وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار
علی خان نے اپنے حلقہ انتخاب کے دورہ کے موقع پر ایک اجتماع میں اپنے خطاب
کا آغاز’’میں اپنی حکومت سے مطمئن نہیں ہوں‘‘ کے الفاظ سے کرکے ن لیگی
شرکاء کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا عوام کے دل کے آواز ان کی اپنی زبانی سن کر
یہ بار پھر ثابت کردیا کہ وہ حقیقی معنوں میں عوامی لیڈر ہیں چونکہ پٹرولیم
مصنوعات کی کمی کے بعد عوام کو یہ آس لگ گئی تھی کہ اشیاء ضروریہ کے ساتھ
ساتھ کرایوں میں واضح کمی ہوگی لیکن حکومت کی کمزرو حکمت علمی اور چیک اینڈ
بیلنس کے ناقص انتظامات کے باعث عوام کو کماحقہ ریلیف نہ مل سکا جس کا
چوہدری نثار علی خان کو احساس تھا کہ حلقہ میں کروڑوں روپے مالیت کے
ترقیاتی کام کروانے کے باوجود عوام کی جانب سے اس کمزور پہلو کی بناء پر
کسی نقطہ چینی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے اس لیے انہوں نے عوام کا شکایت کا
موقع فراہم کیے بغیر ہی حکومتی کمزوری کا اعتراف کرکے انکی ترجمانی کا حق
ادا کرنے کی بہترین کوشش کی جس کو عوام نے ایک جانب سراہا اور دوسری طرف ا
س سے ن لیگ کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ حالات سے یہی لگتا ہے
چوہدری نثار علی خان بھی سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی طرح کسی بھی
وقت ن لیگ سے راہیں جدا کر سکتے ہیں چونکہ جب سے انہوں نے وزارت داخلہ کا
منصب سنبھالا ہے حکومتی معاملات پر زیادہ اوقات میں چپ کا روزہ رکھنے ہی کو
فوقیت دی گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران متعدد بار میاں بردارن سے نا راضگی کی
خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی اس کی بنیادی وجہ یہی ظاہر کی جا تی رہی ہے
کہ چوہدری نثار علی خان کی خواہش تھی کہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب ان کو ملے جس کیلئے انہوں نے راولپنڈی کے ایک
حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیکر صوبائی اسمبلی کی نشت پر کامیابی بھی حاصل
کرلی تھی لیکن الیکشن کی شب ہی جب ن لیگ کی بھاری کامیابی کے نتائج کے
سامنے آ نا شروع ہوئے تو شہباز شریف کے دوبارہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بننے
کے اعلان سے چوہدری نثار علی خان کے تمام خواب چکنا چور ہوکر رہ گئے
بعدازاں انکو وزارت داخلہ جیسے اہم منصب کی زمہ داری دیکر ان کو راضی رکھنے
کی کوشش کی گئی مذکورہ صورتحال کے باوجود چوہدری نثار علی خان کے یہ الفاظ
کہ میں مسلسل تیس سال سے سیاست میں ہوں اور پاکستان کی سیاست میں میرے لیے
اعزاز ہے کہ اﷲ تعالیٰ تعالی نے مسلسل آٹھویں بار کامیابی دی اور میں نے جس
جماعت کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا کہ میں آج بھی اسی میں
قائم و دوائم ہوں اﷲ تعالی کی ذات کے بعد عوام نے مجھے عزت دی ہے میں ان ہی
کا جواب دہ ہوں اور عوام کا قرض اتارنے کیلئے دن رات کوشاں ہوں جنرل مشرف
نے حکومت کے مرکزی عہدے اور عمران خان نے پارٹی میں اہم مقام دینے کی آفر
یں دیں لیکن میں نے مسلم لیگ سے وابستگی کو افضل جان کر تمام تر آفروں کو
ٹھوکرا دیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف سخت
الفاظ استعمال کرنے کے باوجود مسلم لیگ سے راہیں جدا کرنے کا سوچ بھی نہیں
سکتے بلکہ وہ موجودہ حکومت میں اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں تاکہ عوام
نے جس اعتماد کے ساتھ مسلم لیگ ن کو کامیابی دلائی تھی اس کا صیح معنوں میں
حق ادا کیا جاسکے لیکن ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے حکومت ایک جانب
حالت جنگ میں ہے اور دوسری طرف آئے روز کے بجلی گیس اور دیگر بحرانوں نے اس
کی کارکردگی کو سخت نقصان پہنچایا تمام تر کوششوں اور حربوں کے باوجودحکومت
کے حالات بہتری کی جانب جاتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں اس کو مدنظر رکھتے
ہوئے حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے دور بھا گ رہی ہے کہ موجود حالات
میں نتائج حکومت کے تمنا کے برعکس بھی آسکتے ہیں گزشتہ دس سال سے بلدیاتی
انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے حکومت پر عوام اور سپریم کورٹ کی جانب سے کافی
پریشر ہے اور اسی کے پیش نظر ن لیگ نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی بلدیاتی
انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا اعلان کردیا تھا جس پر عمل درآمد
کرتے ہوئے شیڈول کا بھی اعلان ہوا امیدواروں کے انتخابی مہم میں لاکھوں
روپے کے اخراجات کے باجود غلط حلقہ بندیوں کو جواز بنا کر بلدیاتی انتخابات
کا التواء کرادیا گیا اور اب ایک سال سے بھی زائد وقت گزرنے کے باجود حکومت
بلدیات میں شکت کے خوف کے پیش نظر رکھ کر جان چھڑانے کی کوشش میں ہے جو کہ
حکومت کے مسائل میں کمی کرنے کی بجائے زیادتی کا سبب بن رہی ہے اور حکومتی
نمائندوں نے گرتی ہوئے ساکھ کو بحال کرنے اورکارکنوں اور عوام کے حوصلے
بلند کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں کا رونا رونا شروع کردیا ہے جو کہ
پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی حکومت کے نمائندوں کو زیب نہیں دیتاچونکہ
چوہدری نثار علی خان نے اپنے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے
چار چاند لگا دیئے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ حکومت کی مجموعی کارکردگی سے
آئندہ جنرل الیکشن میں ان کے مسلسل جیت کے اعزازکو برقرار رکھنا مشکل میں
نہ پڑ جائے کیونکہ ان کے حلقہ انتخاب میں مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے ختم
ہوتے ہوئے وجود کے برعکس انقلاب و تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والی پارٹی نے
اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہے پیپلزپارٹی اور ق لیگ
کے کارکن مسلم لیگ ن میں شمولیت کی بجائے تحریک انصاف میں شمولیت کو ہی
ترجیح دے رہے ہیں یہ وجہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان اپنی ہر تقریر میں نئی
انقلابی پارٹی ہی کو ہی آڑے لیتے ہیں اور حکومت کی کارکردگی سے خود کومطمئن
ظاہر نہ کرکے عوامی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ |