں ایک ماہ کی توسیع کی جا سکتی ہے، تاہم اس کا حتمی فیصلہ مہم کی مدت کے خاتمے پر تصدیق کی جانے والی سمزکی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔

پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ اب غیر ملکیوں اور پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے زیرِ استعمال سمز کی تصدیق بھی شروع کر دی گئی ہے۔ غیر ملکیوں کو سم کی تصدیق کے لیے کار آمد ویزہ کی کاپی، مستقل پتہ اور پاکستان میں رہائش کا پتہ دینا ہوگا، جبکہ سم کا غیر قانونی استعمال نہ کرنے کے حوالے سے بیان حلفی بھی موبائل کمپنی کو جمع کروانا ہوگا۔ افغان مہاجرین نادرا کارڈ کی تصدیق شدہ کاپی اور بیان حلفی جمع کروا کر سم کی تصدیق یا نئی سم حاصل کر سکتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے زیرِ استعمال سمز ویزہ ختم ہوتے ہی خود کار نظام کے تحت بند ہو جائیں گی، جبکہ افغانی بھی پاکستان میں قیام کی اجازت تک ہی سم استعمال کر سکیں گے۔ دوسری جانب اپنی سمز بند ہوجانے کے ڈرسے بائیومیٹرک تصدیق کے لیے شہریوں کی کثیر تعدادموبائل فون کمپنیوں کے دفاتر اور فرنچائزز، ریٹیلرز شاپس پر کافی زیادہ رش ہے۔ زیادہ رش ٹیلی نار کی فرنچائز پر دیکھنے میں آتا ہے، جس سے عوام کو کافی زیادہ پریشانی کا سامنا ہے۔ تاہم بہت سے شہریوں کو ایک نیا مسئلہ درپیش ہے اور یہ مسئلہ نادرا کی طرف سے بنائے جانیوالے شناختی کارڈ سے متعلق ہے۔ نادرا کے سسٹم میں بہت سے شہریوں کا بائیومیٹرک ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے سمز کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ ذرائع کے مطابق2005ءسے قبل بننے والے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈزکا بائیو میٹرک ڈیٹاہی موجود نہیں، جس کی وجہ سے عوام کی بہت بڑی تعداد شناختی کارڈ کی ایکسپائری ڈیٹ سے پہلے ہی نئے کارڈ بنوانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جب وہ حضرات اپنی سم کی بائیو میٹرک تصدیق کروانے کے لیے فرنچائز پر جاتے ہیں تو ان کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ کا ڈیٹا موجود نہیں ہے ، جس کی وجہ سے آپ کی سم کی تصدیق نہیں ہوسکتی، لہٰذا آپ اپنا نیا شناختی کارڈ بنوا کر لائیں۔ جس کی وجہ سے موبائل فون سمز کی تصدیق شروع ہونے کے بعد بڑے شہروں میں نادرا کے دفاتر میں بھی رش بڑھ گیاہے اور شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ جبکہ شناختی کارڈ قومی سطح کا معاملہ ہونے کے باوجود بھی نادرا کے دفاتر مختلف شہروں میں بہت کم ہیں، پھر ان میں سے بھی متعدد نادرا سینٹرز میں نئے شناختی کارڈ بنانے کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔ نادراہلکاروں کے مطابق صرف وہی افراد نئے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ایف آئی آر کے ساتھ درخواستیں جمع کروائیں، جن کے شناختی کارڈ گم ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ کسی کے شناختی کارڈ فی الحال نہیں بنائے جائیں گے۔ وجہ ا س کی ویہ بتائی جارہی ہے کہ چونکہ پہلے نئے شناختی کارڈز کے لیے ہزاروں درخواستیں آگے نہیں بھیجی جاسکیں، اس لیے اب پرانی درخواستوں کو نمٹا کر ہی درخواستیں لی جاسکیں گی، ایسے مسائل کی وجہ سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد پریشان ہے، جن میں بزرگ اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ رشوت لے کر بھی نئے شناختی کارڈ بنانے کی اطلاعات ہیں۔ ایک سروے میں شہریوں نے مطالبہ کیا کہ سمز کی تصدیق کے لیے شناختی کارڈز میں انگوٹھے کے نشان کا مسئلہ نئے شناختی کارڈ بنائے بغیر ہی حل کیا جائے۔ حکومت کی طرف سے دیے گئے وقت میں اتنے شناختی کارڈوں کا اجرا اور سمز کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔ 2002 سے 2005 تک ملک بھر میں کروڑوں شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں اور نادرا حکام کا کہنا ہے کہ ان جاری کردہ شناختی کارڈز پر انگوٹھے کے نشان نادرا کے پاس نہیں ہیں، جبکہ مقرر کردہ مدت میں شناختی کارڈوں کو نئے سرے سے بنوانے کا بھی کہا جارہا ہے، چند دنوں میںکروڑوں افراد کے نئے شناختی کارڈ بنانا ممکن نہیں ہے۔ ہر نادرا دفتر روز دو سو ٹوکن جاری کرتا ہے، ایسی صورت میں تمام افراد کو نئے شناختی کارڈ بنا کر نہیں دیے جا سکتے۔ لہٰذا نادرا حکام اس عرصہ میں بنائے گئے شناختی کارڈز پر از سر نو انگوٹھے کا نشا ن اپنے ریکارڈ میں لے کر سمز کی تصدیق کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.