پاکستان پر امریکہ کی مہربانیاں

پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندے رچرڈ ہالبروک کا کردار ماضی کے برطانوی وائسرائے کا ہے اس شخص کی پاکستان آمد ایسے ہوتی ہے جیسے پاکستان اس کا آفس ہو۔ تاہم امریکہ جس طرح پاکستان سے سلوک روا رکھے ہوئے ہے پاکستان میں حکمران طبقے کےعلاوہ ہر کوئی امریکہ کو ویلکم کرنے پر تیار نہیں۔ یہ چیز پاکستان کی عوام کی آواز ہے چنانچہ ہمارے سیاست دان چاہے ان کا تعلق حکمرانوں سے ہو یا اپوزیشن سے جب بھی عوام میں جاتے ہیں تو امریکہ کے خلاف نفرت ضرور دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بار رچرڈ ہالبروک کی پاکستان آمد پر قومی اسمبلی چند ممبران نے یہ جسارت کرلی کہ وہ عوامی رائے عامہ کو امریکی نمائندے سے گوشوار کریں لیکن وہ شخص تو اپنے آپ کو پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کا مالک سمجھتا ہےاسے یہ جسارت بھی ناگوار گزری اگرچہ وہ جانتا تھا کہ یہ سیاست دان عملی طور پر امریکہ کے ساتھ ہیں اور امریکی ظلم وستم پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ وہ تو اس لیے ایسی جسارت کرلیتے ہیں کہ انتخابات کے اندر انہیں ووٹ لینے کے لیے عوام کے پاس جانا پڑتا ہے تو وہاں کچھ تو اپنے کارنامے گنوائیں تاہم رچرڈ ہالبروک نے بہت غصہ کیا اور براہ راست اس کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر پاکستان امداد نہیں چاہیے تو صاف کہہ دے۔

اس پر اپنی غلامی کا ثبوت دیتے ہوئے حکمران پیپلزپارٹی کی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب نے بیان جاری کیا کہ امریکہ پاکستان کی اتنی مدد کررہا ہے لہٰذا امریکہ پر سیاست دانوں کی تنقید اس (فوزیہ وہاب) کی سمجھ سے باہر ہے۔ فوزیہ وہاب صاحبہ کی اس بات نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اپنی اس سوچ کو رویو کریں کہ امریکہ پاکستان کا دشمن ہے اور امریکہ کی اس امداد کو سٹڈی کریں کہ جس کا ذکر فوزیہ وہاب صاحبہ کررہی ہیں۔ اس سلسلہ جب ہم نے غور کیا تو پتہ چلا کہ واقعی امریکہ کی پاکستان پر کئی مہربانیاں ہیں جن کا فائدہ ابھی تک پاکستان کے لوگ اٹھا رہے ہیں سب سے پہلے امریکہ کی جو مہربانی نظر آئی وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنانا تھا جس کا فائدہ پاکستان کو یہ ہوا کہ پاکستان نے اپنے ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دیے۔ جہاں سے افغانستان کے مسلمانوں کے قتل عام کے لیے تقریباً ستاون ہزار فلائٹس اڑ کر گئی جس میں بے اندازہ مسلمانوں کے خون کو بہایا گیا۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں کہ جس کے لیے یہ بہانہ تراشا گیا تھا کہ اگر ہم نے اپنے شہروں کو امریکہ سے بچانا ہے تو افغانستان کے خلاف مدد کرنا ہوگی تاہم آج یہ جنگ پاکستان کے گلی محلوں میں پھیل چکی ہے بلیک واٹر کے دہشت گرد مارکیٹوں، مسجدوں اور عوامی مقامات کو اپنی دشت گردی کا شکار بنا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر اس لڑائی نے مسلمان کو مسلمان کا دشمن بنا دیا ہے دنیا کی بہترین پاکستانی فوج دنیا کی گوریلا فورسس کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس لڑائی میں دونوں طرف خون مسلمانوں کا بہہ رہا ہے۔

دوسری مہربانی جو امریکہ نے دی وہ معیشت کو ترقی دینے کے حوالے سے تھی امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مالی امداد دے رہا ہے یہ کیسی مالی امداد ہے کہ اپنے سارے شہر تباہ کر ڈالو اور پھر ان کی تعمیر نو کے لیے بھیک لیتے رہو جس سے تعمیر تو درکنار الٹا مزید نقصان کروانا مقصود ہوتا ہے۔ پاکستان کے حکمران خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس جنگ میں وہ چالیس ارب ڈالر کا نقصان کروا چکے ہیں تو پھر سخت شرائط میں لپٹی امریکی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد مونگ پھلی کے دانے نہیں تو کیا ہے اور یہ امداد بھی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایسی جگہوں پر خرچ کرے جہاں وہ چاہے ۔ واقعی امریکہ کی ایسی امداد پر تنقید سمجھ سے باہر ہے چنانچہ فوزیہ وہاب صاحبہ کی ناسمجھی ہماری سمجھ میں تو آرہی ہے۔

امریکہ کی تیسری مہربانی بھارت کو پاکستان پر برتری دلانا ہے وہ بھارت جو پاکستان کے قیام سے اب تک پاکستان کے لیے مشرقی سرحدوں پر ہمارے لیے مسلسل خطرے کی صورت میں موجود ہے اب امریکہ کی مہربانی سے وہ مغربی سرحد پر اثر و رسوخ حاصل کر رہا ہے چنانچہ افغانستان میں اس کی موجودگی ہے بلکہ اس نے پاک افغان سرحد پر اکیس کے قریب قونصل خانے کھول رکھے ہیں یہی وہ اڈے ہیں جہاں را کے ایجنٹ پاکستان داخل ہوتے ہیں اور پاکستان کے اندر بلیک واٹر اور دوسری امریکی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں۔

یہ ہیں امریکہ کی مہربانیوں میں سے چند مہربانیاں جن کی وجہ سے فوزیہ وہاب صاحبہ کو امریکہ کے اوپر تنقید پر غصہ آرہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی حکمران بنتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو ناراض نہ کرنے میں ہی ان کا بھلا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں ان مسائل کی وجہ کفار کے سرغنہ امریکہ کی پاکستان میں موجودگی، کفار کا دیا وہ نظام کہ جس کے ذریعے کفار اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور اُنہی کی مسلط کئے ہوئے حکمران ہیں جو دن رات اپنے آقاؤں کے لیے کام کرتے ہیں انہیں اس سرزمین پر کاروائیاں کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اس تمام پر بھی اُن کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ چنانچہ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے ان تینوں کا یعنی امریکہ، اُس کا دیا ہوا سرمایہ دارانہ جمہوری یا آمرانہ نظام اور اُس کے ایجنٹ حکمرانوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
Saleem Sethi
About the Author: Saleem Sethi Read More Articles by Saleem Sethi: 9 Articles with 8238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.