ایوان صدر، جی ایچ کیو اور سپریم
کورٹ میں جاری بحران کو حل کرنے کے ضمن میں وزیر اعظم کی ثالثی کی کوشش دم
توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کی حکومت نواز شریف کے
اندرون خانہ تعاون سے بھی محروم ہو رہی ہے۔ جس کے بعد سیاسی ماہرین نے رواں
سال کی آخری سہ ماہی میں مڈٹرم الیکشن کی پیش گوئی کر دی ہے۔ خیال کیا جا
رہا ہے کہ 2010-11کا وفاقی بجٹ موجودہ حکومت کی بجائے قومی حکومت تشکیل دے
گی۔ ذرائع کے مطابق صدر زرداری، فوج اور عدلیہ پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا
چاہتے ہیں۔ جس پر ملک کے دونوں اہم اداروں کو شدید تشویش لاحق ہے۔ بتایا جا
رہا ہے کہ میاں نواز شریف این آر او پر حکومت سے سودہ بازی پر آمادہ ہیں
مگر سترہویں ترمیم کے خاتمے اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر عائد پابندی
کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں جب کہ ایوان صدر کے حلقوں کا گمان ہے کہ نواز شریف
محض اس لیے خاموش ہیں کہ اگر فوری الیکشن کرائیں جاتے ہیں تو وہ وزیر اعظم
نہیں بن سکیں گے۔
جبکہ سترہویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات وزیراعظم کو سونپنے سے زرداری
نمائشی صدر رہ جائیں گے اور نہ صرف حکومت بلکہ پارٹی امور سے بھی دست کشی
ہونا پڑے گا جس کے بعد پارٹی میں بغاوت کو روکنا ان کے بس سے باہر ہو جائے
گا۔ صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جسٹس ثاقب نثار
کو سپریم کورٹ بھیجنے کی سمری واپس بھجوا کر سپریم کورٹ سے متعلق اپنے
ارادے ظاہر کر دیئے ہیں جبکہ آرمی چیف کے حوالے سے بھی ان کے عزائم ڈھکے
چھپے نہیں ہیں۔ زرداری جمہوریت کے لبادے میں تمام آمرانہ حقوق اپنے پاس
رکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پارلیمنٹ کو بھی آئینی اختیار دینے پر
آمادہ نہیں ہیں۔
ادھر امریکی حکام نے پاکستان کو دی جانیوالی اور آئی ایم ایف نے قرض کی
قسطیں جاری کرنے سے قبل سخت آڈٹ کا مطالبہ دھرانا شروع کر دیا ہے۔ جس کے
تحت پاکستان کو گزشتہ ماہ ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی قسط روک لی ہے۔ ادھر
اقتصادی ماہرین کےمطابق اگر چند روز میں یہ قسط جاری نہ ہوئی تو حکومت کے
پاس روزمرہ اخراجات، ملازمین کی تنخواہیں اور تیل کے برآمدی بل کی ادائیگی
کے لیے بھی فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔ ادھر بارش کی کمی دریاؤں اور ڈیموں میں
پانی کی قلت کے باعث رواں سال غذائی اجناس کے شدید بحران کا خدشہ ہے جبکہ
طویل لوڈشیڈنگ کے باعث برآمدگی آرڈرز کی تکمیل نہ ہونے سے تجارتی خسارہ میں
بھی اضافہ متوقع ہے۔ ان بدترین حالات میں فوج اور سپریم کورٹ کے لیے مداخلت
ناگزیر ہو جائے گی تاہم اس مرتبہ سیاسی اور حکومتی معاملات کو برآمدات اپنے
ہاتھ میں لینے سے گریز کرتے ہوئے محتسب کا کردار ادا کرنے کو ترجیح دے گی۔
دوسری طرف عدلیہ جس سے پاکستانی قوم کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں مستقبل
قریب میں ملکی سیاست کا پانسہ پلٹنے والے فیصلے دیگی جن میں سے اہم ترین
این آر او کیخلاف فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونا، زرداری سمیت کرپٹ افراد کی
اہلیت اور اہم شخصیات کے بیرون ملک اثاثوں کی واپسی کے حوالے سے فیصلے شامل
ہو سکتے ہیں۔ حکومتیں لانے اور ہٹانے والے خفیہ ہاتھوں نے ان حقائق کا
ادراک کرتے ہوئے وسیع تر قومی حکومت کی تشکیل کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ عمران خان، چودھری اعتزاز احسن یا سپریم کورٹ کے کسی
سابق چیف جسٹس کو قومی حکومت کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے |