مادری زبان،پس منظر و پیش منظر
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(21فروری:مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
زبان وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان اپنے احساسات ،خیالات اور اپنے جذبات
دوسرے انسان تک منتقل کرتاہے۔زبان انسان کے اندر کی نمائندگی کرتی ہے ،یہ
مافی الضمیر کے اظہار کایک وقیع ذریعہ ہے۔زبان کے ذریعے انسان اپنی حاجات
اور اپنی ضروریات کا بھی اظہار کرتا ہے ۔انسانی معاشروں میں بولی جانی
زبانیں انسانی باہمی ربط و تعلق کی ایک اہم بنیاد ہوتی ہیں ۔زبان کے ذریعے
جہاں ایک انسان اپنی کیفیات کااظہار کرتاہے وہاں دوسراانسان بھی زبان کے
ذریعے سے ہی پہلے کے ما فی الضمیر کادراک کرتاہے۔کسی انسان کے پاس یہ طاقت
نہیں کہ وہ دوسرے انسان کے اندر جھانک کر اسکاانداہ لگاسکے پس یہ زبان ہی
ہے جس کے الفاظ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں
ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
انسان کی پہلی زبان ’’رونا‘‘ہے۔ماں کے پیٹ سے جنم لے کر وہ سب سے پہلے روتا
ہے اور اپنی ضروریات کا رو رو کر اظہار کرتاہے۔اسی رونے میں اسکی بھوک
پوشیدہ ہوتی ہے ،اسی رونے میں اسکی پیاس ہویداہوتی ہے،اسی رونے سے وہ اپنی
تکلیف اور درد کااحساس دلاتاہے اور اسی رونے سے ہی وہ سوکرجاگنے کااعلان
کرتاہے۔اﷲ تعالی کی شان ہے کہ اس بچے کی سب سے ابتدائی زبان اسکی ماں ہی
سمجھ پاتی ہے حالانکہ رونے کے کوئی الفاظ نہیں ہوتے ،رونے کی کوئی تراکیب
نہیں ہوتیں اور رونے کے کوئی اصول و قوائدبھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ
ایسی زبان ہے جسے بچے کی ماں آسانی سے سمجھ جاتی ہے ۔بہت تجربہ کار ڈاکٹر
اور طبیب بھی بچے کی جس کیفیت کو نہ سمجھ سکے ماں اسکا بخوبی ادراک کرلیتی
ہے،حالانکہ ’’ماں‘‘ نے ’’ماں ‘‘بننے کاکوئی کورس نہیں کیاہوتابس ماں کے
سینے میں ایک دل ہوتا ہے جو بچے کے رونے کی زبان کو ماں کے جذبات میں ترجمہ
کر کے اس تکلیف کی وضاحت کردیتاہے۔بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ اسکا سب سے
پہلا تعلیمی ادارہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں سیکھاہواسبق وہ
بڑھاپے کی دہلیزپر بھی بھلانا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ماں کی گود کے اثرات
بچے کے ذہن پر ایسے نقش ہو کر پختہ ہوجاتے ہیں جیسے پتھر پر کوئی تحریر
کندان کر کے توہمیشہ کے لیے امر کردی جائے۔یہ اولین تعلیمی ادارہ بچے کو جس
طرف بھی موڑنا چاہے بچہ اسی طرف ہی مڑتاچلاجاتاہے۔اسی لیے ہمیشہ یاد رکھے
جانے والے سبق کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ انہیں ماں نے دودھ میں
پلایاہے۔جیسے امریکی بچوں کو اسامہ کاخوف مائیں اپنے دودھ میں پلاتی ہیں
اور اسرائیلی ماؤں نے حماس کاخوف یہودی بچوں کو دودھ میں پلایاہے
وغیرہ۔مادری زبان بھی اسی طرح کاپڑھایاہواسبق ہوتاہے۔
ماں کی گود میں بچہ جو زبان سیکھتاہے وہ ماں کی نسبت سے مادری زبان کہلاتی
ہے کیونکہ ’’مادر‘‘فارسی زبان میں ’’ماں‘‘کوکہتے ہیں۔زبان سیکھنا ایک طویل
مرحلے کامرہون منت ہوتاہے۔کوئی زبان ،اسکے قوائد،اسکی لغت اور اسکے
دیگراسرارورموزایک تھکادینے والا کام ہے لیکن اﷲ تعالی کی شان ہے کہ بچہ
ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ ساری
عمر کے لیے وہ نہ صرف اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تواس زبان
کے مصدر تک کی اہمیت حاصل کرلیتاہے۔خاص طور پر ایسے علاقے جہاں کی زبان
خالص ہوتی ہے اور دیگرزبانوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر وہ زبان اپناآپ گم نہیں
کر بیٹھتی توایسے علاقوں میں تو مادری زبان کا واحد وقیع و مستند ذریعہ ماں
کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کاجھمگٹاہوتاہے جہاں وہ
زبان اپناتاریخی ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان
صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اسکے پس منظر میں اس علاقے کا،اس
تہذیب کا،اس ثقافت کا اور انکی روایات کا عظیم اور صدیوں پر محیط ورثہ بھی
موجود ہوتاہے۔زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔مادری
زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کر رہی ہوتی ہے اور مادری زبان
میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان کے
محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں ،مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان
کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں اور
مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے
ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل
تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں
ہیں جن پر اسکا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔
مادری زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط پرتی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیرت
النبی ﷺ کے واقعات سے بخوبی میسر آتاہے۔یہ ایک معاشرتی انسانی حقیقت ہے کہ
دیہاتوں کی زبان،دیہاتوں کا لہجہ اور دیہاتوں میں استعمال ہونے والے کسی
زبان کے محاورے اور تراکیب شہروں کی نسبت بہت عمدہ اور خالص ہواکرتے
ہیں۔عرب قبائل اپنے بچوں کی زبان کی حفاظت کے لیے انہیں بہت ابتدائی عمر
میں ہی دیہاتوں میں بھیج دیاکرتے تھے۔اس طرح بچوں کی مادری زبان میں ہونے
والی پرورش انکی زبان کے پس منظر میں انکی روایتی و ثقافتی اقدار کی حفاظت
کی ضامن ہوجاتی تھی کیونکہ مادری زبان صرف بولنے تک تو محدود نہیں ہوتی
اسکے اثرات انسانی رویوں میں واضع طور پر اثر پزیر رہتے ہیں۔شاید انہیں
مقاصد کی خاطر آپ ﷺ کی پرورش بھی بنواسد کے دیہاتی ماحول میں ہوئی۔اسی طرح
دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے
کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان
فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں ۔مادری زبان میں تعلیم سے
بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے
پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں ۔مادری زبان میں دی جانے والی
تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں
وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے
دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ
مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اسکے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی
اور مہینوں کاکام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔
مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے ،زبان کی
آبیاری ہوتی ہے ،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت
بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پزیر
رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ
ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پزیر رہتی ہے،نئے نئے محاورے اور
روزمرے متعارف ہوتے ہیں ،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں
کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔جس طرح قوموں کے درمیان اور
تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان جنگ رہتی ہے اسی طرح زبانوں کے درمیان بھی
ہمیشہ سے غیراعلانیہ جنگ جاری رہی ہے ،جوجوزبانیں تعلیم کا ذریعہ بن کر
انسانی رویوں میں شامل ہوجائیں وہ اس جنگ میں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں
بصورت دیگر تاریخ کی کتب اورآثارقدیمہ کے کھنڈرات بے شمار زبانوں کی آخری
آرامگاہ کے طور پر اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔وطن عزیز،اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں بہت سی مادری زبانیں ہیں جنہیں علاقائی زبانیں بھی کہا جاسکتا
ہے ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم علاقوں میں ان زبانوں کی سرپرستی
کی جاتی ہے۔پاکستان کا تعلیمی نظام،عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب
،دورغلامی کی باقیات،انگریزی زبان میں ہے۔بعض اوقات تو اس غیرضروری حد تک
انگریزی زبان کو استعمال کیا جاتا ہے کہ اگرانگریز بھی ہوتے تو
شرماجاتے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ابھی آزاد نہیں ہوئے؟دنیابھر جہاں بھی کوئی
تعلیم حاصل کرنے جائے تو پہلے اسی وہاں کی قومی زبان سکھائی جاتی ہے اور
پھر اسی زبان میں اسے تعلیم دی جاتی ہے۔جبکہ پاکستان کا معاملہ بالکل الٹ
ہے۔
چین کے انقلابی راہنماماؤزے تنگ بہت اچھی انگریزی جانتے تھے لیکن عالمی
انگریزراہنماؤں سے بھی جب ملتے تو درمیان میں اپنی زبان کا مترجم بٹھاتے
،وہ سب سمجھتے تھے کہ انگریزکیاکہ رہا ہے لیکن مترجم کے ترجمے کے بعد جواب
دیتے۔انگریزکوئی لطیفہ سناتاتو سمجھ چکنے کے باوجود مترجم کے ترجمہ کرنے پر
ہی ہنستے تھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں نے جب جاپان فتح کیاتو شاہ
جاپان نے ان سے ایک ہی بات کہی کہ میری قوم سے میری زبان مت چھیننا۔نشے کی
ماری ہوئی چینی قوم اور جنگ میں تباہ حال جاپانی قوم اپنی زبان کی مضبوط
بنیادوں کے باعث آج دنیا میں صف اول میں شمار ہوتی ہیں جبکہ انگریز کی
تیارکردہ غلامانہ مصنوعی سیکولرقیادت کے مقروض لہجوں نے آج پاکستان کوذلت
کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھاہے۔قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے
امتحانات قومی زبان میں منعقدکیے جائیں،ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان
میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔مادری وعلاقائی اور قومی
زبانوں کے ادباء و شعراومحققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے انکی تخلیقات کو
سرکاری سطح پر شائع کیاجائے اور انکے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے
جائیں ،دیگرعالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں
ترجمہ کیاجائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیامیں
اپنا آپ منوا سکے۔لیکن وطن عزیزکامقتدر سیکولرطبقہ جو ذہنی غلامی کی بدترین
مثال ہے قومی ترقی کی راہ میں بدیسی و غلامانہ زبان کی بیساکھیوں کے باعث
سدراہ ہے ۔یہ طبقہ اپنے سیکولر خیالات کوانگریزی تہذیب کے مکروہ لبادے میں
’’جدیدیت‘‘کی ملمع کاری کو قوم میں نفوذکرناچاہتاہے لیکن اب اس طبقے کی
الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے،انشاء اﷲ تعالی۔ |
|