علمائے کرام میدان سیاست میں

میں بلبل نالاں ہوں اِک اُجڑے گلستان کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتاہے
ویسے عوام کی زبان پر یہ ایک بات بہت چل پڑی ہے کہ علمائے کرام کیوں میدانِ سیاست میں آگئے ہیں،ان کا کام تو بس صرف منبرومحراب کو سنبھالنا ہے،لیکن یہ بات سوفیصد غلط ہے کہ علمائے کرام توبس صرف منبرومحراب کو سنبھالنے والے ہیں بلکہ علمائے کرام کاکام ہے لوگوں کو راہِ راست دکھانا،اور یہ کام جس طرح منبرومحراب سے ہوسکتا ہے تو اسی طرح پارلیمنٹ کی ایون سے بھی ہوسکتا ہے۔علماء کا وجود میدان سیاست میں یہ صرف اس زمانے کی بات نہیں ہے بلکہ چودہ سوسال پہلے کی تاریخ پر اگر نظر عمیق دھوڑایا جائے تو وہاں پر بھی پارلیمنٹ کے ایون پر آپ کو علماء ہی علماء نظر آئیں گے،نزول وحی کے دور میں تو خود بنفس نفیس آقائے نامدار ،فخر موجودات ،ہادی عالم، محمد مصطفی ،محمد مجتبیٰ،محمد عربی ﷺ موجود تھے خود ہی سیاسی اور مذہبی امور سرانجام دیا کرتے تھے اسی طرح جنگی دستوں کی تشکیلیں اورمیدانِ کارزار میں صف بندی خود کرلیا کرتے تھے مگر پھر ضعیف العمری اور پیرانہ سالی میں تمام امور اپنے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین میں بانٹ دئے اور وفات کے بعد بھی یہی طریقہ کار جاری تھاپھر خلفائے راشدین کے دور میں صحابہ کرام کی ایک مجلس شوریٰ قائم کر لی گئی جس میں ہر اہم کام کا مشورہ ہوا کرتا تھالیکن خلفائے راشدین کے دور کے بعد جب نظام خلافت میں ملوکیت نے دراڑیں ڈالنا شروع کر دی اور امور سیاست چلانے والے خلفاء نے اپنی مرضی سے امور خلافت کو چلانا شروع کیا،تو علمائے وقت نے انہیں ہر معاملہ میں اپنی مرضی کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہر ایسی بات پر انہیں روکتے اور ٹوکتے رہے ،جہاں ذرا بھی کتاب وسنت کی مخالفت نظر آتی تو ان کے خلاف آوازِحق بلند کرتے تھے ،وہ راہِ حق کے مجاہد ،سپاہ کی تیغ بازی کے مقابلے میں نگاہ تیغ بازی سے کام لیتے رہے۔

یہ علمائے کرام اسی معاشرہ میں پرورش پاتے رہے اور بچپن سے عہد شعور تک انہی خیالات واعتقادات اور رسوم ورواج کو دیکھتے اور سُنتے رہتے تھے جن کی فضاء ان کی چاروں طرف محیط تھی ،کانوں میں ان ہی کی صدا آتی رہتی اور آنکھیں اسی ضلالت و فساد کو دیکھتی رہی ،تو یہی وجہ ہے کہ چشمِ آفتاب نے بہت مرتبہ دیکھا کہ جب ایون اقتدار سے کوئی ایسا کام سرزد ہوا جوکتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ کے مخالف ہو تا تو انہی علمائے کرام نے اپنے آوازِ حق کے ساتھ زلزلہ سا پیدا کر کے ان کی تردید کی ہے اور ان کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششیں کی ہیں۔یہی علمائے کرام ہیں جن کے بغیر ہمارے دنیاوی زندگی بھی ادھوری رہ جاتی ہے اور دینی معاملات اور امور تو ادھورے ہی رہیں گے اگر یہ علمائے کرام اس پارلیمنٹ کی ایون پر نہیں ہوتے تو آج ہم اپنے گھروں میں نمازپڑھنے پر پابند ہوتے کیونکہ حکومت تو ویسے بھی مدارس اور مساجد کو ختم ہونے کے درپے ہیں ،کل اخبار دیکھ رہا تھا تو اس میں یہ ایک خبر بھی لگی تھی کہ پشاور سمیت صوبہ بھر میں نئے مدارس کے قیام پر پابندی عائد کی جارہی ہے جبکہ مساجد میں لاؤڈسپیکر پر اذان اور جمعہ کے خطبے تک محدود رکھا جائے گااور نئے مساجد کے قائم کرنے کے لیے حکومت سے انوسی حاصل کرنی ہوگی بغیر انوسی کے کسی کو نئے مساجد قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔دیکھیں جناب یہ ہیں ہمارے ایوان اقتدار اور پارلیمنٹ کے ممبران جو ایک اسلامی مملکت میں بھی یہ ایسے قوانین جاری کرتے ہیں۔

قارئین کرام آمدم برسر مقصد:میں یہ نہیں کہتا کہ سیاست ہی دین اور اسلام ہے نہیں نہیں ہر گز نہیں مگر سیاست دین اور اسلام کی ایک جزو ضرور ہے ،جب سیاست جزو دین ہے تو پھر آپ لوگ کیوں اس سے علمائے کرام کو نکالتے ہیں؟ خدارا! اپنے اس مملکت خداداد کے محسنین کے ہاتھ میں ہاتھ دیدیں اور اپنے کو بے دینی کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کرلیں،اﷲ تعالیٰ ان علمائے کرام کو عمر دراز نصیب فرما کر حق گوئی کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
 
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 212236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.